Baseerat-e-Quran - An-Nahl : 101
وَ اِذَا بَدَّلْنَاۤ اٰیَةً مَّكَانَ اٰیَةٍ١ۙ وَّ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوْۤا اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُفْتَرٍ١ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب بَدَّلْنَآ : ہم بدلتے ہیں اٰيَةً : کوئی حکم مَّكَانَ : جگہ اٰيَةٍ : دوسرا حکم وَّاللّٰهُ : اور اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَا : اس کو جو يُنَزِّلُ : وہ نازل کرتا ہے قَالُوْٓا : وہ کہتے ہیں اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اَنْتَ : تو مُفْتَرٍ : تم گھڑ لیتے ہو بَلْ : بلکہ اَكْثَرُهُمْ : ان میں اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : علم نہیں رکھتے
اور جب ہم ایک حکم کی جگہ دوسرا حکم لاتے ہیں جب کہ اللہ کے علم میں ہے کہ وہ کیا نازل کر رہا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ (اے نبی ﷺ تم نے اس کو خود گھڑ لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر علم نہیں رکھتے۔
لغات القرآن آیت نمبر 101 تا 105 بدلنا ہم نے بدل دیا۔ ینزل وہ نازل کرتا ہے۔ مفتر گھڑنے والا۔ روح القدس پاکیزہ روح جبریل امین۔ لیثبت تاکہ وہ پکا کر دے۔ یعلم سکھاتا ہے۔ یلحدون (الحاد) اشارہ کرتے ہیں۔ عربی مبین واضح عربی، فصیح عربی زبان۔ تشریح : آیت نمبر 101 تا 105 حضرت عیسیٰ (جن کو اللہ نے آسمانوں کی طرف اٹھا لیا ہے) ان کے ساڑھے پانچ سو سال کے بعد جزیرۃ العرب میں مذہبی، تمدنی ، عاشرتی، اخلاقی، تہذیبی اور رسم و رواج میں اتنی تبدیلیاں آ چکی تھیں کہ کفار مکہ زبان سے تو یہ کہہ کر فخر کرتے تھے کہ ہم حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی اولاد یا ان کے ماننے والے ہیں لیکن اس نسبت کے باوجود وہ ہر طرح کی جہالت اور ظلم و ستم کے پیکر بن کر رہ گئے تھے۔ بد اخلاقی، بدکرداری، شراب نشوی جوئے بازی، سود خوری، رسم و رواج کی غلامی اور بتوں کی پرستش نے ان کے معاشرہ کو اس طرح تباہ کر کے رکھ دیا تھا کہ قتل و غارت گری کی وجہ سے کسی کی جان، مال اور آبرو تک محفوظ نہ تھی۔ سارے جزیرۃ العرب میں ہر قبیلہ ایک حکومت اور سلطنت تھا ایک دوسرے کے کسی اصول کی پابندی کو کسی طرح قبول نہیں کرتا تھا۔ ایسے معاشرہ میں اگر اس بات کی توقع کی جائے کہ جیسے ہی حکم دیا جائے گا لوگ اس کی اسی طرح پابندی کریں گے تو یہ ایک خلاف فطرت بات ہوتی۔ اسی لئے قرآن وحدیث کے مطالعہ سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ایسی بگڑی ہوئی قوم کو کچھ اصولوں کے دائرے میں لانے کے لئے حکمت و مصلحت کے ساتھ ہی پابند بنایا جاسکتا تھا چناچہ زیادہ تر احکامات میں تدریج ہے بعد میں ان احکامات کی تکمیل فرمائی گئی ہے اور اب قیامت تک کسی کو کسی تبدیلی کا اختیار نہیں ہے۔ وہ قوم جو شراب نوشی میں اس طرح مبتلا تھی کہ شراب ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی یعنی ادھر بچے نے دنیا میں قدم رکھا اور ادھر شراب اس کے حلق میں انڈیل دی گئی۔ اسی لئے شراب کو حرام قرار دینے کے لئے تین آیتیں نازل کی گئیں دو آیتوں میں ان کو بتایا گیا کہ شراب نوشی سب سے گھٹیا عادت ہے یہ اللہ کی عبادت و بندگی کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی لہٰذا نشہ کی حالت میں نماز کے قریب بھی جانے کی اجازت نہیں ہے۔ غور کیجیے تو یہ معلوم ہوجائے گا کہ اس آیت میں پابندی بھی لگا دی اور آزادی بھی باقی رکھی گئی۔ دوسری آیت میں فرمایا کہ اس میں دنیا کا نفع ضرور ہے لیکن آخرت کا گناہ اور نقصان اس کے نفع سے بڑھ کر ہے۔ جو لوگ بات کو اشاروں میں سمجھ لیتے ہیں وہ سمجھ گئے کہ شراب اللہ کی عبادت و بندگی کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی اس میں دنیا کی عارضی زندگی کے کچھ منافع ضرور ہیں لیکن آخرت کی ابدی زندگی کا بہت بڑا اور شدید نقصان ہے۔ ان آیات کے نازل ہونے کے بعد بہت سے صحابہ نے شراب کے قریب جانے سے بھی توبہ کرلی پھر وہ آیت نازل فرمائی گئی جس میں صاف طور پر یہ بتا دیا گیا کہ شراب، جوا، بت پرستی اورق سمت کے تیر یہ سب ایک جیسی برائیاں اور شیطانی پھندے اور جال ہیں ان سے ” اجتناب “ کرو اسی میں فلاح و کامیابی ہے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام جو عربی زبان کی اس نزاکت و عظمت سے واقف تھے کہ اگر شراب کو صرف حرام کہا جاتا تو شاید بات میں اتنا زور نہ ہوتا اس کا مفہوم تو صرف یہ ہوتا کہ اب شراب سے ہاتھ روک لئے جائیں لیکن اجتناب کا مفہوم بہت وسیع ہے یعنی شراب سے صرف رکنا ہی نہیں ہے بلکہ اس سے متعلق ہر چیز کو توڑ پھوڑ کر رکھ دینا بھی ہے۔ چناچہ جو لوگ شراب نوشی کر رہے تھے انہوں نے نہ صرف اس ” ام الخبائث “ سے توبہ کرلی بلکہ ان برتنوں اور شراب کے مٹکوں کو بھی توڑ دیا جن میں شراب جمع کر کے رکھی جاتی تھی۔ روایات میں آتا ہے کہ اس دن شراب مدینہ کی گلیوں میں اس طرح بہہ رہی تھی جس طرح برسات میں پانی بہتا ہے۔ اس بات کو میں نے تفصیل سے اس لئے بیان کیا کہ ” تدریج اور تکمیل “ کا یہ عمل قرآن کریم کے احکامات میں بہت جگہ نظر آئے گا اسی طرح نماز، روزہ، زکوۃ حج، جہاد، وراثت، قبلہ وغیرہ میں بھی یہی تدریج اور تکمیل کا عمل نظر آئے گا جو ایک فطری اور صحیح عمل تھا لیکن یہ باتیں کفار کے نزدیک بڑی قابل اعتراض تھیں وہ بلا سوچے سمجھے یہ کہتے تھے کہ یہ کیسا قرآن ہے کہ جس میں آج ایک بات ہے دوسرے دن دوسری بات ہے وہ کہتے کہ (نعوذ باللہ) یہ سب گھڑی گھڑائی باتیں ہیں۔ ان کی زبانیں یہاں تک آزاد ہوگئی تھیں کہ وہ کہتے تھے کہ ہمیں معلوم ہے یہ قرآن آپ ﷺ کو کوئی سکھا جاتا ہے ان کی مراد ان رومی یا فارسی غلاموں سے تھی جو آپ کے پاس دین سیکھنے آتے تھے یا آپ ﷺ ان کے پاس ان کو دین سکھانے تشریف لے جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کفار مکہ کے ان دونوں غیر سنجیدہ اعتراضات کے نہایت سنجیدہ اور اہم جوابات عنایت فرمائے ہیں۔ پہلے اعتراض کا جواب تو یہ ارشاد فرمایا کہ جس اللہ نے اپنا کلام روح القدس یعنی حضرت جبرئیل کے ذریعہ قلب مصطفیٰ ﷺ پر نازل کیا ہے یہ اس کا اپنا کلام ہے وہ جب چاہے جیسے چاہے اپنے علم اور مصلحت سے اپنے کلام کو تبدیل کرسکتا ہے کیونکہ اس بات کو اکثر لوگ نہیں سمجھتے لیکن وہ اللہ جو تمام انسانوں کا خالق ہے وہ جانتا ہے کہ انسان کی فلاح و بہبود کے لئے کب کیا بات ضروری ہے یا ضروری نہیں ہے۔ اعتراض اسی پر ہو سکتا تھا کہ کلام تو اللہ نے نازل کیا ہے اور اس میں تبدیلی کوئی اور کرتا ۔ لیکن اس میں کیا اعتراض کی گنجائش ہے کہ جس کا کلام ہے وہی نازل کرتا ہے وہی تبدیل کرتا ہے۔ کفار مکہ کے دوسرے اعتراض کا جواب یہ دیا گیا کہ قرآن کریم تو صاف واضح اور اعلیٰ ترین عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے جس کے سامنے سب گونگے بن کر رہ گئے ہیں کوئی اس کے چیلنج کا جواب تک دینے کے قابل نہیں ہے۔ اگر یہ کہتے کہ نبی کریم ﷺ کو نعوذ باللہ کوئی عربی زبان کا ماہر، ادیب یا شاعر سکھا جاتا ہے تو شاید بات سمجھ میں آسکتی تھی لیکن وہ شاعر و ادیب اور عربی زبان کے ماہرین کا یہ حال تھا کہ وہ خود قرآن کریم کے سامنے عاجز لاچار اور بےبس تھے وہ کیا کرسکتے تھے لیکن یہ بات کس قدر جاہلانہ اور عقل سے بعید تر ہے کہ ایسا کلام آپ ﷺ کو وہ عجمی غلام سکھائیں گے جو عربی زبان بھی صحیح نہیں جانتے۔ فرمایا کہ یہ کتنے بدقسمت لوگ ہیں جو قرآن کریم سے کچھ سیکھنے کے بجائے جاہلانہ اعتراض کر کے ابدی راحتوں سے محروم ہو رہے ہیں۔ خوش نصیب ہیں وہ اہل ایمان جو قرآن کریم اور رسول ﷺ پر ایمان لا کر اس قرآن کریم کے ذریعہ اپنی روح کی تسکین اور آخرت کی کامیابی حاصل کر رہے ہیں فرمایا کہ یہ قرآن کریم ان لوگوں کے دلوں کے جمانے کا اور اطمینان قلب کا ذریعہ ہے جو اللہ و رسول پر ایمان لے آئے ہیں۔ یہ ان کے لئے ہدایت بھی ہے اور فرماں برداروں کے لئے ابدی راحتوں اور آخرت کی کامیابیوں کے لئے بشارت بھی ہے۔ فرمایا کہ وہ لوگ جو ان آیات پر یقین نہیں رکھتے ان کو نہ دنیا میں رہبری و رہنمائی نصیب ہوگی اور نہ آخرت میں بلکہ آخرت میں تو درد ناک عذاب ان کا منتظر ہے۔ یہ قرآن کریم گھڑا ہوا کلام یا جھوٹا کلام نہیں ہے بلکہ وہ لوگ سب سے بڑے جھوٹے اور جھوٹ کے پجاری ہیں جو اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔ اس موقع پر ایک بات کی وضاحت ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ دین اسلام کے بنیادی اصولوں میں تدریج اور تکمیل کا عمل اس وقت تک تھا جب تک دین کے احکامات مکمل نہیں ہوگئے جب اللہ نے یہ فرما دیا کہ دین اسلام مکمل ہوگیا ہے۔ نعمت نبوت مکمل ہوگئی ہے اور اللہ بھی دین اسلام پر راضی ہے تو اب تدریج کا ہر عمل ختم ہوگیا اور دین درجہ تکمیل تک پہنچ گیا ہے یعنی دین اور اس کے تمام اصول مکمل ہوگئے ہیں اب اس میں کسی تبدیلی کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے اور نہ کسی تدریج پر عمل کرنے کی ضرورت ہے سوائے اللہ و رسول کے حکم کے، یہ بات میں نے اس لئے عرض کی ہے کہ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اب حالات پھر اسی طح پر پہنچ گئے ہیں جہاں نزول قرآن کے وقت تھے۔ معاشرہ تباہ ہوچکا ہے لہٰذا احکامات میں پہلے والی سہولتیں دی جائیں تاکہ عام آدمی دین کی طرف آسکے۔ میں یہ عرض کروں گا کہ جب دین کے تمام اصول مکمل ہوگئے ہیں تو اب خیر و برکت کا ذریعہ یہی ہے کہ ان اصولوں کو نافذ کیا جائے۔ مثلاً اللہ کا یہ حکم ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے اور اسی معاملہ میں کسی کی کوئی رعایت نہ کی جائے تو اب حکم یہ ہوگا۔ کہ اس کو پوری قوت سے نافذ کردیا جائے گا تو دنیا سے چوری کے تمام دروازے بند ہوجائیں گے۔ کسی کا یہ کہنا کہ پہلے ایسے معاشی حالات پیدا کئے جائیں تاکہ کوئی چوری نہ کرے پھر احکامات نافذ کئیج ائیں۔ میرے نزدیک یہ بہت غلط انداز فکر ہے صحیح فکریہ ہے کہ اسلام کے جو قوانین ہیں ان کو نافذ کردیا جائے گا تو ان کی برکتوں سے مسائل حل ہوں گے اور معاشی حالات بھی درست ہوتے چلے جائیں گے ورنہ ان ہی فلسفوں میں الجھ کر دین کبھی نافذ نہ ہو سکے گا۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی ترقی یافتہ قومیں جن کے پاس زبردست وسائل موجود ہیں ہر گھر اور کارخانے اور آفسوں میں الارم فٹ کئے گئے ہیں لیکن وہ معاشرے انسان کی جان و مال کی حفاظت میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں جبکہ ان کو معاشی سکون بھی حاصل ہے اس کے برخلاف سعودی عربیہ میں چور کا ہاتھ کاٹنے کا قانون نافذ ہے وہاں یہ عالم ہے کہ اگر ایک شخص اپنا گھر، کاروبار اور آفس کھلا چھوڑ جائے تو کسی کی مجال نہیں ہے کہ کسی کے مال کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی دیکھ لے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا قانون بنا بنا کر تھک گئی ہے ہر روز اپنے قوانین میں تبدیلیاں کرتی رہتی ہے چونکہ قانون انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں تو انسان ہی ان قوانین کا توڑ بھی نکال لیتے ہیں اور اس طرح قانون سازوں اور قانون شکنوں کی جنگ جاری رہتی ہے اور صورتحال یہی رہی تو یہ جنگ جاری رہے گی۔ اس کا حل صرف ایک ہی ہے کہ آج دنیا اگر پرسکون رہنا چاہتی ہے تو اس کو اللہ و رسول ﷺ کے قوانین کو نافذ کردینا چاہئے کیونکہ یہ وہ قوانین ہیں جن کو اللہ نے بنایا ہے انسان اس کو توڑ نہیں سکتے۔ چونکہ یہ قوانین اس خالق ومالک نے بنائے ہیں جو انسانوں کی فطرت سے واقف ہے لہٰذا یہی قانون فطرت انسانوں کی نجات کا ذریعہ ہے۔ اس سے ہٹ کر جو بھی قوانین نافذ کئے جائیں گے ان سے انسان کو کبھی سکون صنیب نہیں ہوگا۔ اور انسان اپنے خلاق سے جنگ کر کے آخر کار ہار کر بیٹھ جائے گا۔
Top