Baseerat-e-Quran - Hud : 5
اَلَاۤ اِنَّهُمْ یَثْنُوْنَ صُدُوْرَهُمْ لِیَسْتَخْفُوْا مِنْهُ١ؕ اَلَا حِیْنَ یَسْتَغْشُوْنَ ثِیَابَهُمْ١ۙ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ١ۚ اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
اَلَآ : یاد رکھو اِنَّھُمْ : بیشک وہ يَثْنُوْنَ : دوہرے کرتے ہیں صُدُوْرَھُمْ : اپنے سینے لِيَسْتَخْفُوْا : تاکہ چھپالیں مِنْهُ : اس سے اَلَا : یاد رکھو حِيْنَ : جب يَسْتَغْشُوْنَ : پہنتے ہیں ثِيَابَھُمْ : اپنے کپڑے يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے مَا يُسِرُّوْنَ : جو وہ چھپاتے ہیں وَمَا يُعْلِنُوْنَ : اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں اِنَّهٗ : بیشک وہ عَلِيْمٌ : جاننے والا بِذَاتِ الصُّدُوْرِ : دلوں کے بھید
سنو ! کہ بیشک یہ لوگ اپنے سینوں کو دوہرا کرتے ہیں تاکہ وہ اس سے چھپ سکیں ۔ سنوچ جس وقت یہ لوگ اپنے کپڑے سمیٹتے ہیں وہ جانتا ہے جو کچھ یہ چپکے چپکے اور اعلانیہ باتیں کرتے ہیں۔ بیشک وہ تو دلوں کے اندر کی بات کو جانتا ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 5 تا 6 ینوتن (وہ دہرا کرتے ہیں) صدور (صدر) سینے لیستخفو (تاکہ وہ چھپا سکیں ) یستغشون (وہ پہنتے ہیں) ثیاب (ثوب) کپڑے یسرون (وہ چھپاتے ہیں) یعلنون (وہ ظاہر کرتے ہیں) دابۃ (زمین پر رینگنے چلنے والا جان دار) مستقر (ٹھکانا) مستودع (سپرد کئے جانے کی جگہ) تشریح :- آیت نمبر 5 تا 6 اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے جس کائنات کو پیدا کیا ہے وہ اس کے ذرے ذرے کا علم رکھتا ہے اس کی نظروں سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ اس کو مخلوقات کی حیثئیت کا بھی علم ہے اور ان کی ضرویرات سے بھی وہ بیخبر نہیں ہے۔ یہاں تک کہ انسانوں کے دلوں میں جن جذبات خائلات اور آرزؤں کی پر وشر ہوتی ہے وہ ان سے بھی واقف ہے اور زمین پر رینگنے والے کیڑے مکوڑوں، ہواؤں میں اڑنے والے پرندوں جنگلوں میں بسنے والے درندوں اور خوردبین سے نظر آنے والی مخلوق سے نہ صرف باخبر ہے بلکہ ان کو رزق پہچانا، ان کی پر وشر کرنا اور ان کو ٹھکانا دینا اللہ کے ذمہ ہے۔ جو اللہ ہر مخلوق تک رزق پہنچاتا ہے اس کو ان کی ضروریات کا پوری طرح اندازہ ہے۔ اگر رزق پہنچانے والے کو یہی نہ معلوم ہو کہ کس مخلوق کی کیا ضرورت ہے تو وہ انہیں ان کا رزق کیسے پہنچا سکتا ہے یقینا اللہ کو اچھی طرح معلوم ہے اور اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے۔ بعض مفسرین نے ان آیات کے پس منظر میں یہ لکھا ہے کہ کچھ مشرکین اور منافقین جن کا کام ہی نبی کریم ﷺ سے دشمنی اور حسد رکھنا تھا وہ یہ سمجھتے تھے کہ جب ہم اپنے گھروں کے دروازے بند کر کے ان پر کپڑے لٹکا لیتے ہیں یا اپنے آپ کو فریب کے خول میں بند کرلیتے ہیں اور نبی کریم ﷺ کے خلاف مشورے اور سازشیں کرتے ہیں تو ان باتوں کا کسی کو کیا علم ہو سکتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ جواب عنایت فرمایا ہے کہ یہ منافقین، کفار اور مشرکین اپنے ان دلی جذبات پر کتنے بھی پردے کیوں نہ لٹکا لیں۔ اپنی شخصیت پر کتنے بھی خول کیوں نہ چڑھا لیں اس اللہ سے پوشیدہ نہیں رہ سکتے جس کو انسان کے دلی خیالات اور پرورش پانے والے جذبات تک کا علم ہے۔ وہ اچھی طرح واقف ہے کہ دین اسلام کے خلاف کون کو ہاں اور کیا سازشیں کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ” کتاب مبین “ لوح محفوظ میں یہ لکھ دیا ہے کہ کس مخلوق کو کتنی مہلت عمل دی جائے گی۔ اگر یہ لکھا وہا نہ ہوتا تو ان کی منافقتوں کا بہت جلد فیصلہ ہوجاتا اللہ کو پوری قدرت ہے کہ وہ آج بھی جس طرح چاہے فیصلہ کر دے وہ مجبور نہیں ہے لیکن یہ اللہ کا حلم اور برداشت ہے کہ وہ ان کو فوراً ہی نہیں پڑکتا بلکہ ان کو ایک مدت تک ڈھیل دیئے چلا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین پر بسنے والی ہر مخلوق کا رزق اپنے ذمے لے رکھا ہے۔ اس نے کائنات میں ایسے اسباب پیدا کئے ہیں جن سے ہر مخلوق کو اس کا رزق اور عارضی یا مستقل ٹھکانا مل جاتا ہے وہ اللہ مخلوق کی ہر ضرورت سے اچھی طرح واقف ہے اور اس کا علم کائنات پر محیط ہے۔ وما من دابۃ فی الارض الا علی اللہ رزقھا میں اللہ نے اسی کی وضاحت فرمائی ہے کہ اللہ کو معلوم ہے کہ کونسی مخلوق کہاں ہے اس کو رزق پہنچانا اللہ کا کام ہے وہ رات کو کسی کو بھوکا نہیں سلاتا۔ اس آیت کی تشریح تو واضح ہے لیکن امام قرطبی نے اپنے قبیلہ اشعر کے کچھ حضرات کا واقعہ لکھا ہے کہ اگر اس بات کا یقین کامل ہوجائے کہ رزق کا ذمہ اللہ نے لے رکھا ہے۔ وہ جنگل میں بھی کسی کو بھوکا نہیں رکھتا اور غیب سے ان کو رزق عطا کرتا ہے تو سارے کام درست ہوجائیں۔ واقعہ یہ ہے کہ قبیلہ اشعری کے چند حضرات جب ہجرت کے کر کے مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو جو کچھ کھانے پینے کا سامان تھا وہ سب ختم ہوگیا۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں میں سے کسی ایک کو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں اس غرض سے بھیجا کہ ان کے کھانے وغیرہ کا کوئی انتظام فرما دیں۔ یہ صاحب جب نبی کریم ﷺ کے دروازے پر پہنچے تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے اس آیت وما من دابتہ کو سنا۔ ان صاحب نے اس آیت کو سن کر سوچا کہ جب سب جانداروں کے رزق کا ذمہ اللہ نے لے رکھا ہے تو ہم اشعری لوگ اللہ کے نزدیک ان جانوروں سے گئے گذرے تو نہیں ہیں۔ وہ ہمیں رزق ضرور دے گا۔ یہ خیال کر کے وہ واپس ہوگئے اور نبی کریم ﷺ کو اپنے حال کی خبر نہ کی۔ واپس جا کر انہوں اپنے ساتھیوں حضرت ابو موسیٰ اور حضرت ابومالک اشعری سے کہا کہ خوش ہو جائو تمہارے لئے اللہ کی مدد آرہی ہے۔ اشعری لوگوں نے یہ سمجھا کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اتنظام ہو رہا ہے۔ وہ اس تصور کے ساتھ مطمئن ہو کر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر نہیں گذری تھی دیکھا کہ دو آدمی ایک بڑے سے برتن میں گوشت اور روٹی لئے چلے آ رہے ہیں۔ لانے والوں نے یہ کھانا ان لوگوں کے سامنے لا کر رکھ دیا۔ ان سب نے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔ پھر بھی کچھ کھانا بچ گیا۔ انہوں نے مناسب سمجھا کہ جو کچھ کھانا بچ گیا ہے وہ نبی مکرم ﷺ کی خدمت میں واپس بھیج دیں تاکہ آپ اپنی ضرورت میں صرف فرما لیں۔ اپنے دو آدمیوں کو یہ کھانا دے کر آپ ﷺ کی خدمت میں بھیج دیا۔ اس کے بعد یہ حضرات نبی کریم ﷺ کی خمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ کا بھیجا ہوا کھانا بہت عمدہ اور لذیذ تھا۔ اس نے واپس آ کر یہ جواب دیا جس سے ہم یہ سمجھے کہ کھانا آپ نے بھیجا ہے۔ یہ سن کر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ کھانا میں نے نہیں بلکہ اس ذات اقدس نے بھیجا ہے جس نے ہر جان دار کا رزق اپنے ذمے لے رکھا ع ہے۔ یہ اور اس طرح کے واقعات اللہ کی طرف سے ہیں تاکہ ہر شخص کو اس بات کا علم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ رزق پہنچانے میں دنیا کے ذرائع اور اسباب کا محتاج نہیں ہے وہ چاہے تو ہر طرح رزق پہنچا دیتا ہے کسی کو بھوکا نہیں رکھتا۔ مگر اللہ کا قانون اپنی جگہ پر اٹل ہے کہ بغیر محنت کئے وہ گھر بیٹھے کسی کو رزق نہیں پہنچاتا، پرندے اور درندے بھی سارا دن محنت کر کے اپنا رزق حاصل کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں تب ان کا پیٹ بھرتا ہے۔ ایک پرندہ بھی جانتا ہے کہ جب میں دن بھر محنت کروں گا تب ہی میرا پیٹ بھرے گا۔ یہ میں نے اس لئے عرض کردیا کہ کہیں یہ تاثر نہ پیدا ہوجائے کہ محنت کرنے کی کیا ضرورت ہے گھر بیٹھے سب کچھ مل جائے گا بیشک یہ اللہ کی قدرت ہے کہ وہ رزق بغیر اسباب کے بھی عطا فرما دے لیکن اس کا قانون کائنات یہی ہے کہ ” انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ جدوجہد کرتا ہے۔
Top