Baseerat-e-Quran - An-Nahl : 114
فَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَیِّبًا١۪ وَّ اشْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ
فَكُلُوْا : پس تم کھاؤ مِمَّا : اس سے جو رَزَقَكُمُ اللّٰهُ : تمہیں دیا اللہ نے حَلٰلًا : حلال طَيِّبًا : پاک وَّاشْكُرُوْا : اور شکر کرو نِعْمَتَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو اِيَّاهُ : صرف اس کی تَعْبُدُوْنَ : تم عبادت کرتے ہو
پھر اللہ نے تمہیں جو حلال اور پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اس میں سے کھاؤ اللہ کی نعمت کا شکر ادا کرو اگر تم اسی کی بندگی و عبادت کرتے ہو۔
لغات القرآن : آیت نمبر 114 تا 119 کلوا کھاؤ۔ رزق اس نے رزق دیا۔ ایاہ اس کی۔ تعبدون تم عبادت کرتے ہو۔ حرم حرام کردیا، روک دیا۔ المیتۃ مردار۔ الدم خون۔ الحم الخنزیر خنزیر کا گوشت۔ اھل پکارا گیا۔ اضطر مجبور کردیا گیا، مجبور ہوگیا۔ غیر باغ بغاوت کا ارادہ نہ ہو۔ لاعاد نہ زیادتی کا ارادہ ہو۔ لاتقولوا تم نہ کہو۔ تصف بنا لی ہے۔ قصصنا ہم نے بتایا، بیان کیا۔ یظلمون وہ ظلم کرتے ہیں۔ بجھالۃ نادانی۔ تابو توبہ کرلی۔ اصلحوا اصلاح کرلی۔ تشریح : آیت نمبر 114 تا 119 جس شخص کو بات بات پر اعتراض اور کج بخشی کرنے کی عادت پڑجاتی ہے اس کے سامنے کتنی ہی معقول سے معقول حقیقت کو پیش کردیا جائے تب بھی وہ اس میں کوئی نہ کوئی ایسی بات نکال لیتا ہے جس سے ایک نئی بحث چھڑ جائے اور سچائی کی شمع مدہم پڑجائے۔ بنی اسرائیل دنیا کی وہ قوم ہے جس نے اسی روش کو اختیار کیا اور اپنے نبیوں سے طرح طرح کے سوالات کر کے نہ صرف اپنے اوپر سینکڑوں پابندیاں لگوا لیں بلکہ ان میں سے بہت سے لوگ ایمان کی دولت ہی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اسی لئے نبی کریم ﷺ کی امت کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب قرآن کریم نازل ہو رہا ہے اس وقت بہت سے وہ سوالات نہ کریں کہ اگر ان کو ظاہر کردیا گیا تو وہ مشکل میں پڑجائیں گے۔ اسی طرح فرمایا کہ ” اے مومنو ! کیا تم بھی اپنے نبی سے ایسے ہی سوالات کرو گے جس طرح اس سے پہلے حضرت موسیٰ سے سوالات کئے گئے تھے۔ “ (البقرہ) ان احکامات کی روشنی میں صحابہ کرام بہت ہی کم سوالات کرتے تھے۔ بنی اسرائیل کے اسی مزاج کو یاں بیان کیا گیا ہے کہ وہ ہر روز ایک نیا سال لے کر آجاتے تھے۔ جب یہ کہا گیا کہ جو لوگ بھی اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں تو بطور سزا وہ نعمت ان سے چھین لی جاتی ہے۔ حلال چیزیں بھی اللہ کی نعمت ہیں۔ اہل ایمان کی ذمہ داری ہے کہ جو حلال اور پاکیزہ اور ستھری چیزیں انہیں دی گئی ہیں وہ ان میں سے کھائیں اور حرام چیزوں کے قریب نہ جائیں فرمایا کہ کیا چیز حلال ہے اور کیا حرام ہے اس کا فیصلہ کرنے کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ اللہ کے سوا کسی شخص کو حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنے کا حق نہیں ہے۔ بنی اسرائیل کو دو باتوں پر اعتراض تھا۔ (1) ایک تو یہ کہ بنی اسرائیل کی شریعت میں تو اور بہت سی چیزیں بھی حرام تھیں لیکن شریعت مصطفیٰ ﷺ میں وہ چیزیں حلال ہیں کیا حضرت موسیٰ اور حضرت محمد ﷺ کی شریعتیں الگ الگ تھیں ؟ یا ایک تھیں۔ اگر وہ شریعت اللہ کی طرف سے تھی تب تو اس کی مخالفت کر کے گناہ میں مبتلا ہونے کی بات کی جا رہی ہے ہو اور اگر دونوں شریعتیں ایک تھیں تو پھر ایک ہی اللہ کی اتاری ہوئی شریعتوں میں یہ اختلاف کیوں ہے ؟ (2) دوسرا اعتراض یہ تھا کہ بنی اسرائیل کی شریعت میں ” سبت “ کی حرمت کا قانون تھا اہل ایمان نے اس قانون کو بالکل ختم کردیا ہے یعنی ہفتہ کا دن جو یہودیوں کے نزدیک اتنا قابل احترام تھا کہ اس دن یہودی کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ مسلمانوں نے ہفتہ کا دن جو یہودیوں کے نزدیک اتنا قابل احترام تھا کہ اس دن یہودی کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ مسلمانوں نے ہفتہ کے دن کے بجائے جمعہ کے دن کو پورا احترام دیدیا۔ کیا شریعت اس بات کی اجازت دیتی ہے یا مسلمانوں نے خود ہی جس چیز کو چاہا حلال کرلیا اور جس چیز کو چاہا حرام قرار دے لیا ؟ ان دونوں اعتراضات کے اللہ نے جوابات ان آیات میں عطا فرمائے ہیں۔ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی شریعتیں ایک ہی اللہ کے حکم سے تھیں لیکن بعد میں لوگوں نے اپنی مرضی سے بعض حلال چیزوں کو حرام کرلیا اور خود ہی ہفتہ کے دن کو مقدس و محترم بنا لیا تھا اور جو چیزیں ان پر حرام کی گئی تھیں وہ ان بنی اسرائیل کی شرارتوں اور نافرمانیوں کا نتیجہ تھا یعنی سزا کے طور پر ان کو ان چیزوں کے استعمال سے روکا گیا تھا۔ مثلاً ناخون والا یعنی کھر رکھنے اوالا ہر وہ جانور جس کی انگلیاں پھٹی ہوئی نہ ہوں جیسے اونٹ، شتر مرغ بطخ، خرگوش وغیرہ ان کا کھانا حرام قرار دیا گیا تھا۔ اسی طرح گائے بکرے کی جو چربی پشت یا انتڑیوں یا ہڈی پر لگی ہوئی نہ ہو۔ وہ ان کے لئے حرام تھی۔ لیکن یہ ان پر بطور سزا کے حرام قرار دی گیء تھی۔ اسی طرح ہفتہ کا دن جب انہوں نے منع کرنے کے باوجود شکار کیا تھا ان پر اللہ نے عذاب نازل کیا اور ان کو شرف انسانیت سے محروم کر کے بندر بنا دیا گیا جو سارے کے سارے بندرتین دن کے اندر اندر مر کھپ گئے۔ فرمایا کہ شریعت موسیٰ اور شریعت مصطفوی ﷺ دونوں ہی اللہ کی طرف سے ہیں ان میں کوئی اختلاف نہ تھا۔ جو چیزیں بطور سزا دی گئی تھیں وہ قیامت تک سارے انسانوں کے لئے حرام نہیں ہیں اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ خود اپنی طرف سے گھڑتا ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اللہ نے کن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے اس کے متعلق بھی ان آیات میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ : اے مومنو ! اللہ نے تمہیں جو بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں عطا کی ہیں وہ کھاؤ اور اگر تم اس ایک ایک اللہ کی عبادت و بندگی کرتے ہو تو اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو۔ فرمایا کہ تمہارے اوپر چار چیزوں کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ 1) مردار 2) خون 3) خنزیر کا گوشت 4) اور ہر وہ چیز جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ اگر کوئی شخص انتہائی شدید مجبور ہوجائے تو (جان بچانے کے لئے) ان چیزوں کو استعمال کرسکتا ہے شرط یہ ہے کہ اس کا مقصد نہ تو شریعت سے بغاوت ہو اور نہ زیادتی ہو تب جائز ہے۔ وہ اللہ بڑا ہی مغفرت کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ فرمایا کہ اس جھوٹ میں اپنی زبانوں کو ملوث نہ کرو کہ یہ حلال ہے اور وہ حرام ہے کیونکہ ایسا کہنا اللہ پر جھوٹ گھڑنا ہے جس کی قطعات اجازت نہیں ہے کیونکہ جو لوگ ایک جھوٹی بات کو اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں وہ کبھی فلاح اور کامیابی حاصل نہیں کرسکتے وجہ یہ ہے کہ اس جھوٹ سے ممکن ہے وہ کچھ دنیاوی فائدے حاصل کرلیں لیکن یہ فائدے ان کے اس دنیا ہی میں کچھ دیر کام آسکتے ہیں۔ ایسا کرنے والوں کے لئے آخرت کا درد ناک عذاب تیار ہے۔ فرمایا کہ یہودیوں کی نافرمانی کی وجہ سے جو چیزیں ان پر حرام کی گئی تھیں وہ ان پر اللہ کا ظلم اور زیادتی نہ تھا کیونکہ اللہ تو کسی بندے پر ظلم اور زیادتی نہیں کرتا یہ تو انسان ہی ہے جو اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار کر اپنے آپ کو نقصان پہنچتا ہے ۔ وہ رب العالمین تو ایسی شان والا ہے کہ اس کا کوئی بندہ زندگی بھر گناہ کرنے کے بعد بھی اگر احساس شرمندگی اور انداز ندامت ہے اس کے سامنے آ کر توبہ کرلیتا ہے اور اپنی اصلاح کرلیتا ہے تو وہ رب بہت ہی مغفرت کرنے اور رحم کرنے والا ہے۔
Top