Baseerat-e-Quran - Ibrahim : 7
وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَئِنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ
وَاِذْ تَاَذَّنَ : اور جب آگاہ کیا رَبُّكُمْ : تمہارا رب لَئِنْ : البتہ اگر شَكَرْتُمْ : تم شکر کرو گے لَاَزِيْدَنَّكُمْ : میں ضرور تمہیں اور زیادہ دوں گا وَلَئِنْ : اور البتہ اگر كَفَرْتُمْ : تم نے ناشکری کی اِنَّ : بیشک عَذَابِيْ : میرا عذاب لَشَدِيْدٌ : بڑا سخت
اور (یاد کرو) جب تمہارے رب نے تمہیں بتا دیا تھا کہ اگر تم نے شکر کیا تو میں تمہیں اور نواز دوں گا اور البتہ اگر تم نے ناشکری کی تو بیشک میرا عذاب بھی شدید عذاب ہے
لغات القرآن آیت نمبر 7 تا 9 شکرتم تم نے شکر کیا۔ ازیدن میں ضرور بڑھاؤں گا۔ انتم تم۔ غنی بےنیاز۔ حمید تمام خوبیوں کا مستحق۔ لم یات نہیں آئی۔ نبو خبر، اطلاع۔ لایعلم نہیں جانتا ردوا انہوں نے پلٹائے۔ ایدیھم ان کے ہاتھ ۔ افواہ منہ (فوہ) ۔ کفرنا ہم نے کفر کیا، انکار کیا۔ تدعون تم بلاتے ہو۔ مریب کھٹکنے والا، تردد کرنے والا۔ تشریح آیت نمبر 7 تا 9 اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اتنی نعمتیں عطا فرمائی ہیں کہ اگر انسان ان کو شمار کرنا چاہے تو کر نہیں سکتا۔ ہر نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہئے۔ ان آیات میں اگرچہ خطاب بنی اسرائیل سے ہے لیکن درحقیقت کفار مکہ کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ اللہ کی سب سے بڑی نعمت رسول اللہ ﷺ کی ذات بابرکات ہے۔ اگر انہوں نے نبی کریم ﷺ کی قدر کی تو ان کو قیامت تک کے لئے عزت و عظمت کا مقام مل جائے گا اور آخرت میں ان کا کیا مقام ہوگا۔ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن اگر انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی ناقدری کی ان کی اطاعت نہ کی تو پھر قیامت تک ان کی ہدایت کا امکان باقی نہیں رہے گا۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو یہ یاد دلایا ہے کہ اللہ نے ان پر کتنی بڑی بڑی عنایتیں کی ہیں۔ فرعون کے ظلم و ستم اور زیادتیوں سے ان کو بچایا۔ فرعون اور ان کے ماننے والوں کو غرق کردیا بنی اسرائیل کو عیش و آرام کی زندگی عطا کی، صحرا میں پانی، بادل کا سایہ اور کھانے کے لئے من وسلویٰ عطا کیا، ہدایت کے لئے توریت جیسی کتاب عطا کی گئی۔ فرمایا کہ تم ان نعمتوں کو یاد کرو اور اللہ کا شکر ادا کرو۔ اگر تم نے اللہ کا شکر ادا کیا تو اور ہزاروں نعمتوں سے نوازا جائے گا۔ لیکن اگر ناشکری کا طریقہ اختیار کیا گیا تو پھر اسی شدت سے اللہ کا عذاب بھی نازل ہوگا ۔ بیشک اللہ تعالیٰ انسانوں اور ان کی عبادتوں اور تعریفوں کا محتاج نہیں ہے۔ وہ اپنی ذات میں تمام تعریفوں کا مستحق ہے۔ کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی حمد و ثنا کر رہا ہے وہ کسی کی تعریف کا محتاج نہیں ہے وہ تمام خوبیوں اور کمالات کا مالک ہے۔ البتہ اگر انسان اللہ کی عبادت و بندگی اور اس کی حمد و ثنا کرتا ہے تو یہ اس کے لئے فائدہ مند ہے۔ اللہ کسی کی عبادت و بندگی کا محتاج نہیں ہے۔ ان کو یاد دلایا گیا ہے کہ ان سے پہلے قوم نوح قوم عاد اور قوم ثمود جیسی زبردست قومیں گذر چکی ہیں ان کو قصہ کہانی سمجھ کر چھوڑ دینا ایک بہت بڑی غلطی ہے بلکہ ان قوموں کے ساتھ اللہ نے کیا معاملہ کیا اس پر غور کرنا چاہئے۔ جب ان کی نافرمانیاں حد سے بڑھ گئیں تب اللہ نے ان کو ان کے برے انجام تک پہنچایا۔ فرمایا کہ جب ان کفار و مشرکین کو اللہ کے رسول سچی باتیں بتاتے تھے تو وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے پیغمبروں کے منہ بند کرنے کی کوشش کرتے تھے کیونا کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے منہ سے چی باتیں نکلیں اور اس بدمستی میں یہ کہتے تھے کہ ہم تمہاری رسالت کو نہیں مانتے ہم اس کا انکار کرتے ہیں اور جو کچھ تم لے کر آئے ہو اس میں ہمیں سخت تر دد اور شبہ ہے لہٰذا ہم تمہاری کوئی بات ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ فرمایا کہ اس کفر و انکار کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان قوموں پر اللہ کا شدید ترین عذاب آیا اور ان کو ان کی دولت اور بلند وبالا عمارتیں اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکیں۔
Top