Baseerat-e-Quran - Hud : 25
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ١٘ اِنِّیْ لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۙ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجا نُوْحًا : نوح اِلٰي : طرف قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم اِنِّىْ : بیشک میں لَكُمْ : تمہارے لیے نَذِيْرٌ : ڈرانے والا مُّبِيْنٌ : کھلا
اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کے پاس بھیجا ۔ (انہوں نے کہا کہ ) میں تمہیں صاف صاف (برے انجام سے) ڈراتا ہوں
لغات القرآن آیت نمبر 25 تا 30 اخاف (میں ڈرتا ہوں، اندیشہ رکھتا ہوں) الملاء (سردار) مانری (ہم نہیں دیکھتے) فضل (برتری، بڑائی) اتبعک (جو تیرے پیچھے چلا) اراذل (رذیل) معمولی حیثیت رکھنے والے بادی الرای (سوچنے سمجھنے والے نہ ہوں) عمیت (اندھا کردیا گیا جو نظر نہ آئے) نلزم (ہم مسلط کریں گے) کرھون (برا سمجھنے والے) لا اسئل (میں نہیں مانگتا ) طارد (دھکے دینے والا، نکالنے والا) طردت (میں نے نکال دیا) افلا تذکرون (کیا پھر تم اتنا غور نہیں کرتے) تشریح :- آیت نمبر 25 تا 30 اگر تاریخ انسانی کا مطالعہ کیا جائے تو ابتدا سے ہی لوگوں نے انسانی شرافت اور عظمت کو مال و دولت کی ترازو پر تولنے کی کوشش کی ہے۔ جس کے پاس جتنی دولت ہے اس کا رتبہ اتنا ہی بڑا اور وہی عزت و شرافت کا مالک سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جو شخص مفلس، غریب اور خلای ہاتھ ہے وہ اپنی تمام تر شرافتوں کے باوجود معاشرہ کی نگاہ میں بہت ہی معمولی ذلیل اور نچلے طبقہ والا سمجھا جاتا ہے۔ یہ خرابی آج سے ہزاروں سال پہلے بھی تھی اور آج بھی ہے۔ لیکن تمام انبیاء کرام کو جو بھی تعلیمات عطا فرمائی گئی ہیں ان میں سے اس بات کا صاف صاف اعلان موجود ہے کہ اللہ کی نظر میں صرف وہی ہے سب سے زیادہ عزت و شرافت والا ہے جو تقویٰ اور پرہیزگاری کا پیکر ہے۔ اگر ایک شخص مفلس اور غریب ہے لیکن تقویٰ میں سب سے اونچا ہے تو وہ ایسے ہزاروں لاکھوں مال داروں سے زیادہ افضل و بہتر ہے جن میں تقویٰ کی صفات موجود نہیں ہیں۔ حضرت آدم سے لے کر خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ تک تقریباً ہر نبی سے کفار و مشرکین نے دو باتیں ضرور کہی ہیں : 1) ہم تمہیں اللہ کا نبی کیسے مان لیں جب کہ بشریت کے لحاظ سے تمہارے اور ہمارے درمیان کوئی فرق نظر نہیں آتا تم ہمارے جیسے انسان ہو۔ 2) دوسرے یہ کہ جو لوگ تمہارے ساتھ ہیں وہ معاشرہ کے گھٹیا اور نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے ہیں (نعوذ باللہ) جب تک تمہاری مجلسوں میں اس طرح کے لوگ موجود ہیں ہم تمہاری مجلس میں بیٹھنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ حضرت نوح پر بھی یہی دو اعتراض کئے گئے ۔ قرآن کریم میں ان دو باتوں کے تفصیلی جوابات دیئے گئے ہیں۔ مثلاً جب کفار و مشرکین نے یہ کہا کہ ” تم ہی جیسے بشر ہو “ تو اس کے جواب میں ہر نبی نے یہی فرمایا کہ بیشک ہم تم جیسے بشر ہیں لیکن ایک بہت واضح فرق ہے اور وہ یہ کہ ہماری طرف اللہ وحی بھیجتا ہے اور ہم اس کی پیروی کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ساری دنیا اسی وحی کی پیروی کر کے دائمی نجات حاصل کرلے یعنی کسی نبی نے کفار کے جواب میں یہ نہیں فرمایا کہ ہم بشر نہیں ہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے تقریباً تمام انبیاء کی زبان سے یہی کہلوایا ہے کہ اے نبی ! اس بات کا اعلان کر دو کہ ہم تم جیسے بشر ہیں لیکن ہماری طرف وحی کی جاتی ہے ۔ مجھے ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو انبیاء کرام کی بشریت کا انکار کر کے جاہلوں سے ” سبحان اللہ “ کے نعرے بلند کرا کے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے کوئی بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اگر انبیاء کرام بشر نہیں ہوتے تو آخر اللہ کی وہ کونسی مخلوق ہوتے ہیں جس میں وہ ان کو شامل کرتے ہیں۔ ہمیں تو قرآن کریم سے سبق ملتا ہے کہ اللہ نے اپنی ساری مخلوق میں انسان کو سب سے افضل و بہتر بنایا ہے۔ جس شیطان نے بشریت کو صرف مٹی اور گارے سے بنا ہوا پتلا سمجھا اللہ نے اس کو قیامت تک کے لئے اپنی بارگاہ سے نکال دیا اور جنہوں نے بشریت کی عظمت کو پہچان لیا اور اس کی عظمت کے سامنے اپنا سر جھکا دیا وہ اللہ کے مقرب بن گئے۔ بلاشبہ انبیاء کرام بشر ہوتے ہیں مگر ایسے بشر جن پر بشریت ناز کرتی ہے۔ اور وہ انسانی عظمتوں کی یپکر ہوتے ہیں۔ انبیاء کرام پر دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ان کے ماننے والے وہ لوگ ہیں جن کا تعلق معاشرہ کے بہت چھوٹے طبقے سے ہے۔ یہ اعتراض بھی تمام انبیاء کرام پر کیا گیا جس کا جواب ان انبیاء کرام کی زبان سے دلوایا گیا۔ مثلاً حضرت نوح سے ان لوگوں نے جن کے سامنے آپ نے ایمان کی دعوت کو پیش کیا یہی کہا کہ ہم اس بات کا کیسے اقرار کرلیں جب کہ تمہارے ماننے والے وہ سطحی رائے رکھنے والے غریب لوگ ہیں جن کی رائے اور حیثیت کا معاشرہ میں اعتبار نہیں کیا جاتا۔ حضرت نوح نے ان کے اعتراض کا نہایت متانت اور سنجیدگی سے یہی جواب دیا کہ میں تم سے کسی مال و دولت کا سوال نہیں کرتا۔ میرا اجر تو اللہ کے ذمے ہے اور میں ان لوگوں کو جو ایمان لا کر اللہ کے مخلص بندے بن چکے ہیں اپنی مجلس سے نہیں نکال سکتا کیونکہ اللہ کے ہاں کسی کی شرافت کا معیار دنیا کی گھٹیا دولت نہیں ہوتی بلکہ تقویٰ اور پرہیزگاری اور ایمان کا وہ جذبہ ہوتا ہے جو اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہے۔ قیامت میں وہ اللہ کی بارگاہ میں اپنا اعلیٰ مقام حاصل کرلیں گے۔ اگر میں نے اللہ کے ایسے مقرب بندوں کو اپنے پاس سے اٹھا دیا تو کل قیامت میں میری مدد کون کے گا ؟ نبی کریم خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے بھی اسی طرح کے جاہلانہ سوالات کئے گئے لیکن اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی زبان مبارک سے بھی یہی اعلان کرایا کہ اے نبی ﷺ ! آپ ان لوگوں سے کہہ دیجیے کہ میں تم جیسا بشر ہوں لیکن میری طرف اللہ کی وحی کی جاتی ہے دوسرے یہ کہ جو غریب ، مفلس لیکن مخلص مسلمان میرے اردگرد جمع ہیں میں ان کو اگر چند سرداروں کی خوشی کے لئے نکال دوں گا تو یہ اتنا بڑا ظلم اور زیادتی ہوگی جس کو اللہ معاف نہیں کرے گا۔
Top