Baseerat-e-Quran - Ibrahim : 5
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اَنْ اَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ١ۙ۬ وَ ذَكِّرْهُمْ بِاَیّٰىمِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ
وَ : اور لَقَدْاَرْسَلْنَا : البتہ ہم نے بھیجا مُوْسٰى : موسیٰ بِاٰيٰتِنَآ : اپنی نشانیوں کے ساتھ اَنْ : کہ اَخْرِجْ : تو نکال قَوْمَكَ : اپنی قوم مِنَ الظُّلُمٰتِ : اندھیروں سے اِلَى النُّوْرِ : نور کی طرف وَذَكِّرْهُمْ : اور یاد دلا انہیں بِاَيّٰىمِ اللّٰهِ : اللہ کے دن اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَاٰيٰتٍ : البتہ نشانیاں لِّكُلِّ صَبَّارٍ : ہر صبر کرنیوالے کے لیے شَكُوْرٍ : شکر کرنے والے
اور یقینا ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا (اور کہا) اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالئے اور ان کو (عظیم واقعات کے) دن یاد دلایئے۔ بیشک ان میں ہر صبر و شکر کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں
لغات القرآن آیت نمبر 5 تا 6 اخرج نکال۔ ذکر یاد دلا۔ ایام اللہ اللہ کے دن (تاریخی واقعات) صبار بہت صبر کرنے والا۔ شکور بہت شکر کرنے والا۔ انجی اس نے نجات دی چھٹکارا دیا۔ ال فرعون قوم فرعون۔ یسومون وہ پہنچناتے ہیں۔ سوء العذاب بدترین تکلیفیں۔ یذبحون وہ ذبح کرتے ہیں۔ یستحیون وہ زندہ کھتے ہیں۔ نسآء (امراۃ) عورتیں۔ لڑکیاں۔ بلآء آزمائش تشریح : آیت نمبر 5 تا 6 سورة ابراہیم کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو اس لئے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر سچائی کی روشنی میں لے آئیں۔ ان آیات میں فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ نے اسی طرح حضرت موسیٰ کو بھی توریت جیسی کتاب دے کر حکم دیا تھا کہ وہ ہماری نشانیوں کے ذریعہ لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر سچائی کی روشنی کی طرف لے آئیں اور ان کو ” ایام اللہ “ یعنی وہ عظیم الشان واقعات یاد دلائیں کہ جب اللہ نے فرعون اور اس کے لشکریوں کے ظلم سے ان کو نجات عطا کی تھی اور فرعون کی سلطنت کا بنی اسرائیل کو مالک بنا دیا تھا۔ پھر انہیں اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہئے تھا مگر بعد میں وہ قوم اللہ کے احسانات کو بھول کر پھر روشنیوں سے اندھیروں کی طرف پلٹ گئی۔ بہرحال اللہ کا کلام اور اس کے نبیوں کا ہمیشہ سے ایک ہی طریقہ رہا ہے کہ وہ ان انسانوں کو جو اپنے حقیقی مالک اللہ کو بھول گئے ہیں اور اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں ان کو سچائی، صداقت اور ہدایت کی روشنی میں لے آئیں۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ روشنی اور صداقت کا زمانہ صرف وہی ہے جس میں انبیاء کرام تشریف لائے اور ان کی لائی ہوئی روشنی پھیلتی رہی۔ اس کے علاوہ سب اندھیرا ہی اندھیرا چھایا رہا۔ اللہ تعالیٰ نے تمام رسولوں اور نبیوں کے آخر میں خاتم الانبیاء احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو قرآن کریم دے کر ایک ایسی روشنی عطا فرمائی ہے جو قیامت تک تمام انسانوں کی رہنمائی کرتی رہے گی۔ آپ نے چند برسوں میں جس طرح عرب کے اندھیرے دور فرما دیئے تھے اور صحابہ کرام کی ایک ایسی پاکیزہ و مقدس جماعت تیار فرما دی تھی جو ستاروں کی مانند زندگی کے اندھیروں کو روشن کرتی رہی۔ صحابہ کرام نے پوری دیانت و امانت کے ساتھ اس روشنی کی قندیلوں کو آنے والی نسلوں تک پہنچایا اور ان یہ کے راستے پر چل کر امت کے علماء حق نے ہزاروں تکلیفوں، پریشانیوں اور مصیبتوں کے باوجود اس شمع کو روشن رکھا کہ آج تک اس کی روشنی اور چمک دمک میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ اس روشنی کو اتنا روشن کردیا کہ جس سے اندھیروں میں بھٹکنے والے کانپ رہے ہیں اور اس روشنی کو بجھانے کے لئے اپنی تمام طاقتوں کو لگائے ہوئے ہیں اسی لئے کفار و مشرکین اکابرین ملت اور مسلمانوں پر ہر طرح کے ظلم و ستم کئے جا رہے ہیں جنہوں نے یہ طے کر رکھا ہے ہم مٹ جائیں تو مٹ جائیں لیکن نہ دین کو مٹنے دیں گے اور نہ اس روشنی کو مدہم ہونے دیں گے جس کو رسول اللہ ﷺ خلفاء راشدین، صحابہ کرام ، تابعین، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین، بزرگان دین اور علماء کرام نے روشن فرمایا تھا۔ الحمد للہ دشمنان اسلام علماء کی استقامت اور ثابت قدمی سے بوکھلا اٹھے ہیں اور ان کے خلاف اپنے میڈیا کے ذریعے ایک طوفان بپا کر رکھا ہے لیکن انشاء اللہ یہ اندھیروں میں بھٹکنے والے بھٹکتے ہی رہیں گے اور یہ بوریہ نشین اور غریب علماء اللہ کے دین کی اس شمع کو اپنے ہاتھوں پر اٹھائے منزل کی طرف رواں دواں رہیں گے۔ پھونکوں سے یہ چراغ بجھا یا نہ جائے گا۔
Top