Baseerat-e-Quran - Hud : 114
وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ١ؕ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّاٰتِ١ؕ ذٰلِكَ ذِكْرٰى لِلذّٰكِرِیْنَۚ
وَاَقِمِ : اور قائم رکھو الصَّلٰوةَ : نماز طَرَفَيِ : دونوں طرف النَّهَارِ : دن وَزُلَفًا : کچھ حصہ مِّنَ : سے (کے) الَّيْلِ : رات اِنَّ : بیشک الْحَسَنٰتِ : نیکیاں يُذْهِبْنَ : مٹا دیتی ہیں السَّيِّاٰتِ : برائیاں ذٰلِكَ : یہ ذِكْرٰي : نصیحت لِلذّٰكِرِيْنَ : نصیحت ماننے والوں کے لیے
اور آپ دن کے دونوں سروں پر نماز قائم کیجیے اور رات کے کچھ حصے میں بیشک نیکیاں برے کاموں کو مٹا دیتی ہیں۔ یہ بات نصیحت قبول کرنے والوں کے لئے ایک نصیحت ہے
لغات القرآن آیت نمبر 114 تا 117 اقم (قائم کیجیے) طرفی (طرفین) دونوں طرف، دو کنارے النھار (دن) زلف (زلفۃ کی جمع) ، رات کا حصہ جو دن سے ملا ہوا ہو الیل (رات) الحسنت (الحسنۃ) نیکیاں یذھبن (جائیں گی (لے جائیں گی) السیئات (السئنۃ) برائیاں ذکری (دھیان) اصبر (صبر کیجیے) لایضیع (ضائع نہیں کرتا) اجر (بدلہ) المحسنین (نیکیاں کرنے والے) القرون (قومیں) اولوبقیۃ (صاحبان خیر، نیکیاں کرنے والے) اترفوا (مزہ پایا، فائدہ حصال کیا) مصلحون (اصلاح کرنے والے) تشریح : آیت نمبر 114 تا 117 سورة ھود میں اللہ تعالیٰ نے سات انبیاء کرام کی دین کی سربلندی کے لئے ان کی جدوجہد اور ان سعادت مندوں کا ذکر فرمایا ہے جنہوں نے اطاعت انبیاء اور ایمان کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کی اور وہ لوگ جنہوں نے انیباء کرام کی اطاعت و فرماں برداری کا اناکر کر کے اللہ کے غضب کو دعوت دی تھی تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد اس سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی وساطت سے ساری امت کے لئے چند اصولی باتیں ارشاد فرمائی ہیں : 1) پہلی بات تو یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ سے فرمایا گیا ہے کہ آپ ان ظالموں کو ان کے حال پر چھوڑ دیجیے اور صبح و شام اور رات کی تاریکیوں میں نہایت خشوع اور خضوع سے اللہ کی بندگی و اطاعت کے لئے نمازیں قائم کیجیے نماز ہی نجات کا ذریعہ ہے۔ کیونکہ نماز ایک ایسی عبادت ہے جو برائیوں کو دور کرکے برائی کی ہر صورت کو اچھائیوں میں تبدیل کردیتی ہے۔ یہ ایک ایسا نور ہے جس سے ہر ظلمت اور تاریکی چھٹتی چلی جاتی ہے۔ قرآن کریم کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ صبر اور صلوۃ کامیابی اور کامرانی کی کنجی ہے۔ قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر صبر و صلوۃ کے ذریعہ استقامت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے۔ 2) دوسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ فساد فی الارض کی کوئی بھی شکل ہو اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ فرمایا گیا کہ ایسا کیوں نہ ہوا کہ ہر قوم میں سے وہ لوگ آگے بڑھ کر فساد کو جڑ و بنیاد سے کھود کر رکھ دیتے جن کو اللہ نے دین کی عقل اور سجھ عطا فرمائی تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امت کے ہر اس فرد کی ذمہ داری ہے (جس کو اللہ نے راہ ہدایت عطا فرمائی) کہ وہ امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے فرض کو سرانجام دینے کی ممکن کوشش کرے۔ امت محمدیہ ﷺ میں خیر امت کے ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ پوری دنیا کے لوگوں کو ہر برائی سے روکنے اور ہر اچھائی پر قائم کرنے کی جدوجہد کرے اور فساد کی کوئی بھی شکل ہو اس کو دور کرنے کی جدوجہد میں سب سے آگے بڑھ کر کام کرے۔ 3) تیسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ گزشتہ قوموں کی تباہی میں سب سے بڑا سبب یہی تھا کہ اللہ نے ان کو ہر نعت سے نوازا، خوش حالی اور عیش و عشرت کا ہر سامان عطا فرمایا مگر انہوں نے اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے بدمستی اور جرائم کا ایسا ارتکاب کیا کہ وہ قوم کفر و شکر اور مصیبت و گناہ میں غرق ہوتی چلی گئیں۔ ہر وہ شخص جو ان کو نصیحت کرتا ان کے لئے دنیا و آخرت کی بھلائی کی بات کرتا وہ ان کے لئے بارگراں بن کر رہ گیا تھا اور انہوں نے اپنی عیاشیوں کے سامنے انبیاء کرام کی تعلیمات تک کو نظر انداز کردیا تھا نتیجہ یہ ہوا کہ جن لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرماں برداری کی ان کو تو نجات مل گئی لیکن جنہوں نے نافرمانی کا طریقہ اختیار کیا ان کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا گیا اور وہ اللہ کے شدید عذاب کی نظر ہو گے۔ 4) چوتھی بات یہ ارشاد فرمائی گئی کہ اگر کوئی جماعت اپنی اصلاح میں لگ جاتی ہے تو اللہ کی لغزشوں کو معاف فرما دیتا ہے۔ اللہ جو اپنے بندوں پر نہایت مہربان اور رحم کرنیوالا ہے اس کو یہ شوق نہیں ہے کہ اپنے بندوں کو عذاب میں مبتلا کر دے بلکہ وہ بھی اپنی اصلاح کی فکر کرتا ہے اللہ اس کو پورا پورا موقع عطا فرماتے ہیں۔
Top