Baseerat-e-Quran - Hud : 110
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ فَاخْتُلِفَ فِیْهِ١ؕ وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِیَ بَیْنَهُمْ١ؕ وَ اِنَّهُمْ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُ مُرِیْبٍ
وَ : اور لَقَدْ اٰتَيْنَا : البتہ ہم نے دی مُوْسَى : موسیٰ الْكِتٰبَ : کتاب فَاخْتُلِفَ : سو اختلاف کیا گیا فِيْهِ : اس میں وَلَوْ : اور اگر لَا : نہ كَلِمَةٌ : ایک بات سَبَقَتْ : پہلے ہوچکی مِنْ : سے رَّبِّكَ : تیرا رب لَقُضِيَ : البتہ فیصلہ کردیا جاتا بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان وَاِنَّهُمْ : اور بیشک وہ لَفِيْ شَكٍّ : البتہ شک میں مِّنْهُ : اس سے مُرِيْبٍ : دھوکہ میں ڈالنے والا
اور یقینا ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھی جس میں (لوگوں نے) اختلاف پیدا کیا اور اگر آپ کے رب کی طرف سے ایک بات طے نہ کردی گئی ہوتی تو ان کا فیصلہ کردیا گیا ہوتا اور یہ لوگ اس کی طرف سے ایک ایسے شک میں مبتلا ہیں جس نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے
لغات القرآن آیت نمبر 110 تا 113 اختلف (اختلاف کیا گیا) کلمۃ (حکم) سبقت (گذر گیا، گذر گئی) قضی (فیصلہ کردیا گیا) مریب (شبہ میں ڈالنے والا) کل (ہر ایک، سب کے سب) لیوفین (پورا کئے جائیں گے) استقم (سیدھا رہ) امرت (تجھے حکم دیا گیا ) تاب (متوجہ ہوا ، توبہ کی) لاتطغوا (نافرمانی نہ کرو) لاترکنوا (تم مائل نہ ہو) تمس (پہنچے گی ) اولیاء (ولی) ، دوست، حمایتی ) لاتنصرون (تم مدد نہ کئے جائو گے) تشریح :- آیت نمبر 110 تا 113 کفار و مشرکین اور مناقفین کو جب بھی موقع ملتا وہ دین اسلام اور نیب کریم ﷺ کی ذات پاک پر کیچڑ اچھالنے اور اسلام کی تعلیمات کو لوگوں کی نگاہوں میں بےوقعت اور بےقیمت بنانے میں کسر نہ چھوڑتے، کبھی مذاق اڑاتے، کبھی بےبنیاد پروپیگنڈا کرتے اور کبھی قرآن کریم کی بعض آیات کی تصدیق کرتے اور کبھی انکار ان باتوں سے نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کو شدید ذہنی تکلیف پہنچتی تھی۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے نبی مکرم ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے نبی ﷺ آپ ان ظالموں کی باتوں کی پرواہ نہ کریں اور اللہ کے دین کو پہنچانے میں اپنی صلاحیتوں کو کام میں لائیں۔ یہ اسلام کے دشمن خود ہی صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔ اس جگہ پر بھی اللہ تعالیٰ نبی مکرم ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرما رہے ہیں کہ اے نبی ﷺ ! آپ ان لوگوں کی پرواہ نہ کریں جو قرآن کریم میں اختلاف کر رہے ہیں یہ تو ان لوگوں کا وہ مزاج ہے جس پر یہ ہمیشہ سے چلے آئے ہیں۔ حضرت موسیٰ کو توریت جیسی عظیم کتاب دی گئی تھی لیکن انہوں نے اس میں بھی کجی اور ٹیڑھ پن تلاش کرنے میں کسر نہیں چھوڑی تھی۔ فرمایا آج اگر یہ اسی روش پر چلتے ہوئے قرآن کریم میں اختلاف کر رہے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آپ ان کی پرواہ نہ کیجیے۔ اللہ جب چاہے گا ان کے لئے فیصلہ کر دے گا لیکن اس اللہ نے ایک مدت مقرر کی ہوئی ہے جس میں ان کی جہالتوں کا ان کو بدلہ دیا جائے گا۔ اللہ نے اگر یہ فیصلہ نہ کیا ہوا ہوتا تو ان کو وہ کسی بھی وقت تہس نہس کرسکتا تھا۔ فرمایا کہ اے نبی ﷺ آپ خود اور وہ حضرات جنہوں نے کفر و شرک سے توبہ کر کے ایمان و عمل صالح کی زندگی اختیار کرلی ہے اپنی جگہ پوری استقامت سے عمل کرتے رہیں اور ان کی طرف نہ دیکھئے جن کے لئے جہنم مقدر کردی گئی ہے اور ان کا بھیانک انجام ہے۔ اصلم میں مخالفت کے طوفانوں میں عقائد، عبادات، معاملات، اخلاق، معاشرت اور کسب معاش میں اس طرح سے ڈٹ جانا کسی حال میں اس ڈگر سے نہ ہٹنا اور جم کر کفر، شرک ، منافقت اور بد دعات و خرافات کا مقابلہ کرنا نہیات مشکل کام ہے لیکن وہ لوگ جو ہر طرف سے منہ پھیر کر اللہ و رسول کی فرماں برداری میں حالات کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں اور بڑے سے بڑا لالچ اور تمنا ان کے پائے استقلال میں لرزش بھی پیدا نہیں کرتی تو وہی کامیاب و بامراد ہیں۔ نبی کریم ﷺ اور آپ کے جاں نثاروں کو کفار و مشرکین نے ایسی ایسی تکلیفیں پہنچائیں اور ظلم و ستم کی انتہا کردی جن کے تصور سے روح بھی کانپ اٹھتی ہے لیکن ان کے قدموں میں ذرا بھی لرزش پیدا نہیں ہوئی۔ آج نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرم کی اسی استقامت نے دین اسلام کو دنیا کے ایک ایک کونے میں پہنچا دیا اور ان ہی کے صدقے میں آج ہم مسلمان ہیں۔ اگر وہ استقامت نہ دکھاتے تو صورتحال مختلف ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ یہی فرما رہے ہیں کہ اے نبی ﷺ آپ اور آپ کے جاں نثار صبر و استقامت کے ساتھ حق و صداقت کیلئے ڈٹ جائیں، ان کفار کو اپنا کام کرنے دیں۔ انہوں نے نہ تو کل اللہ کے دین کو تسلیم کیا تھا اور نہ آج کریں گے۔ لیکن جو خوش نصیب ہیں وہ اسلام کی دولت سے ضرور مالا مال ہوں گے اور کفار و مشرکین اس دنیا میں اور آخرت میں سوائے برے انجام کے اور کچھ بھی حاصل نہ کرسکیں گے۔
Top