Baseerat-e-Quran - Hud : 118
وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَۙ
وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا رَبُّكَ : تیرا رب لَجَعَلَ : تو کردیتا النَّاسَ : لوگ (جمع) اُمَّةً : امت وَّاحِدَةً : ایک وَّ : اور لَا يَزَالُوْنَ : وہ ہمیشہ رہیں گے مُخْتَلِفِيْنَ : اختلاف کرتے ہوئے
اور اگر آپ کا رب چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا مگر اب وہ مختلف راستوں پر چلتے ہی رہیں گے۔
لغات القرآن آیت نمبر 118 تا 123 شآء (اس نے چاہا) لجعل (البتہ وہ بنا دیتا) امۃ واحدۃ (ایک جماعت) لا یزالون (ہمیشہ) رحم (رحم کیا) خلق (اس نے پیدا کیا) املئن (میں بھردوں گا) نقص (ہم بیان کرتے ہیں نثبت (ہم جما دیتے ہیں) فواد (دل) موعظۃ (نصیحت) ذکری (دھیان، توجہ دینے کی چیز) انتظروا (تم انتظار کرو) توکل علیہ (اس پر بھروسہ کیجیے) تشریح : آیت نمبر 118 تا 123 سورة ھود کی ان آخری آیات میں چند بہت ہی بنیادی باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں جو درحقیقت اس سورت کا خلاصہ بھی ہیں۔ 1) پہلی بات تو یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی امت اور ایک ہی ملت بنا دیتی کبھی ان کے درمیان اختلاف پیدا نہ ہوتا وہ سب کے سب ایک ہی مرکز کے گرد گھومتے رہتے لیکن اللہ تعالیٰ نے انسانوں زمین، آسمان، چاند ، سورج، ستاروں، پہاڑوں اور دریاؤں کی طرح ان کو بےاختیار نہیں رکھا بلکہ انسانوں کو اختیار اور انتخبا کی آزادی دے کر اس کی قدرت بخش دی کہ وہ اچھے یا برے اعمال میں سے جس راستے کا چاہیں انتخبا کرلیں اچھائی اور برائی، جنت اور جہنم دونوں کے راستے کھول دیئے۔ اب یہ انسان کی اپنی پسند ہے کہ وہ ان میں سے کس راستے کا انتخاب کرتا ہے اسی پر فیصلہ ہوگا۔ اسی آزادی انتخاب کی وجہ سے اختلافات ہونا، عمل اور طبیعتوں میں فرق پیدا ہونا فطری بات ہے۔ نتیجہ یہ کہ کچھ لوگ سچے دین سے بھی اختلاف کرتے ہیں اور یہ سلسلہ قائم رہے گا۔ اس جگہ اور اختلاف کا فرق سمجھنا ضروری ہے۔ خلاف کے معنی ہیں ضد ہٹ دھرمی اور اپنی ہر بات پر بےجا اصرار جب کہ اختلاف کے معنی اس کے برعکس ہیں یعنی کسی علمی، فکری معاملہ میں اتجہادی اختلاف کرنا۔ درحقیقت قرآن و سنت کے خلاف کرنا، ضد اور ہٹ دھرمی پر جم جانا یہ خلاف شریعت ہے جبکہ اختلاف کرنا یہ رحمت ہے اسی لئے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے۔ اختلاف امتی رحمتہ میری امت کا اختلاف رحمت ہے۔ صحابہ کرام، علماء کرام اور ائمہ مجتہدین کے اختلافات سے علم کے ہزاروں پہلو نمایاں ہو کر سامنے آئے ہیں کیونکہ اس اختلاف میں ضد نفسانیت ، غرور اور تکبر نہیں تھا بلکہ عاجزی، انکساری اور علمی فکر بنیاد ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ ائمہ مجتھدین کے نزدیک ایک بات بہت اہم ہوتی ہے جس پر ان کی رائے ہوتی ہے لیکن جب دلائل سے ان کو یہ بتایا جاتا ہے کہ قرآن و سنت کے مطابق فلاں اصول بنتا ہے تو انہوں نے کھی خلاف نہیں کیا بلکہ اپنی رائے سے فوراً رجوع کرلیا۔ اس کی سینکڑوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ خلاف اور اختلاف میں یہی بنیادی فرق ہے۔ 2) سورة ھود میں سات انبیاء کرام اور ان کی امتوں کا ذکر خیر نبی کریم ﷺ اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام کو یہ تسلی دینے کے لئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جن لوگوں نے اللہ کے نبیوں اور رسولوں کی بات کو مان کر دین اسلام کی سچائیوں کو قبول کیا نجات ان ہی لوگوں کو نصیب ہوئی لیکن جن لوگوں نے اس کے برخلاف ضد اور ہٹ دھرمی سے کام لیا ان کی دنیا اور آخرت دونوں برباد ہو کر رہیں۔ ان واقعات پر سرسری نظر ڈالی جائے تو چند باتیں نکھر کر سامنے آتی ہیں۔ (الف) نبی کریم ﷺ کو یہ بتانا مقصود ہے کہ اس بات سے یقینا آپ کو سکون قلب اور اطمینان حاصل ہوجائے گا کہ اللہ کا دین پہنچانے میں انبیاء کرام کو کس قدر مشکلات اور پریشانیاں اٹھانا پڑی ہیں۔ جاہلوں اور لا علم لوگوں کی اذیت پر انہوں نے کس قدر تحمل اور برداشت سے کام لیا تھا مگر انجام یہ ہوا کہ اللہ نے ان پر ایمان لانے والوں کو دنیا اور آخرت میں سرخ روا اور کامیاب فرمایا اور جنہوں نے ان کی اطاعت و فرماں برداری سے انکار کیا اور غرور تکبر کا طریقہ اختیار کیا اللہ نے ان کو اور ان کی تہذیب کو ملیا میٹ کر کے رکھ دیا۔ (ب) حق و صداقت کی بات اور آواز کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو آخر کار کامیابی اور سرفرازی حق و صداقت کی راہ اختیار کرنے والوں ہی کو نصیب ہوتی ہے اور وہی کمزور آواز قوت و طاقت بن جاتی ہے۔ ْ (ج) امت محمدیہ ﷺ کو بتایا جا رہا ہے کہ وہ ان تمام باتوں سے بچنے کی ہر ممکن تدبیر کریں جن سے گزشتہ انبیاء کرام کی امتیں تباہ و برباد کردی گئیں۔ ( ’) نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبی ! آپ واضح الفاظ میں ان لوگوں سے کہہ دیجیے جو آپ کے مخاطب ہیں کہ اگر تم نے صراط مستقیم کو اختیار نہیں کیا اور اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر جمے رہے تو برے انجام کے لئے تم تیار رہو اور انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں اور آخری بات یہ فرمائی گئی کہ زمین و آسمان کے تمام غیب کا علم اللہ کو ہے وہ جانتا ہے کہ اس کی بنائی ہوئی کائنات کو کس طرح چلایا جاتا ہے وہ اس میں کسی کا محتاج نہیں ہے اور کوئی بھی شخص اللہ کو اپنا محتاج نہ سمجھے بلکہ ہر بات اور ہر معاملہ اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جائے گا وہ اس کے مطابق فیصلہ فرمائے گا لہٰذا اے نبی ﷺ آپ اسی ایک اللہ کی عبادت و بندگی کیجیے اور زندگی کے ہر معاملہ میں اسی ایک ذات پر بھروسہ کیجیے وہ ایک ایک انسان کے ہر عمل سے ہر آن واقف ہے اور اس کا پورا پورا بدلہ عطا فرمائے گا۔ الحمد للہ سورة ھود کا ترجمہ و تشریح مکمل ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن کریم پر عمل کرنے اور سنت انبیاء کو اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین) واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
Top