Baseerat-e-Quran - Hud : 64
وَ یٰقَوْمِ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰیَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِیْۤ اَرْضِ اللّٰهِ وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِیْبٌ
وَيٰقَوْمِ : اور اے میری قوم هٰذِهٖ : یہ نَاقَةُ اللّٰهِ : اللہ کی اونٹنی لَكُمْ : تمہاے لیے اٰيَةً : نشانی فَذَرُوْهَا : پس اس کو چھوڑ دو تَاْكُلْ : کھائے فِيْٓ : میں اَرْضِ اللّٰهِ : اللہ کی زمین وَلَا تَمَسُّوْهَا : اور اس کو نہ چھوؤ تم بِسُوْٓءٍ : برائی سے فَيَاْخُذَكُمْ : پس تمہیں پکڑ لے گا عَذَابٌ : عذاب قَرِيْبٌ : قریب (بہت جلد)
(صالح نے کہا کہ) اے میری قوم یہ ایک اونٹنی ہے۔ جو تمہارے لئے اللہ کی نشانی ہے تم اس کو زمین پر آزاد چھوڑے رکھنا تاکہ وہ اللہ کی زمین سے (آزادی کے ساتھ) کھاتی پھرے اور اس کو برائی (کی نیت) سے ہاتھ مت لگانا ورنہ بہت جلد عذاب تمہیں آپکڑے گا
لغات القرآن آیت نمبر 64 تا 68 ناقۃ (اونٹنی) ذرو (چھوڑ دو ، چھوڑے رکھو) تاکل (وہ کھائے) ارض اللہ (اللہ کی زمین) لاتمسوا (تم ہاتھ نہ لگانا) بسوء (برائی سے، بری نیت سے) عقروا (انہوں نے قتل کر ڈالا) تمتعوا (تم فائدہ اٹھا لو) ثلثۃ ایام (تین دن) غیر مکذوب (جھوٹا ہونے والا نہیں ہے ) خزی (رسوائی، ذلت) الصیحۃ (چنگھاڑ، بہت تیز آواز) اصبحوا (وہ ہوگئے) دیار (دیر) گھر جثمین (اوندھے پڑے رہنے والے) تشریح : آیت نمبر 64 تا 68 جب حضرت صالح قوم ثمود کے سرداروں سے فرما چکے کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کائنات کا خالق ومالک ہے اسی ایک اللہ کی عبادت و بندگی کرو۔ میں اللہ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں۔ میری بات مانو۔ کہنے لگے کہ ہم اس بات کا کیسے یقین کرلیں کہ واقعی تمہیں اللہ نے پیغمبر بنا کر بھاجب ہے اگر تم سچے ہو تو سامنے پہاڑ ہے اس سے ایک ایسی اونٹنی پیدا کر ائو جو کہ گابھن ہو اور وہ پیدا ہوتے ہی بچہ پیدا کرے۔ حضرت صالح نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قوم کی اس فرمئاش کو پیش کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح کی اس درخواست کو قبول کیا اور پہاڑ سے گابھن اونٹنی کو پیدا کیا جس نے کچھ دیر کے بعد ایک بچہ جنم دیا۔ اس اتنے بڑے معجزے کو دیکھ کر کسی نے بھی ایمان قبول نہیں کیا۔ کہتے ہیں کہ ان سب لوگوں میں سے صرف ایک شخص نے ایمان قبول کیا۔ بقیہ سب کے سب اپنے کفر پر قائم رہے۔ حضرت صالح نے پوری قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ جب تم نے اللہ سے ایک اونٹنی کا مطالبہ کیا اور اللہ نے معجزے کے طور پر اس اونٹنی کو پیدا فرما دیا تو یہ اونٹنی تمہارے کنوئیں سے پانی پئیے گی لیکن اس دن تمہارے جانور پانی نہیں پئیں گے اس طرح ایک دن اونٹنی پانی پئے گی اور دوسرے دن تمہارے جانور پانی پی سکیں گے۔ ابتدا میں تو وہ سب اس کے لئے تیار ہوگئے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے جانوروں کو پانی نہیں مل رہا ہے اور ایک دن پانی نہ ملنے سے ان کے جانور مر رہے ہیں تو انہوں نے فیصلہ کرلیا کہ اس اونٹنی کو مار دیا جائے تاکہ اس مشکل سے نجات مل جائے۔ حضرت صالح نے فرمایا کہ دیکھو یہ اونٹنی معجزہ کے طور پر تمہیں دی گئی ہے اس کو ستانا یا قتل کرنا تمہیں تباہ کر دے گا۔ مگر یہ نافرمان قوم باز نہ آئی اور ایک دن انہوں نے اس اونٹنی کو مار ڈالا۔ جب حضرت صالح کو معلوم ہوا کہ اونٹنی کو مار دیا گیا ہے تب حضرت صالح کو یقینی ہوگیا کہ اب اس قوم پر عذاب نازل ہونے والا ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس قوم کے لوگ تین دن تک اپنے گھروں میں بسر کرلیں۔ اس کے بعد اس قوم کو اس کی نافرمانی کی سزا مل کر رہے گی۔ چناچہ تیسرے دن ایک ہیبت ناک آواز پوری گھن گھرج کے ساتھ سنائی دی ۔ اس آواز سے ان کے کانوں کے پردے پھٹ گئے۔ ان کے دلوں کی دھڑکنیں بند ہوگئیں، جب کہ وہ میٹھی نیند کے مزے لے رہے تھے، اسی حالت میں ہلاک کردیئے گئے ان کا مال و دولت ، بلند وبالا عمارتیں ان کے کسی کام نہ آسکیں اور اس طرح قوم ثمود اپنے برے انجام کو پہنچ گئی۔ اس کے برخلاف اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح اور ان پر ایمان لانے والوں کو اس عذاب سے محفوظ رکھا اور ان کو نجات عطا فرما دی گئی۔ جب حضرت صالح نے دیکھا کہ پوری قوم مردہ حالت میں پڑی ہوئی ہے تو کہہ اٹھے۔ ” اے میری قوم میں نے اللہ کا پیغام اور نصیحت پہنچا دی تھی لیکن ت میں تو وہی لوگ برے لگتے تھے جو تمہیں صنیحت کرتے تھے (سورۃ الاعراف) “ قرآن کریم کا یہی ایک اسلوب بیان ہے کہ اللہ نے ہر نبی کو اور اس کے ماننے والوں کو عذاب سے محفوظ رکھا اور ان قوموں کو اور ان کے افراد کو تہس نہس کردیا جنہوں نے نافرمانی کا طریقہ اختیار کر رکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نبی کریم ﷺ اور تمام انبیاء کرام پر ایمان کامل کی توفیق عطا فرمائے اور ہر طرح کے برے انجام سے محفوظ فرمائے آمین۔
Top