Baseerat-e-Quran - Hud : 69
وَ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰى قَالُوْا سَلٰمًا١ؕ قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِیْذٍ
وَلَقَدْ جَآءَتْ : اور البتہ آئے رُسُلُنَآ : ہمارے فرشتے اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم بِالْبُشْرٰي : خوشخبری لے کر قَالُوْا : وہ بولے سَلٰمًا : سلام قَالَ : اس نے کہا سَلٰمٌ : سلام فَمَا لَبِثَ : پھر اس نے دیر نہ کی اَنْ : کہ جَآءَ بِعِجْلٍ : ایک بچھڑا لے آیا حَنِيْذٍ : بھنا ہوا
اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوش خبری لے کر آئے۔ انہوں نے سلام کیا ابراہیم نے بھی سلام کیا۔ پھر کچھ دیر نہ گذری تھی کہ وہ (ابراہیم) ایک بھنا ہوا بچھڑا لئے آئے۔
لغات القرآن آیت نمبر 69 تا 76 رسلنا (ہمارے بھیجے گئے، بھیجے ہوئے) البشری (خوش خبری) سلام (سلام، سلامتی) مالبت (نہیں ٹھہرا) عجل (بچھڑا) حنید (بھنا ہوا) را (اس نے دیکھا) ایدیھم (ان کے ہاتھ) لاتصل (نہیں پہنچ رہے ہیں) نکر (اوپرا، عجیب سا لگا) او جس (اس نے محسوس کیا) خیفۃ (خوف) لاتخف (ڈر مت) قائمۃ (کھڑی ہونے والی) ضحکت (ہنس پڑی) وراء (پیچھے) یویلتی (ہائے افسوس) ء الد (کیا میں جنوں گی، (میرے یہاں ولادت ہوگی) عجور (بڑھیا، زیادہ عمر کی ہوجانا) بعلی (میرا شوہر) شیخ (زیادہ بوڑھا ہونا) اتعجبین (کیا تم تعجب کر رہی ہو ؟ ) اھل لبتک (گھر والے) حمید (تمام تعریفوں والا) مجید (تمام عظمتوں والا) الروع (گھبراہٹ) یجادلنا (وہ ہم سے جھگڑنے لگا ) حلیم (بہت برداشت کرنے والا) اواہ (نرم دل) منبی (بہت رجوع کرنے والا) اعرض (در گذر کرو، جانے دو ) غیر مردود (ہٹنے والا نہیں ہے) تشریح : آیت نمبر 69 تا 76 گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح، حضرت ھود اور حضرت صالح اور ان کی قوموں کے واقعات کو بیان فرمان کے بعد حضرت ابراہیم اور حضرت لوط کے دو واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنی قدرت کاملہ کو بیان فرمایا ہے۔ بڑھاپے کی عمر میں حضرت ابراہیم کو حضرت اسحاق جے سو فرزند کی خوشخبری اور حضرت لوط کی قوم کی نافرمانی کے سبب قوم لوط پر عذاب کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ حضرت لوط حضرت ابراہیم کے بھتیجے تھے جو آپ کے ساتھ عراق سے ہجرت کر کے تشریف لائے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط کو نبی بنا کر بھیجا جو شام و فلسطین کے علاقے میں بسنے والی قوم کی اصلاح فرماتے رہے۔ موجودہ دور میں اسرائیل اور اردن کے درمیان بحرمیت (DEAD SEA) کے نام سے ایک سمندر ہے جس کے لئے یہ مشہور ہے کہ اس سمندر میں گہرائی کے باوجود کوئی چیز ڈوبتی نہیں اور نہ اس میں کسی طرح کے جان دار زندہ رہ سکتے ہیں کسی وقت یہ سمندر نہیں بلکہ انسانوں کی جیتی جاگتی بستیاں تھیں جو کو سدوم اور عامورہ کی بستیاں کہا جاتا تھا۔ جب قوم لوط کی مسلسل نافرمانیوں اور غیر فطری اعمال کی وجہ سے اس قوم پر عذاب نازل کیا گیا تب یہ بستیاں زلزلوں کے جھٹکوں کی وجہ سے تباہ و برباد کردی گئیں۔ نہ صرف یہ بستیاں الٹ دی گئیں بلکہ سطح سمندر سے چار سو میٹر نیچے چلی گئیں۔ یہ سمندر جو کہ وادی غوار میں واقع ہے جس کو بحرمیت کہا جاتا ہے آج بھی ساری دنیا کے لئے نشان عبرت ہے۔ قوم لوط میں بدترین بےحیائیوں اور بےشرمیوں کا اس طرح رواج ہوگیا تھا کہ پوری قوم کے نزدیک ” عمل لواطت “ ایک فیشن بن گیا تھا وہ عورتوں کے بجائے لڑکوں اور مردوں سے اختلاط رکھتے تھے۔ حضرت لوط نے اپنی قوم کو اس برے اور بدترین عمل سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن یہ قوم اپنی حرکتوں سے باز نہ آئی اور آخر کار اس قوم پر وہ عذاب نازل ہوا جو اس سے پہلے کسی قوم پر نازل نہ ہوا تھا۔ ان پر آسمان سے پتھر برسائے گئے اور ان کی بستیوں کو اس طرح الٹ دیا گیا کہ آج ان کے شہر اور ان کی بستیاں سمندر کے نیچے چلی گئیں اور غرق کردی گئیں۔ قرآن کریم میں کئی مقامات پر بیان کیا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس قوم کی مسلسل نافرمانیوں کی وجہ سے ان کو تباہ و برباد کرنا چاہا تو چند فرشتوں کو لڑکوں کی شکل میں بھیجا ۔ یہ وہ فرشتے تھے جو سب سے پہلے حضرت ابراہیم کے پاس حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب کی پیداش کی خوش خبری لے کر آئے تھے۔ جب یہ فرشتے حضرت ابراہیم کے پاس پہنچے تو آپ ان کو اجنبی مہمان سمجھ کر فوراً گھر کی طرف تشرفی لے گئے ایک بچھڑا تھا اس کو ذبح کر کے اور اس کو بھون کر مہمانوں کے پاس لے آئے اور فرمایا کہ یہ کھانا کھا لیجیے۔ جب حضرت ابراہیم نے دیکھا کہ وہ اجنبی مہمان کھانے کی طرف اپنا ہاتھ نہیں بڑھا رہے ہیں تب ان کو اندیشہ ہوا کہ یہ کیا معاملہ ہے ؟ کیونکہ اس زمانہ میں رواج یہ تھا کہ جب کوئی کسی کا دشمن ہونا تھا تو وہ اس کے گھر کھانا نہیں کھاتا تھا۔ حضرت ابراہیم اس سوچ میں تھے کہ اس دوران اجنبی مہمانوں نے حضرت ابراہیم کو بتایا کہ وہ کھانا اس لئے نہیں کھا رہے ہیں کہ وہ اللہ کی طرف سے بھیجے گئے فرشتے ہیں جو آپ کو حضرت اسحاق و یعقوب (علیہ السلام) کی خوش خبری دینے اور قوم لوط کو برباد کرنے کے لئے بھیجے گئے ہیں۔ بیٹے کی خوش خبری سن کر حضرت ابراہیم اور آپ کی بیوی حضرت سارہ حیران رہ گئے۔ حضرت سارہ اس تصور سے ہنس پڑیں کہ حضرت ابراہیم تو بوڑھے ہوچکے ہیں اور میں بانجھ ہوں جس کے ہاں اولاد ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ فرشتوں نے کہا کہ اے اہل بیت رسول کیا تمہیں اللہ کی رحمت واقع ہونے میں تعجب ہو رہا ہے حالانکہ اس کی قدرت سے تو کوئی چیز بھی باہر نہیں ہے ادھر حضرت ابراہیم اس تصور سے افسردہ ہوگئے کہ قوم لوط نے توبہ نہیں کی اور بالآخر ان کا بھیانک انجام سامنے آگیا ہے۔ حضرت ابراہیم جو نہایت حلیم الطیع اور نرم مزاج تھے اللہ کے سامنے فریاد کرنے لگے تاکہ قوم لوط پر عذاب کا جو فیصلہ کرلیا ہے وہ ٹل جائے مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرمایا گیا کہ اب اس قوم پر عذاب کا فیصلہ کرلیا گیا ہے جس کو ٹلایا نہیں جاسکتا اور یہ عذاب آ کر رہے گا۔ اس موقع پر قرآن کریم کا مطالعہ کرنے والوں کے ذہن میں یہ سوال ابھر سکتا ہے کہ جب اللہ کے فرشتے حضرت ابراہیم کے پاس آئے کیا ان کو اس بات کا علم تھا کہ یہ فرشتے ہیں ؟ اگر علم تھا تو بھنا وہا بچھڑا کیوں لے کر آئے اسی طرح جب یہ فرشتے لڑکوں کی شکل میں حضرت لوط کے پاس پہنچے ہیں کیا ان کو اس بات کا علم تھا کہ یہ فرشتے ہیں ؟ یہ ایک سوال ہے جس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیاء کرام کو جتنا علم عطا فرماتے ہیں ان کو اتنا ہی علم حاصل ہوتا ہے۔ اللہ ہی کی ذات ہے جو عالم الغیب وا لشھادہ ہے جو موجود اور غیب کا جاننے والا ہے اللہ کے سوا کسی کو عالم الغیب کہنا قرآن تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔
Top