Baseerat-e-Quran - An-Nahl : 51
وَ قَالَ اللّٰهُ لَا تَتَّخِذُوْۤا اِلٰهَیْنِ اثْنَیْنِ١ۚ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ فَاِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ
وَقَالَ : اور کہا اللّٰهُ : اللہ لَا تَتَّخِذُوْٓا : نہ تم بناؤ اِلٰهَيْنِ : دو معبود اثْنَيْنِ : دو اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں هُوَ : وہ اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : یکتا فَاِيَّايَ : پس مجھ ہی سے فَارْهَبُوْنِ : تم مجھ سے ڈرو
اور اللہ نے فرمایا کہ تم دو معبود نہ بناؤ۔ وہ صرف ایک ہی معبود ہے، تم مجھ سے ہی ڈرو
لغات القرآن آیت نمبر 51 تا 56 لاتتخذوا تم نہ بناؤ۔ الھین (الہ) دو معبود۔ اثنین دو ۔ واحد ایک۔ ایای مجھ سے ہی۔ رھبوا تم ڈرو۔ واصباً ہمیشہ رہنے والا۔ مابکم جو کچھ تمہارے پاس ہے۔ تجئرون تم فریاد رتے ہو تم چلاتے ہو۔ کشف کھل گیا، دور گیا۔ فریق ایک جماعت ۔ یشرکون وہ شرک کرتے ہیں، شریک کرتے ہیں۔ تمتعوا تم فائدہ حاصل کرو۔ نصیب حصہ۔ تاللہ اللہ کی قسم۔ تسئلن تم پوچھے جاؤ گے۔ تفترون تم گھیرتے ہو۔ تشریح : آیت نمبر 51 تا 56 قرآن کریم میں سب سے زیادہ جس بات پر زور دیا گیا ہے وہ اللہ کو ایک ماننا اور ان تمام غیر اللہ کی عبادت و بندگی سے منہ موڑنا جن کو کچھ نادانوں نے اللہ کا شریک بنا رکھا ہے ۔ کفار و مشرکین کا یہ حال تھا کہ انہوں نے اپنے بہت سے دیوی دیوتا بنا رکھے تھے جن کے متعلق مختلف بتوں کی طرف مختلف طاقتوں کو منسوب کر رکھا تھا کسی بت کے متعلق ان کا یہ گمان تھا کہ یہ اولاد دیتا ہے، کوئی رزق دیتا اور کوئی بارش برساتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے یہ انسانی ہاتھوں کے بنائے ہوئے بت درحقیقت خود اپنے وجود کیلئے دوسروں کے ہاتھوں کے محتاج ہیں یہ انسان کو نہ نفع دے سکتے ہیں نہ کسی طرح کا نقصان پہنچا سکتے ہیں کیونکہ یہ خود اپنے کسی نفع اور نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ فرمایا کہ انسان کی فطرت بھی اسی بات کو سچا مانتی اور جانتی ہے کہ مشکل کے وقت اس کو اپنے بت یاد نہیں آتے بلکہ وہ اللہ کو یاد کرتا ہے، روتا ہے، چلاتا ہے اور اسی کو پکار کر اپنی مصیبت کو دور کرنے کے لئے فریاد کرتا ہے لیکن جب اس کو اس مصیبت سے نجات مل جاتی ہے تو شکر کرنے کے بجائے وہ پھر سے شرک کرنے لگتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم توحید خاص پر زور دیتے ہوئے کفر اور شرک سے نفرت سکھاتا ہے وجہ یہ ہے کہ انسان کے اعمال، اقوال اور اخلاق اس وقت تک درست نہیں ہو سکتے جب تک وہ اللہ کی وحدانیت اور فکر آخرت پر نہ آجائے۔ اسی بات کو ان آیات میں فرمایا گیا ہے کہ اے لوگو ! تم ایک اللہ کو چھوڑ کر بہت سے معبود نہ بناؤ اور ان سے ڈرنے کے بجائے صرف مجھ سے ڈرو کیونکہ اس کائنات میں زمین و آمان اور ہر چیز اس کی ملکیت ہے وہ بغیر کسی شریک کے ان سب چیزوں کا مالک ہے کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے سامنے عبادت و بندگی میں جھکا ہوا ہے۔ اب انسان کی بھی یہی ذمہ داری ہے کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت و بندگی کرنے والا بن جائے۔ کیونکہ وہی ایک اللہ ہے جس نے اس کائنات کے ذرے ذرے کو ایک نعمت کے طور پر انسان کا خادم بنا دیا ہے وہی نعمت دینے والا ہے اور وہی ہر آفت سے بچانے والا ہے۔ انسان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ ایک اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کو پکارے اور غیر اللہ کی عبادت و بندگی میں لگا رہے۔ اور ان بتوں کے نام پر اللہ کے دیئے ہوئے رزق میں کچھ حصہ مقرر کر دے جن کو وہ جانتا تک نہیں کہ انہوں نے جن کو اپنا معبود بنا رکھا ہے وہ کون ہیں۔ یہ صرف بچوں کو بہلانے والے قصے ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ فرمایا کہ پتھر کے بتوں کو انسانی شکل میں تراش لیا ہے اور ان کو اپنا معبود سمجھتے ہی۔ یہ اپنے گمان کی پیروی ہے اپنے معبود کی نہیں کیونکہ جو تصویریں ان کے سامنے ہیں نہ ان کو کسی نے دیکھا اور نہ ان کا کوئی ثبوت موجود ہے۔ فرمایا کہ ہمارا دیا ہو رزق ہے کسی کو اس کا اختیار کیسے مل گیا کہ وہ اس رزق کو غیر اللہ کے لئے وقف کر دے۔ فرمایا کہ اللہ کے ہاں اس کا سوال ضرور کیا جائے گا جس کا یقینا انسان جواب نہ دے سکے گا اللہ تعالیٰ ہمیں وحدانیت کو مانتے ہوئے اس کی ہر نعمت کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Top