Baseerat-e-Quran - An-Nahl : 41
وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا فِی اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً١ؕ وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو هَاجَرُوْا : انہوں نے ہجرت کی فِي اللّٰهِ : اللہ کے لیے مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا ظُلِمُوْا : کہ ان پر ظلم کیا گیا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ : ضرور ہم انہیں جگہ دیں گے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں حَسَنَةً : اچھی وَلَاَجْرُ : اور بیشک اجر الْاٰخِرَةِ : آخرت اَكْبَرُ : بہت بڑا لَوْ : کاش كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے
اور وہ لوگ جنہوں نے ظلم و ستم کے باوجود اللہ کے لئے ہجرت کی ہم ان کو دنیا میں اچھا ٹھکانہ دیں گے اور آخرت کا اجر تو اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ کاش وہ جانتے ہوتے۔
لغات القرآن آیت نمبر 41 تا 42 ھاجروا جنہوں نے ہجرت کی۔ ظلموا ظلم کیا گیا۔ نبوء ہم ٹھکانا دیں گے۔ اکبر بڑا، بڑھ کر۔ یتوکلون وہ بھروسہ کرتے ہیں۔ تشریح : آیت نمبر 41 تا 42 نبی کریم حضرت محمد ﷺ کی دلی خواہش اور تمنا تھی کہ تمام کفار و مشرکین اس غلط راستے کو چھوڑ کر ایمان قبول کرلیں۔ اس کے لئے آپ دن رات جدوجہد فرماتے تھے صبح ہو یا شام آپ کو جہاں اور جیسے موقع ملتا آپ ہر ایک کو سمجھاتے رہتے۔ دوسری طرف کفار عرب اپنی ضد ، ہٹ دھرمی اور شیطانی اعمال میں اس قدر آگے جا چکے تھے کہ وہ حق و صداقت کی کسی بات کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے شروع شروع میں تو آپ ﷺ کا مذاق اڑایا۔ جملے کسے، ہر طرح کی غلط فہمیاں پیدا کیں۔ اس کے بعد طرح طرح سے ستانا شروع کیا وہ نبی کریم ﷺ کو ہر طرح کی اذیتیں پہنچاتے اور طرح طرح کے سوالات کرتے رہتے تھے۔ صحابہ کرام پر انہوں نے ناقابل برداشت مظالم کرنے شروع کردیئے۔ جب ان کے ظلم و ستم کی انتہا ہوگئی تب آپ کے جاں نثار صحابہ نے اپنے دین کی حفاظت کے لئے آپ ﷺ کی اجازت سے مکہ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ سب سے پہلے سولہ مردوں اور عورتوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ کیا۔ اس پہلے قافلے میں حضرت عثمان غنی کے علاوہ حضرت رقیہ بنت رسول ﷺ بھی شریک تھیں۔ اس کے بعد ایک سو افراد پر مشتمل ایک اور قافلے نے ہجرت فرمائی جس میں آپ ﷺ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر طیار بھی شریک تھے۔ ان تمام صحابہ و صحابیات نے محض اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنوید کے لئے اپنا سب کچھ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ ادا ایسی پسند آئی کہ قرآن کریم میں ان ہی حضرات کی شان میں یہ آیات نازل ہوئیں فرمایا کہ : 1) جن لوگوں نے محض اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی اور دین اسلام کی سربلندی کے لئے اپنا گھر بار کاروبار اور رشتہ داریوں کو چھوڑ کر ہجرت کی اور ہر طرح کے ظلم و ستم کو برداشت کیا ان کے لئے دنیا میں بہترین ٹھکانا ہے اور آرت میں تو ان کو بہت عظیم انعامات عطا کئے جائیں گے۔ کاش اس حقیقت کو یہ منکرین اور مشرکین جان لیتے فرمایا کہ وہ لوگ جنہوں نے صبر کیا۔ حالات کی سختی کو برداشت کیا اور اپنا سب کچھ چھوڑ کر نتائج سے بےپرواہ اللہ کی ذات پر بھروسہ کیا ان کے لئے دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں مقدر کردی گئی ہیں ۔ صحابہ کرام اسی طرح ہجرت فرماتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملتے ہی نبی کریم ﷺ نے بھی مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ اس ہجرت میں صرف سیدنا ابوبکر صدیق آپ کے ساتھ تھے۔ جیسے ہی نبی کریم ﷺ کے متعلق معلوم ہوا کہ آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کرلی ہے تو صحابہ کرام بھی حبشہ سے مدینہ منورہ کی طرف آنا شروع ہوگئے۔ اللہ نے مدینہ منورہ کے بہت سے لوگوں کو ہدایت نصیب فرمائی اور انہوں نے صحابیت رسول ﷺ کی عظمت حاصل کی۔ اس طرح مہاجرین و انصار کو اللہ نے بہترین ٹھکانا عطا فرمایا اور اللہ کا وعدہ پورا ہو کر رہا۔
Top