Baseerat-e-Quran - Hud : 40
حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَ فَارَ التَّنُّوْرُ١ۙ قُلْنَا احْمِلْ فِیْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَ اَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْهِ الْقَوْلُ وَ مَنْ اٰمَنَ١ؕ وَ مَاۤ اٰمَنَ مَعَهٗۤ اِلَّا قَلِیْلٌ
حَتّٰٓي : یہاں تک کہ اِذَا جَآءَ : جب آیا اَمْرُنَا : ہمارا حکم وَفَارَ : اور جوش مارا التَّنُّوْرُ : تنور قُلْنَا : ہم نے کہا احْمِلْ : چڑھا لے فِيْهَا : اس میں مِنْ : سے كُلٍّ زَوْجَيْنِ : ہر ایک جوڑا اثْنَيْنِ : دو (نرو مادہ) وَاَهْلَكَ : اور اپنے گھر والے اِلَّا : سوائے مَنْ : جو سَبَقَ : ہوچکا عَلَيْهِ : اس پر الْقَوْلُ : حکم وَمَنْ : اور جو اٰمَنَ : ایمان لایا وَمَآ : اور نہ اٰمَنَ : ایمان لائے مَعَهٗٓ : اس پر اِلَّا قَلِيْلٌ : مگر تھوڑے
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور تنور (زمین) میں سے پانی ابلنا شروع ہوگیا تو ہم نے (نوح سے) کہا کہ تم (جانوروں میں) ہر قسم میں سے ایک نر اور ایک مادہ رکھ لو اور گھر والوں کو بھی سوار کرا دو ۔ سوائے اس کے جس پر اللہ کا حکم نافذ ہوچکا۔ اور ایمان والوں کو بھی سوار کرا دو اور نوح پر ایمان لانے والے بہت کم تھے۔
لغات القرآن آیت نمبر 40 تا 47 فار (جوش مارا) تنور (روٹیاں بنانے کے لئے وہ گڑھا جس میں آگ جلتی ہے) احمل (سوار ہوجا) زوجین (زوج) ، جوڑے اثنین (دودو) اھل (گھر والے) سبق (گذر گیا، فیصلہ ہوگیا) ارکبوا (سوار ہو جائو) مجری (چلنا) مرسی (ٹھہرنا، (ارساء سے بنا ہے) جبال (جبل) ، پہاڑ نادی (آواز دی) معزل (کنارہ) بینی (اے میرے بچے ) ساوی (میں پناہ لے لوں گا) یعصمنی (وہ مجھے بچا لے گا) عاصم (بچانے والا ) حال (آڑے آگیا) ابلعی (تونگل لے، پی جا) اقلعی (تورک جا، تھم جا) غیض الماء (پانی اترتا چلا گیا) قضی (فیصلہ کردیا گیا) استوت (برابر ہوگئی، ٹھہر گئی) جودی (جودی پہاڑ) بعداً (دور ہونا) لاتسئلن (تو مجھ سے سوال نہ کر) اعظ (میں نصیحت کرتا ہوں) اسئل (میں سوال کرتا ہوں) الا تغفرلی (اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا) ترحمنی (تو نے رحم (ن 2) کیا) تشریح :- آیت نمبر 40 تا 47 حضرت نوح کی تبلیغ و ہدایت کی طویل جدوجہد اور عظیم ایثار و قربانی اور دوسری طرف پوری قوم کی ضد، ہٹ دھرمی، کفر و شرک اور اللہ و رسول کی اطاعت سے مسلسل انکار تاریخ انسانی کا ایک بہت بڑا واقعہ ہے جس میں عبرت و نصیحت کے لاتعداد پہلو پوشیدہ ہیں۔ حضرت نوح نے ساڑھے نو سو سال تک جس صبر وت حمل اور برداشت سے پوری قوم کو اللہ کی اطاعت و فرماں برداری کی طرف لانے کی کوشش کی اتنی ہی ان کی قوم نے نافرمانیوں کی انتہا کردی اور عذاب الٰہی تک کا مطالبہ کر بیٹھی جب حضرت نوح اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ جن لوگوں کو ایمان کی دولت سے مالا مال ہونا تھا وہ سعادت حاصل کرچکے ہیں اور بقیہ لوگ جسم کے اس گلے سڑے حصے کی طرح بن چکے ہیں جس کو کاٹ کر پھینک دینا ہی سارے جسم کی صحت و عافیت اور سلامتی کا ذریعہ ہے تو حضرت نوح نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا۔ الٰہی اب آپ اس نافرمان قوم کو جڑ و بنیاد سے اکھاڑ کر پھینک دیجیے تاکہ آنے والی نسلیں ان کے شر اور کفر سے محفوظ رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کی دعا قبول کر کے ارشاد فرمایا کہ اب ہمارا فیصلہ آنے والا ہے۔ اے نوح ! آپ ان تمام اہل ایمان کے لئے جنہوں نے ایمان قبول کرلیا ہے ہماری ہدایت کی روشنی میں ایک ایسی کشتی تیار کیجیے جس میں ان کو اور خشکی کے نر و مادہ جانوروں میں سے ایک ایک جوڑے کو لے کر آپ بیٹھ سکیں۔ فیصلے کے مطابق بقیہ پوری ظالم قوم کو پانی کے طوفان میں غرق کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ چناچہ حضرت نوح نے دن رات لگ کر ایک ایسی ہی کشتی تیار کرنا شروع کردی۔ کفار و مشرکین اس بات کا ہر طرح مذاق اڑاتے کہ کیا اب خشکی پر بھی جہاز اور کشتیاں چلیں گی ؟ حضرت نوح ان کے استھزاء اور مذاق کے جواب میں صبر و تحمل سے کام لیتے آخر کار اللہ کا فیصلہ آگیا اور تنور سے جس میں روٹیاں پکانے کے لئے آگ جلائی جاتی ہے اس سے فوارے کی طرح پانی ابلنا شروع ہوگیا زمین کو پھڑا دیا گیا اور اس میں سے ہر طرح کے چشمے ہی چشمے پھوٹ پڑے۔ آسمان کے دروازے اس طرح کھول دیئے گئے کہ مسلسل اور تیز بارش نے طوفانی انداز اختیار کرلیا۔ لوگوں نے پہاڑوں کی طرف دوڑنا شروع کردیا تاکہ اپنے آپ کو بچا سکیں۔ ادھر کشتی نوح جس میں ایک روایت کے مطابق کل اسی (80) مسلمان مرد و عورت اور بچے تھے اور خشکی کے جانور جن کے نر و مادہ کو ساتھ رکھنے کا حکم دیا گیا تھا بقیہ کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا تھا۔ جیسے جیسے پانی نے طوفانی صورت اختیار کی کشتی نوح نے پانی پر تیرنا شروع کردیا۔ پہاڑ جیسی کشتی (جہاز) جب پانی پر محفوظ طریقفہ پر رواں دواں تھی ، اس وقت حضرت نوح کی نظر اپنے بیٹے کنعان پر پڑگئی جو اپنے آپ کو بچانے کے لئے پہاڑ کی طرف دوڑ رہا تھا حضرت نوح نے اس کو آواز دے کر کہا کہ بیٹے تم ایمان لا کر اور کفر کا ساتھ چھوڑ کر ہمارے ساتھ کشتی میں سوار ہو جائو۔ کنعان نے جواب دیا کہ مجھے آپ کی کشتی کے سہارے کی ضرورت نہیں ہے میں پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر اپنے آپ کو بچا لوں گا۔ حضرت نوح نے فرمایا کہ بیٹا آج کے دن اللہ کے فیصلے سے کوئی محفوظ نہیں رہے گا۔ البتہ اگر وہ اپنا رحم و کرم نازل فرما دے تو اور بات ہے۔ یہ گفتگو جاری تھی کہ ایک پہاڑ جیسی موج نے بیٹے کو باپ سے جدا کردیا اور بیٹا پانی میں غوطے کھانے لگا۔ حضرت نوح نے اللہ کی بارگاہ میں درخواست پیش کی۔ الٰہی آپ نے تو یہ وعدہ فرمایا تھا کہ میرے گھر والوں کو بچالیں گے۔ یہ میرا بیٹا ہے اس کو بھی بچا لیجیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نوح یہ تیرے خاندان سے اس لئے نہیں ہے کہ اس کے اعمال صحیح نہیں ہیں اور اے نوح اس کے بعد ہماری بارگاہ میں ایسی درخواست پیش نہ کرنا جس کی حقیقت سے تم واقف نہ ہو۔ حضرت نوح جو ایک باپ کی حیثیت سے اپنی محبت کا اظہار فرما رہے تھے اس ارشاد کے بعد فوراً ہی اللہ کی بارگاہ میں جھک گئے اور توبہ و استغفار شروع کردی اور عرض کیا الٰہی ! اگر آپ نے میری اس بھول کو معاف نہ کیا تو میں سخت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجاؤں گا۔ جب پوری قوم نوح پانی کے اس شدید طوفان کی نذر ہوگئی اور پوری قوم کو غرق کردیا گیا تو اللہ نے زمین کو حکم دیا کہ اے زمین پانی کو نگل لے۔ بادلوں کو تھم جانے کا حکم دیا۔ کشتی نوح آہستہ آہستہ عراق کے شہر موصل میں واقع ” جو دی پہاڑی “ پر رک گئی اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس ظالم قوم اور ان کی ترقیات کو نیست و نابود کر کے رکھ دیا اور اہل ایمان کو نجات عطا فرما دی۔ آپ نے حضرت نوح کے اس واقعہ کو ملاحظہ کیا۔ اب چند باتوں کی وضاحت پیش کی جا رہی ہے تاکہ اس مضمون کے باقی پہلو بھی سامنے آسکیں۔ 1) کشتی نوح : پہاڑ جیسی کشتی جو موجودہ دور میں ایک چھوٹے جہاز کی طرح تھی اس میں کافی گنجائش تھی۔ حضرت نوح نے اللہ کے حکم سے تمام اہل ایمان کو پانی کے شدید طوفان آنے سے پہلے حکم دیا کہ وہ اس کشتی پر سوار ہوجائیں اور خشکی پر بسنے والے جان داروں میں سے ایک ایک نر اور مادہ کو ساتھ رکھ لیں تاکہ نسل انسانی کے ساتھ جانوروں کی نسلیں بھی باقی رہیں۔ پانی کے جانوروں کے لئے یہ حکم اس لئے نہیں تھا کہ وہ پانی میں زندہ رہ کر اپنے وجود کو بچا سکتے ہیں۔ اس کشتی میں ایک روایت کے مطابق اسی (80) اہل ایمان تھے اور ایک رویات یہ بھی ہے کہ زندہ بچ جانے والوں کی تعداد تین سو تیرہ تھی۔ بہرحال اس دور کی معلوم دنیا کے تمام ہی لوگوں کو پانی کے اس طوفان میں غرق کردیا گیا تھا۔ اس موقع پر اس تاویل کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ تاریخی طور پر اس کا ثوبت ہے یا نہیں کیونکہ جب اللہ نے فرما دیا تو ہمارا اس بات پر ایمان ہونا چاہئے کہ قوم نوح پر پانی کا اتنا شدید عذاب آیا تھا کہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر پناہ تلاش کرنے والوں کو بھی پناہ نہ مل کسی ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ابھی انسان کو ساری ترقیات کے باوجود اپنے پاؤں کے نیچے بچھے ہوئے ذرات کی پوری حقیقت کا علم نہیں ہے۔ اگر ان کو پورا علم ہوتا تو وہ تحقیقات کے نام پر کھنڈرات کی اینٹوں سے اور پتھروں سے مدد کیوں لیتے۔ میرا اس بات پر ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی ارشاد فرمایا ہے وہ سچ ہے آج انسان کو اس کی حقیقت کا علم نہیں ہے لیکن جب پوری تحقیق کے بعد معلومات حاصل کرلی جائیں گی تو وہ قرآن کریم کی تردید نہیں بلکہ تائید ہی کریں گی۔ 2) روایات کے مطابق کشتی نوح رجب المرجب کی کسی تاریخ کو رواں دواں ہوئی اور اس پر اہل ایمان سوار ہوئے اور چھ مہینے تک یہ کشتی پانی پر تیرتی رہی۔ جب یہ کشتی اس مقام پر پہنچی جہاں بیت اللہ شریف ہے تو اس کشتی نے اس کے گرد سات چکر لگائے۔ پھر دس (10) محرم کو یہ طوفان مکمل طور پر ختم ہوا اور ” جودی “ پہاڑ پر یہ کشتی ٹھہر گئی۔ بعض روایات کے مطابق عراق کے ایک شہر موصل میں ” جودی “ پہاڑی ہے جس پر یہ کشتی جا کر رک گئی۔ حضرت نوح نے اس دن روزہ رکھا اور تمام اہل ایمان کو اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ 3) حضرت نوح بڑے جلیل القدر پیغمبر ہیں اور آپ نے ساڑھے نو سو سال تک نہایت صبر و تحمل سے اللہ کا دین ہر شخص تک پہنچانے کی کوشش فرمائی۔ مگر بہت کم لوگوں نے ایمان قبول کیا ۔ یہاں تک کہ حضرت نوح کی بیوی اور آپ کے بیٹے نے بھی کفر سے توبہ نہیں کیا اور اسی پر وہ اس دنیا سے چلے گئے۔ اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں کہ : 1) انبیاء کرام کا اور ان لوگوں کا جواب کے طریقوں پر چلنے والے ہیں ان کا کام اللہ کا دین پہنچاتا ہے زبردستی کرنا نہیں ہے کیونکہ دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے اگر اکراہ اور زبردستی ہوتی تو حضرت ابراہیم کے والد آذر، حضرت نوح کا بیٹا اور بیوی، نبی کریم ﷺ کے چچا ابوطالب یہ سب مسلمان ہوتے لیکن ان سب کا خاتمہ کفر پر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ کسی نبی نے پیغام الٰہی کے پہچانے میں کمی نہیں فرمائی کسی طرح کی زبردستی بھی نہیں کی۔ یہی دین اسلام کی روح ہے۔ 2) دوسری بات یہ ہے کہ کفار و مشرکین اور گناہ پرستوں کی صحبت اتنی بری چیز ہے کہ وہ انسان کو بہت سی عظمتوں سے محروم کردیتی ہے۔ حضرت نوح کا بیٹا کنعان برے لوگوں کی صحبت میں بیٹھتا ہے اور اس کے اپنے گھر میں جو اللہ کی رحمت کا دریا بہہ رہا تھا وہ اس سے محروم رہا۔ اسی لئے علماء نے فرمایا ہے کہ ہر انسان کو سب سے پہلے اپنے بچوں کے اخلاق و کردار کی نگرانی کرنی چاہئے اور بری صحبتوں سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے تاکہ وہ بری صحبتوں میں بیٹھ کر خاندان کا نام بدنام نہ کریں۔ باقی تقدیر الٰہی کو کوئی بدل نہیں سکتا۔ حضرت نوح نے اپنی بیوی اور اپنے بیٹے کو ہر ممکن نصیحت فرمائی مگر بری صحبتوں نے ان کو ایمان کے بجائے کفر کے مقام پر لاکھڑا کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ تمام دینی معاملات کا دار و مدار ایمان عمل صالح اور تقویٰ پر ہے۔ خاندان ، نسب اور کسی بڑے باپ کی اولاد ہونے پر نہیں ہے۔ اسی لئے نبی کریم ﷺ نے خاتون جنت حضرت فاطمہ (اور ملت اسلامیہ کی ہر بیٹی) سے فرمایا کہ اے فاطمہ تم یہ مت سمجھنا کہ تم بنت محمد ﷺ ہو اس لئے تمہاری نجات ہوگی۔ بلکہ تمہاری نجات بھی تمہارے اعمال صالحہ کی وجہ سے ہوگی۔
Top