Baseerat-e-Quran - Ibrahim : 42
وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ١ؕ۬ اِنَّمَا یُؤَخِّرُهُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْهِ الْاَبْصَارُۙ
وَلَا : اور نہ تَحْسَبَنَّ : تم ہرگز گمان کرنا اللّٰهَ : اللہ غَافِلًا : بیخبر عَمَّا : اس سے جو يَعْمَلُ : وہ کرتے ہیں الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع) اِنَّمَا : صرف يُؤَخِّرُهُمْ : انہیں مہلت دیتا ہے لِيَوْمٍ : اس دن تک تَشْخَصُ : کھلی رہ جائیں گی فِيْهِ : اس میں الْاَبْصَارُ : آنکھیں
اور تم یہ گمان بھی نہ کرنا کہ وہ ظالم جو کچھ کر رہے ہیں اللہ اس سے بیخبر ہے۔ بلکہ وہ ان کو اس دن تک مہلت دے رہا ہے جس دن ان کی آنکھیں پتھرا کر رہ جائیں گی
لغات القرآن آیت نمبر 42 تا 47 لاتحسبن تم ہرگز گمان نہ کرنا۔ غافل بیخبر ۔ یعمل عمل کرتا ہے۔ یوخر وہ مہلت دیتا ہے۔ تشخص کھلی رہے گی، پتھرا جائے گی۔ الابصار آنکھیں۔ مھطعین دوڑتے ہوئے۔ مقنعی اوپر اٹھائے ہوئے۔ رء وس (راس) ۔ سر لایرتد نہ پلٹے گی۔ طرف آنکھیں۔ ھواء اڑا اڑا ہونا۔ انذر ڈرا۔ اخرنا ہمیں مہلت دے دے۔ نجب ہم جواب دیں گے۔ نتبع ہم پیروی کریں گے۔ پیچھے چلیں گے اقسمتم تم نے قسم کھائی۔ زوال زوال، اترنا۔ سکنتم تم آباد ہوئے۔ مسکن گھر۔ تبین واضح ہے۔ کھل گیا۔ کیف فعلنا ہم نے کیا کیا۔ ضربنا ہم نے بیان کردیا۔ مکروا انہوں نے چال چلی۔ لتزول تاکہ ٹل جائے۔ ہل جئاے الجبال (جبل) ۔ پہاڑ مختلف خلاف کرنے والا۔ عزیز زبردست۔ ذوانتقام انتقام لینے والا۔ تشریح : آیت نمبر 42 تا 47 گزشتہ آیات سے تسلسل کے ساتھ اس بات کو دھرایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اتنی نعمتوں سے نوازا ہے جن کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔ زمین و آسمان، چاند، سورج، ستارے، فضائیں ہوائیں، درخت ، پہاڑ، دریا، کھانے پینے کی بیشمار ہزاروں نعمتیں اللہ نے بغیر کسی معاوضے کے عطا کر رکھی ہیں۔ فرمایا کہ اہل مکہ پر تو اور بھی بہت سی نعمتیں کی گیء ہیں۔ اگر قدر کی جائے اور صحیح راستے پر چلا اجئے اور بےجا فخر و غرور نہ ہو تو حضرت ابراہیم کی اولاد ہونا یہ بھی ایک نعمت ہی ہے مگر بےعملی نے ان کی اس نسبت کو کس قدر داغ دار کر رکھا ہے اس کا ان کو خود بھی اندازہ ہے۔ پھر اللہ کی سب سے بڑی نعمت اور کرم تو یہ ہے کہ ان میں ایک ایسے نبی و رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ بھیجے گئے ہیں جو سارے انبیاء اور رسولوں کے سردار اور خاتم النبین ہیں جو اللہ کے محبوب ترین پیغمبر ہیں پھر ان کے ساتھ اس کتاب مبین کو بھیجا گیا ہے جو قیامت تک تمام انسانوں کے لئے نور ہدایت ہے اگر مکہ کے کفار و مشرکین نے اپنے کفر و شرک سے توبہ کر کے نبی مکرم ﷺ کے دامن اطاعت و محبت سے وابستگی اختیار کرلی تو قیامت تک ان کا نام روشن ہوجائے گا وہ خود کفر و شرک کے اندھیروں سے نکل کر چمکتے ستاروں کی مانند ہوجائیں گے جن کے ذریعہ ساری دنیا سے کفر و شرک کا اندھیرا دور ہوجائے گا لیکن اگر انہوں نے اطاعت رسول ﷺ سے انکار کیا تو پھر اللہ کا وہ فیصلہ آسکتا ہے جو ہر نافرمان قوم پر اس طرح آیا ہے کہ پھر ان کا وجود بےمعنی ہو کر رہ گیا ہے۔ اگر اللہ چاہے تو ان کو کڑی سے کڑی سزا دے سکتا ہے لیکن یہ اللہ کا حلم اور برداشت ہے جس نے ان سے اللہ کا عذاب روکا ہوا ہے۔ اگر ان پر فوری طور پر عذاب نازل نہیں کیا گیا تو وہ کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ رہیں ۔ وہ اللہ بڑی سے بڑی ظالم اور بےانصاف قوم کو سنبھلنے کا موقع اور مہلت دیتا ہے اگر وہ سنبھلنا چاہیں تو سنبھل جائیں ورنہ پھر وہ فیصلہ آنے میں دیر نہیں لگے گے جس کو اللہ نے ایسے مجرموں کے لئے مخصوص کر رکھا ہے۔ قیامت کے ہولناک منظر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ غافل اور بیخبر لوگ اس گمان میں نہیں رہیں کہ ان کے برے اعمال کو دیکھنے والا کوئی نہیں بلکہ اللہ ان ظالموں کے ایک ایک عمل کو اچھی طرح دیکھ رہا ہے۔ وہ ان کے اعمال کی سزا ان کو اسی وقت بھی دے سکتا ہے لیکن اس نے ان سے عذاب کو ایک ایسے دن (قیامت کے دن) تک روک رکھا ہے جب ان کی آنکھیں خوف اور دہشت سے پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی ان کی آنکھیں پتھرا جائیں گی، عذاب الٰہی کو دیکھ کر ان کی عقلیں گم ہو کر رہ جائیں گی، ان کے دل اڑے اڑے سے ہوں گے اس تکلیف بھرے دن سے ان ظالموں کا برا حشر ہوگا ۔ فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! آپ ان کو اس دن کے عذاب سے ڈرائیے جب یہ ظالم عذاب الٰہی کو دیکھ کر کہہ اٹھیں گے کہ اے اللہ ہمیں آج سب کچھ معلوم ہوگیا۔ ہمیں اپنی غلطی کا پوری طرح احسان ہے ہمیں ایک موقع دیجیے ہمیں دنیا میں دوبارہ بھیج دیجیے ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ آپ کے ہر حکم کی تعمیل کریں گے اور رسولوں کی ہر بات کو تسلیم کریں گے۔ اس کے جواب میں اللہ کی طرف سے یہ کہا جائے گا۔ اے کفار و مشرکین ہم نے تمہیں دنیا میں بہت طویل مدت اور مہلت دی تھی۔ تمہارے سمجھانے کے لئے رسولوں کو بھیجا تما مگر تم تو قسمیں کھا کھا کر یہ کہتے تھے کہ ہمیں اور معاری نعمتوں کو کبھی زوال آ نہیں سکتا فرمایا جائے گا کہ ہم نے تمہیں ان ہی بستیوں میں آباد کیا تھا جن ہو نے تم سے پہلے کفر و شرک جیسا جرم کیا تھا اور ان کو پوری سزا دی گئی تھی لیکن تم نے ان کے کھنڈرات کو دیکھ کر بھی کوئی عبرت حاصل نہیں کی۔ انہوں نے اللہ کے دین کیم قابلے میں کیسی کیسی چالیں چلیں۔ ان کے داؤ گھات اللہ کے سامنے ہیں۔ ان کی چلایں تو اتنی زبردست تھیں کہ ان سے پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہٹ جاتے لیکن اللہ کی ایک ہی تدبیر اور عذاب نے ان کو الٹ کر رکھ دیا۔ فرمایا کہ اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعہ اور رسول اللہ ﷺ کے ذریعے جس بات کا وعدہ کیا ہے وہ اس کے خلاف نہیں کرے گا۔ اگر انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرماں برداری اختیار کرلی تو وہ ان کو دین و دنیا کی تمام بھلائیاں عطا فرمائے گا۔ لیکن اگر انہوں نے گزشتہ قوموں کے طریقے اختیار کئے تو پھر وہ اللہ اس طرح زبردست انتقام لے گا کہ اس کے انتقام سے کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔
Top