Baseerat-e-Quran - An-Nahl : 13
وَ مَا ذَرَاَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُخْتَلِفًا اَلْوَانُهٗ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّذَّكَّرُوْنَ
وَمَا : اور جو ذَرَاَ : پیدا کیا لَكُمْ : تمہارے لیے فِي الْاَرْضِ : زمین میں مُخْتَلِفًا : مختلف اَلْوَانُهٗ : اس کے رنگ اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيَةً : البتہ نشانیاں لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّذَّكَّرُوْنَ : وہ سوچتے ہیں
(اور وہ اللہ ہی تو ہے جس نے ) تمہارے لئے زمین میں چیزوں کو بکھیر دیا ہے جن کے مختلف رنگ ہیں۔ بیشک ان چیزوں میں سمجھ رکھنے والوں کے لئے نشانی ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 13 تا 21 ذرا اس نے پھیلا دیا، پیدا کیا۔ الوان (لون) رنگ۔ یذکرون وہ دھیان دیتے ہیں۔ لحم گوشت۔ طری تازہ۔ تستخرجو تم نکالتے ہو۔ حلیۃ زیور۔ تلبسون تم پہنتے ہو۔ مواخر پھاڑنے والا، پھاڑنے والیاں۔ لتبتغو تاکہ تم تلاش کرو۔ القی اس نے ڈالا، رکھا۔ رواسی (راسیۃ) بوجھ، پہاڑ۔ تمید جھک جانا۔ سبل (سبیل) راستے۔ علمت علامتیں، نشانیاں۔ نجم ستارہ۔ یخلق پیدا کرتا ہے۔ تعدوا تم گنو گے ، شمار کرو گے۔ لاتحصوا تم شمار نہ کرسکو گے۔ تبسرون تم چھپاتے ہو۔ تعلنون تم ظاہر کرتے ہو۔ یدعون پکارتے ہیں۔ یخلوقن وہ پیدا کئے جاتے ہیں۔ اموات مردے ہیں۔ ایان کب ؟ یبعثون وہ دوبارہ اٹھائیں جائیں گے۔ تشریح : آیت نمبر 13 تا 21 اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کو واضح طریقہ پر ارشاد فرمایا ہے کہ اسی نے اپنے علم و حکمت سے اس نظام کائنات کو بنایا ہے۔ اگر انسان کو پیدا کیا تو اس کے لئے زندگی گذارنے کے تمام سامان و اسباب بھی پیدا فرمائے ہیں۔ انسان رات کو سو کر صبح اٹھتا ہے دن بھر اپنی روزی کما کر اپنے گھر لوٹتا ہے۔ اپنے بیوی بچوں میں پہنچ کر خوش ہوتا ہے تھک ہار کر سو جاتا ہے۔ اسی طرح اس کے دن اور رات کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ اس کو اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اس دن رات کے پیچھے کتنا بڑا نظام قائم کیا ہوا ہے۔ قرآن کریم بار بار اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ انسان اگر ایک لمحہ رک کر اتنا ہی سوچ لے کر اتنے بڑے نظام کو کس نے قائم کیا ہے۔ جب انسان غور کرے گا تو وہ یقینا اس نتیجہ تک پہنچ کر رہے گا کہ اس پورے نظام کو چلانے والی کوئی ہستی ہے۔ لوگوں نے انسانوں کے سیدھے پن سے فائدہ اٹھا کر ان کو یقین دلا رکھا ہے کہ اس دنیا کو اور اس کے اسباب کو پیدا کرنے والے ان کے پتھر کے یہ بےجان بت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بار بار فرمایا ہے کہ جو بت اپنے وجود میں دوسروں کے ہاتھوں کے محتاج ہوں۔ ان کی ناک پر مکھی بیٹھ جائے تو وہ بت اتنی بھی طاقت نہیں رکھتے کہ اس مکھی کو اپنے وجود سے بھگا دیں۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ کیا لوگوں کو اتنا بھی شعور نہیں ہے کہ اس سامنے کی حقیقت پر غور کرلیں کہ اللہ نے سب کچھ پیدا کیا ہے لیکن ان بتوں نے کیا چیز پیدا کی ہے ؟ یہ تو خود اپنے وجود کو پیدا نہیں کرسکتے بلکہ وہ دوسروں کے ہاتھوں کے محتاج ہیں اور پیدا کئے جاتے ہیں جو اپنے نفع اور نقصان کے بھی مالک نہیں ہیں وہ دوسروں کو کیا نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ گزشتہ آیات میں ان نعمتوں کا ذکر فرمایا تھا جو اللہ نے انسان کے لئے پیدا کی ہیں۔ اس سلسلہ میں فرمایا کہ اے لوگو ! کیا تم نے کبھی اس بات پر دھیان دیا ہے غور کیا ہے کہ ایک ہی زمین ہے، فضا بھی ایک، پانی کے قطرات بھی ایک لیکن درختوں پر یہ طرح طرح کے رنگ کس نے بکھیر دیئے ہیں یقینا وہ صرف ایک ہی ذات ہے یعنی اللہ کی جس نے یہ سب کچھ پیدا فرمایا ہے وہ اللہ جس نے اتنے بڑے سمندر کو جو زمین سے بھی کئی گنا بڑا ہے اس کے کڑوے پانی میں ایسی مچھلیوں کو پیدا کیا جن کے گوشت میں کوئی کڑواہٹ نہیں ہوتی بلکہ آدمی مچھلیوں کو مزے لے لے کر کھاتا ہے۔ اس سے ایسے مونگے اور متوی پیدا کئے ہیں جن کو نکال کر تجارت کی جاتی ہے اس سے ہار اور مختلف چیزیں بنا کر ان کو استعمال کیا جاتا ہے۔ عظیم الشان اور گہرائیوں والے سمندروں میں وہ جہاز ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک رواں دواں رہتے ہیں وہ جہاز اور کشتیاں جن کی حیثیت ایک تنکے سے زیادہ نہیں ہوتی لیکن اللہ نے سمندر کو انسان کے قدموں تلے اس طرح تابع بنایا ہے کہ اس سے وہ ہزاروں فائدے حاصل کرتا ہے۔ فرمایا کہ یہ بلند وبالا اونچے اونچے پہاڑ جن کو زمین کا تو ازن قائم رکھنے کے لئے زمین کے اوپر ایک بوجھ بنا کر رکھ دیا تاکہ زمین ادھر ادھر ڈھلک نہ جائے ان پہاڑوں میں ہزاروں مع دنیات رکھ دیں۔ سونا، چاندی، ہیرے جواہرات، پانی کے بہتے چشمے اور ان ہی پہاڑوں کے اوپر پانی کو برف بنا کر جما دیا جو تھوڑا تھوڑا بہتا رہتا ہے ان سے چشمے، ندی ، نالے اور نہریں بن جاتی ہیں جن سے انسان اپنی کھیتیوں کو سیراب کرتا ہے خود پیتا ہے اپنے جانوروں کو پلاتا ہے اور ہزاروں طرح کے کیمیکل حاصل کرتا ہے۔ فرمایا کہ ذرا غور تو کرو کہ کروڑوں سال سے یہ پہاڑ اپنی جگہ کھڑے ہوئے ہیں۔ ان سے کس کو فائدہ ہے یقینا انسان کو کیونکہ یہ اس کے لئے بنائے گئے ہیں جب قیامت آئے گی تو یہی پہاڑ جو جمے کھڑے ہیں وہ ریت کے ذرے بن کر بکھر جائیں گے۔ فرمایا کہ جب آدمی سمندروں کے درمیان پہنچتا ہے اور اس کو کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی منزل کہاں ہے ؟ اس کے لئے ستارے بنا دیئے جن کو علامت کے طور پر دیکھ کر آدمی اپنی منزل سے نہیں بھٹکتا غرضیکہ اللہ کی نعمتیں ہیں کہ اگر انسان ان کو شمار کرنا چاہے تو کر نہیں سکتا فرمایا کہ ان تمام چیزوں کو کس نے پیدا کیا۔ جس نے سب کچھ پیدا کیا اور جس نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا۔ کیا وہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ ہرگز برابر نہیں ہو سکتے۔ فرمایا کہ ہر شخص کے لئے لازمی ہے کہ وہ اس اللہ ہی کو پکارے جس نے اس پوری کائنات اور اس کے نظام کو بنایا ہے غیر اللہ کو پکارنا کہاں کی عقل مندی ہے۔ فرمایا کہ تمہارا اللہ تو وہ ہے جو ہمیشہ سے زندہ ہے اور رہے گا لیکن جن بتوں کو انسان نے اپنا معبود بنا رکھا ہے وہ تو ٹوٹتے پھوٹتے رہتے ہیں جو ان کی موت بھی ہے۔ ان مردوں یا مرجانے والوں کو اپنا معبود بنا لینا کہاں کی عقل مندی ہے۔ انسان کو نہیں معلوم کہ وہ کب دوبارہ قیامت میں اٹھایا جائے گا لیکن اس کو یہ تو معلوم ہونا چاہئے کہ غیر اللہ کی عبادت و بندگی آخرت میں اس کے کسی کام نہ آئیگی۔ عبادت و بندگی کے لائق صرف اللہ کی ذات ہے جس کا کوئی شریک نہیں ۔ وہ اپنی ذات میں اکیلا ہے۔ وہی خالق ہے اور وہی مالک ہے۔
Top