Baseerat-e-Quran - An-Nahl : 57
وَ یَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ الْبَنٰتِ سُبْحٰنَهٗ١ۙ وَ لَهُمْ مَّا یَشْتَهُوْنَ
وَيَجْعَلُوْنَ : اور وہ بناتے (ٹھہراتے) لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الْبَنٰتِ : بیٹیاں سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے وَلَهُمْ : اور اپنے لیے مَّا : جو يَشْتَهُوْنَ : ان کا دل چاہتا ہے
اور وہ اللہ کے لئے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں۔ حالانکہ اس کی ذات بےعیب ہے اور ان کے اپنے لئے وہ ہے جو یہ چاہتے ہیں
لغات القرآن آیت نمبر 57 تا 60 یجعلون وہ بناتے ہیں۔ البنت (البنت) بیٹیاں یشتھون وہ خواشہ رکھتے ہیں، چاہتے ہیں۔ بشر خوش خبری دی گئی۔ الانثیٰ لڑکی۔ ظل گیا۔ وجھ چہرہ۔ مسودا تاریک، سیاہ۔ کظیم وہ کھولنے والا ہے، دم گھٹنے لگتا ہے۔ یتواری (تواری) وہ چھپتا پھرتا ہے۔ سوء برائی۔ ایمس کہ کیا اس کو روکے رکھے۔ ھون توہین، ذلت۔ یدس وہ دباتا ہے۔ التراب مٹی۔ الا سنو، خبردار رہو۔ یحکمون وہ فیصلہ کرتے ہیں۔ مثل السوء بری مثال، بری حالت۔ الاعلیٰ بلندو برتر تشریح : آیت نمبر 57 تا 60 کفار و مشرکین عرب کے اس معاشرہ میں ہاں نبی کریم ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا تھا لڑکیوں کو نہایت کم تر، حقیر اور باعث رسوائی سمجھتے تھے اور اپنے لئے لڑکوں کی تمنا رکھتے تھے اور ان کو اپنی زندگی کا سہارا سمجھتے تھے۔ بعض قبائل تو لڑکیوں کو اتنا برا سمجھتے تھے کہ ان کو پیدا ہوتے ہی مار ڈالتے تھے۔ چناچہ مکہ مکرمہ میں آج بھی وہ قبرستان موجود ہے جہاں وہ کفار اپنی لڑکیوں کو زندہ دفن کردیا کرتے تھے۔ جب کسی کے گھر میں لڑکی پیدا ہوتی اور اس کی اطلاع اس کے باپ کو کی جاتی تو نفرت اور غم سے اس کی تیوریاں چڑھ جاتیں۔ غم سے نڈھال ہوجاتا اور چہرہ پر اداسی اور بےنقی چھا جاتی۔ اور وہ رنج و غم سے بےحال ہو کر یہ سوچنے لگتا کہ اب میں لوگوں کا سامنا کیسے کروں گا۔ لوگوں سے چھپا چھپا پھرتا اور یہ سوچتا کہ یہ مصیبت کہاں سے گلے پڑگئی۔ اب میں اس ذلت و رسوائی کو برداشت کروں یا اس کو مٹی گاڑ دوں۔ آخر کار وہ برا فیصلہ کر کے اپنی زندہ لڑکی کو زمین میں گاڑ دیتا تھا۔ اس سنگ دلی کے بہت سے واقعات ہوتے تھے۔ اس دور پر کیا منحصر ہے آج بھی ہندوؤں کے گھر میں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو خوشی کے بجائے رونا دھونا شروع ہوجاتا ہے اور نفرت سے اس لڑکی کو اور اس کی ماں کو دیکھا جاتا ہے۔ ہماری بےعملی کا یہ عالم ہے کہ بعض مسلمانوں میں بھی لڑکی کی پیدائش پر خوشی نہیں کی جاتی بلکہ اگر ان کو مبارکباد پیش کی جائے تو وہ برا محسوس ہیں۔ لیکن سب ہی ایسے نہیں ہیں۔ الحمد اللہ صحیح عقیدہ و فکر رکھنے والے لڑکی اور لڑکی کی پیدائش کو اللہ کی نعمت سمجھتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ عرب کے معاشرہ میں لڑکی سب سے بدترین چیز سمجھی جاتی تھی۔ یہ تو دین اسلام کا فیض ہے کہ دنیا سے یہ رسم ختم ہوئی ورنہ وہ کفار تو اپنی سنگ دلی میں کسر نہیں چھوڑتے تھے۔ اس جگہ یہ فرمایا جا رہا ہے کہ یہ کفار و مشرکین اپنے لئے تو لڑکی کو بدترین سمجھتے ہیں اور لڑکوں کی خواہش کرتے ہیں لیکن اللہ کے لئے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں چناچہ بنو خزاعہ اور دوسرے کچھ قبائل یہ کہتے تھے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ فرمایا کہ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ تم اپنے لئے تو بیٹوں کی خواہش کرتے ہو اور اللہ کی طرف اس چیز کی نسبت کرتے ہو جس کو تم برا سمجھتے ہو یعنی اس کے لئے فرشتوں کو بیٹیاں بناتے ہو یہ کتنی خود غرضی اور بےوقوفی کی بات ہے۔ اللہ جس کے لئے ہر عمدہ سے عمدہ صفت اور مثال ہونی چاہئے تھی جس کا وہ حق دار ہے اس کے لئے بری مثالیں گھڑتے ہو اور ہر اچھی چیز کی نسبت اور صفت اپنی طرف کرنا چاہتے ہو۔ فرمایا یہ انداز خود ایک بدترین مثال ہے۔ فرمایا کہ وہ اللہ جو زبردست ہے اور تمام کائنات کا مالک ہے وہ تمہیں فوراً ہی اس گستاخی پر سزا نہیں دیتا لیکن اگر وہ سزا دینے پر آئے تو اس سے کوئی بچ نہیں سکتا۔
Top