Baseerat-e-Quran - Hud : 15
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ
مَنْ : جو كَانَ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَزِيْنَتَهَا : اور اس کی زینت نُوَفِّ : ہم پورا کردیں گے اِلَيْهِمْ : ان کے لیے اَعْمَالَهُمْ : ان کے عمل فِيْهَا : اس میں وَهُمْ : اور وہ فِيْهَا : اس میں لَا يُبْخَسُوْنَ : نہ کمی کیے جائیں گے (نقصان نہ ہوگا)
جو لوگ اس دنیا کی زیب وزینت اور رونق چاہتے ہیں، ہم ان کو ان کے اعمال کے بدلہ میں اسی دنیا میں دے دیتے ہیں اور ان کے لئے کمی نہیں کی جاتی۔
لغات القرآن آیت نمبر 15 تا 16 یرید (وہ چاہتا ہے) زینتھا (اس کی زیب وزینت) نوف (ہم پورا دیں گے) لابیخسون (وہ کمی نہ کئے جائیں گے) حبط (ضائع ہوگیا) صنعوا (جو انہوں نے بتایا تھا) بطل (بیکار، فضول) تشریح : آیت نمبر 15 تا 16 نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ” تمام اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے “ اس کی نیت جس طرح کی ہوگی اللہ کا معاملہ بھی اس کے مطابق ہوگا ۔ اگر ایک شخص اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھتے ہوئے وہ اعمال سر انجام دیتا ہے جن کی زبردست فضیلتیں بیان کی گئی ہیں لیکن ان اعمال سے اس کا مقصد محض دکھاوا، شہرت اور دنیا کی بےحقیقت دولت اور مال و زر کا حصول ہو تو وہ اس شخص کے دنیاوی زندگی میں عزت و شہرت صحت و تندرستی اور خوش حالی کا ذریعہ بن جائیں گے لیکن آخرت میں اس کا دامن خالی ہوگا کیونکہ جس کام میں اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی نہ ہو بلکہ ریا کاری ہو اس کا صلہ دنیا ہی میں دیدیا جاتا ہے۔ اس سے یہ بات بالکل واضح طریقے پر سامنے آجاتی ہے کہ جب ایمان عمل صالح اور اعلیٰ ترین اعمال کے باوجود محض ریاکاری کی وجہ سے ایسے شخص کا انجام اتنا بھیانک ہے تو وہ لوگ جو نیکی اور بھلائی کے کام صرف اس لئے کرتے ہیں کہ ان کاموں کا مقصد محض دنیاداری ہے تو اس کا صلہ آخرت میں ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کو اس کی نیکیوں کا بدلہ بغیر کسی کمی کے اسی دنیا میں دیدیا جائے گا۔ آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہ ہوگا۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث جس کو حضرت انس نے بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے تین ایسے اصحاب کا ذکر کیا ہے صجو ایمان لانے کے بعد اللہ اور اس کے رسول کو بہت پسند ہیں، جہاد ، علم قرآن اور سخاوت) جب ایک مجاہد کو پھر ایک عالم کو پھر ایک سخی آدمی کو اللہ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ سب کی زبان پر ہوگا کہ ہم نے جہاد کیا ہم نے علم دین کو پھیلایا اور ہم نے سخاوت سے غریبوں کا بھلا کیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ تم نے یہ سب کچھ اس لئے کیا تھا تاکہ لوگ تمہیں مجاہد، عالم اور سخی داتا کہیں۔ تمہیں لوگوں کی تعریف اور جو انہوں نے عزت کی ہے وہ دنیا میں صلہ کے طور پر مل چکی ہے۔ اب آخرت میں تمہارے لئے کچھ نہیں ہے۔ پھر ایک کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا کہ اس سے ان کی نیت دنیاداری تھی تو جن کی نیکیوں کی بنیاد یہی دنیا داری ہو ان کی نجات اور آخرت میں صلے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی بات کو زیر مطالعہ آیات میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جو شخص بھی دنیا کی زندگی اس کی زیب وزینت مانگے گا اس کو اس کے نیک اعمال کے بدلے میں نہ صرف بہت کچھ دیا جائے گا بلکہ کسی طرح کی کمی نہ کی جائے لیکن ان کا صلہ اور بدلہ اسی دنیا میں دیدیا جائے گا اور آخرت میں سوائے جہنم کی آگ کے اور کچھ نہ ہوگا اور وہ تمام کام جو انہوں نے دنیا داری کے لئے کئے تھے آخرت کی زندگی میں بیکار اور فضول بن کر رہ جائیں گے۔ ان آیات سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ جو کام ایمان لانے کے بعد کئے جاتے ہیں اگر نیت صحیح ہو تو اس کا بدلہ دنیا میں اور آخرت دونوں میں عطا کیا جاتا ہے۔ لیکن جن اعمال کی بنیاد میں ایمان نہ ہو اس کا بدلہ اسی دنیا میں بھگتا دیا جاتا ہے۔
Top