Baseerat-e-Quran - An-Nahl : 68
وَ اَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِشُوْنَۙ
وَاَوْحٰى : اور الہام کیا رَبُّكَ : تمہارا رب اِلَى : طرف۔ کو النَّحْلِ : شہد کی مکھی اَنِ : کہ اتَّخِذِيْ : تو بنا لے مِنَ : سے۔ میں الْجِبَالِ : پہاڑ (جمع) بُيُوْتًا : گھر (جمع) وَّ : اور مِنَ : سے۔ میں الشَّجَرِ : پھل وَمِمَّا : اور اس سے جو يَعْرِشُوْنَ : چھتریاں بناتے ہیں
(اے نبی ﷺ آپ کے رب نے شہد کی مکھی کو الہام کیا کہ وہ پہاڑوں اور درختوں اور جو بلند عمارتیں ہیں ان میں اپنے گھر بنا لے۔
لغات القرآن آیت نمبر 68 تا 70 اوحی وحی کی ، الہام کیا۔ النخل شہد کی مکھی۔ اتخذی تو بنالے۔ بیوت گھر۔ یعرشون وہ لوگ اونچا اٹھاتے ہیں۔ کلی (مونث) تو کھالے اسلکی تو چل۔ سبل (سبیل) راستے۔ ذلیل آسان کئے ہوئے، ہموار۔ شفاء شفا ہے، صحت ہے۔ یتوفی وہ موت دیتا ہے۔ یرد لوٹایا جاتا ہے۔ ارذل العمر نکمی عمر، بےفائدہ زندگی ۔ لکی لایعلم تاکہ وہ نہ جانے۔ تشریح آیت نمبر 68 تا 70 گزشتہ آیات میں حق تعالیٰ شانہ نے اپنی قدرت کاملہ کا اظہار فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ انسان اگر اس کائنات کی ایک ایک چیز پر غور کرے گا تو اس کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہوجائے گا کہ یہ کائنات خود بخود نہیں چل رہی ہے بلکہ اس کو چلانے والا اور اس کا انتظام کرنے والا ایک اللہ ہے جس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ ہر چیز میں تاثیر پیدا کرنا بھی اسی کا کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو چیز جیسی نظر آتی ہے اس کی تاثیر اللہ کے ہاتھ میں ہے مثلاً ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سمندر جس کا پانی انتہائی کڑوا ہے اور اس کا استعمال بظاہر ناممکن ہے اس میں پلنے والی مچھلیاں بھی اپنے گوشت میں کڑواہٹ لئے ہوئے ہوں لیکن ہر شخص جانتا ہے کہ سمندر کی مچھلی کے گوشت میں پانی کی کڑواہٹ کا اثر تک نہیں ہوتا اس طرح خون اور گوبر (گندگی) کے درمیان سے اس نے دودھ کو پیدا کیا۔ لیکن دودھ میں خون کی رنگت یا گوبر کی بدبو نہیں ہوتی۔ آدمی دن رات دیکھتا ہے کہ گندگی سے بنا ہوا کھاد درختوں پودوں اور کھیتوں میں ڈالا جاتا ہے لیکن اس کھاد کا اثر اس کے اناج اور پھلوں پر نہیں پڑتا۔ فرمایا سی طرح شہد کی ایک مکھی جو بڑی زہریلی ہوتی ہے ۔ اگر کسی کے کاٹ لے تو آدمی تلملا کر رہ جاتا ہے لیکن اللہ نے اس شہد کی مکھی کو ایک خاص عقل، سمجھ اور حسن انتظام کا مادہ عطا فرمایا ہے جس سے وہ فطرت کی اس رہنمائی میں جو اللہ نے اسے عطا فرمائی ہے پھولوں، پھولوں اور پودوں کی مٹھاس کو چوس کر اپنے معدے میں ڈالتی ہے تو وہ رنگ برنگ کا ایک ایسا مفید مرکب بن جاتا ہے جس میں اللہ نے شفاء اور صحت رکھ دی ہے۔ ان آیات میں دوسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ جس طرح ہر چیز کی تاثیر اللہ کی طرف سے ہے اسی طرح زندگی اور موت بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ اس اللہ نے انسان کو پیدا کیا، وہی موت دیتا ہے یا کسی کسی کو اس نکمی عمر تک پہنچا دیتا ہے جہاں سب کچھ جاننے کے باوجود سب کچھ بھول جاتا ہے اور اس میں اور ایک بچے میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ یہ پوری کائنات کیا ہے ؟ اس کا نظام کیا ہے ؟ اس کو وہی جانتا ہے اور ساری قدرتیں اور طاقتیں اللہ ہی کی ہیں۔ ان آیات کی چند باتوں کی وضاحت بھی ملاحظہ کر لیجیے : اوحی ۔ اس نے وحی کی … قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے وحی کا لفظ بہت سی جگہوں پر ارشاد فرمایا ہے کہ اس نے وحی کی۔ قرآن کریم اور کتب آسمانی بھی وحی کے ذریعہ آئی ہیں۔ لیکن اس وحی میں اور جو اللہ نے کائنات کی مختلف چیزوں کی طرف وحی کی ہے اس میں کیا فرق ہے ؟ اگر غور کیا جائے تو یہ فرق بہت واضح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی طرف بھی وحی کی ہے اور فرشتوں کی طرف بھی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کی طرف، حضرت موسیٰ کی والدہ کی طرف حضرت مریم کی طرف بھی وحی کی ہے۔ اس لئے وحی کیا ہے ؟ اس کو سمجھ لیا جائے، اصل میں تو خفیہ اور خاموش اشارے کو وحی کہا جاتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ جہاں بھی وحی کا لفظ آئے اس سے وہی مراد ہو جو فرشتے کے ذریعے انبیاء کو عطا کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ اپنی قدت کا اظہار فرما رہے ہیں اس لئے اس وحی کا منشا اس فطری رہنمائی کا بھی ہو سکتا ہے جو اللہ نے ہر مخلوق کی طرف میں رکھ دی ہے۔ مثلاً انسان کا اور جانور کا بچہ اس دنیا میں قدم رکھتے ہی اپنے غذا حاصل کرنے کا طریقہ جانتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ وہ کس طرح تھنوں کو منہ میں لے کر دبائے گا تو اس کی غذا دودھ اس کو حاصل ہوگی۔ یہ اس کی فطرت میں شامل ہے تو اس کو بھی وحی کہہ دیا گیا ہے لیکن درحقیقت وحی حقیقی وہی ہے جس میں اللہ کے حکم سے ایک فرشتہ جو اللہ کی طرف سے اس کی وحی لانے پر مقرر ہے جس کلام کو لے کر آتا ہے اس کو وحی حقیقی کہتے ہیں اس کے علاوہ فطرت کا جو بھی خاموش اشارہ ہے اس کو ہم مجاز وحی کہہ سکتے ہیں یا اس کو الہام کا نام دے سکتے ہیں۔ النحل شہد کی مکھی کو کہتے ہیں۔ شہد کی یہ چھوٹی سی مکھی جس کو اللہ نے ایسی انتظامی صلاحیت دی ہے جس کی تفصیلات سے آدمی حیران ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ اللہ کی قدرت ہے کہ شہد کی مکھیوں کا ایک ایسا اعلیٰ ترین نظام ہے جس پر جتنا بھی غور و فکر کیا گیا انسان حیران رہ گیا۔ شہد کی مکھیوں میں باقاعدہ پولیس، فوج، نگران اور حکومت کرنے والی ملکہ متعین ہے۔ اس پر بہت سے حضرات نے اور مفسرین نے شہد کی مکھیوں پر جتنی بھی تحقیق کی ہے وہ بڑی حیرت انگیز ہے اور اس سے اللہ کی قدرت اور شان نمایاں ہے ۔ وہی ایک اللہ ہے جس نے اپنی مخلوق کو بنایا ہے تو ان کی ہدایت کے بھی پورے سامان فراہم کردیئے ہیں۔ یہ شہد کی مکھی اللہ کے حکم اور فطری رہنمائی میں درختوں، شاخوں اور اونچے گھروں میں اپنا چھتا تیار کرتی ہے اور ہر طرح کے پھلوں اور پھولوں سے رس نچوڑ کر ایسا شہد بناتی ہے کہ انسانی عقل حیران ہو کر رہ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس زہریلے جانور میں جو شہید بنایا ہے وہ انسانوں کی بہت سی بیماریوں میں شفا دیتا ہے اور اس کے زہریلے پن کا کوئی اثر شہد میں نہیں آتا بلکہ بہت سے زہروں کا علاج شہد میں رکھ دیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ اگر ان کے پھوڑا بھی نکل آتا تو آپ اس پر شہد کا لیپ لگا لیا کرتے تھے۔ بعض حضرات صحابہ نے ان سے اس کی وجہ معلوم کی تو آپ نے جواب میں کہا کہ تم نے قرآن کریم میں نہیں پڑھا ” فیہ شفاء للناس “ یعنی اس میں لوگوں کے لئے شفاء رکھی گئی ہے (قرطبی) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا ملہ کا یہ بھی اظہار فرمایا کہ زندگی، موت، مختصر یا طویل زندگی سب اس کے اختیار میں ہے یہاں تک کہ وہ بعض لوگوں کو اس نکمی عمر تک پہنچا دیتا ہے جہاں پہنچ کر وہ سب کچھ بھول جاتا ہے ایک بچے میں اور اس میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا۔ اسی لئے نبی کریم ﷺ نے اس ” ار ذل العمر “ یعنی نکمی عمر سے پناہ مانگی ہے۔ اس موقع پر ایک بات میں عرض کروں گا کہ بعض لوگ جو لمبی عمر کی دعائیں ماگنتے ہیں ان کو اس طرح دعا مانگنی چاہئے کہ اے اللہ اپنے فضل و کرم سے صحت و عافیت اور ایمان کی سلامتی کے ساتھ لمبی عمر عطا فرماتا کہ میں زیادہ سے زیادہ آپ کے دین کو دنیا میں پھیلا سکوں۔ اس کے بعد اگر اللہ تعالیٰ طویل عمری عطا فرمائے گا تو انشاء اللہ وہ عمر پانے والا نکمی عمر تک نہ پہنچے گا۔ اس بات کو حضرت عکرمہ نے فرمایا ہے کہ قرآن پڑھنے والے کی یہ حالت نہیں ہوگی۔ بعض حضرات طویل عمری کی دعا کرتے ہیں اور کچھ بزرگ بھی طویل عمری کی دعا دیتے ہیں لیکن نامکمل دعا کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اللہ قبول کرلیتا ہے لیکن اس طرح سے کہ وہ دوسروں کے ہاتھوں کا کھلونا بن جاتا ہے۔ فرض کیجیے کہ زندگی کے آخری حصے میں اللہ نے اس کی زندگی بڑھا دی مگر اس کو فالج ہوگیا۔ کوئی حادثہ پیش آگیا اور وہ نابینا ہوگیا یا اعضا سے محروم ہوگیا تو وہ زمین پر رہتا ہے مگر دوسروں کا محتاج۔ اس لئے ہمیشہ یہ دعا کرنی چاہئے کہ اے اللہ ایمان کی سلامتی کے ساتھ جتنی بھی عمر عطا فرمائے اس میں ہم آپ کے دین کی سربلندی کے لئے کام کرتے رہیں اور کسی کے محتاج نہ ہوں۔ سوائے اللہ کی محتاجی کے۔ انشاء اللہ ایسی دعا مکمل دعا ہوگی اور اللہ عافیت کے ساتھ قبول و منظور فرمائے گا۔
Top