Baseerat-e-Quran - An-Nahl : 97
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةً١ۚ وَ لَنَجْزِیَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
مَنْ : جو۔ جس عَمِلَ : عمل کیا صَالِحًا : کوئی نیک مِّنْ ذَكَرٍ : مرد ہو اَوْ : یا اُنْثٰى : عورت وَهُوَ : جبکہ وہ مُؤْمِنٌ : مومن فَلَنُحْيِيَنَّهٗ : تو ہم اسے ضرور زندگی دیں گے حَيٰوةً : زندگی طَيِّبَةً : پاکیزہ وَ : اور لَنَجْزِيَنَّهُمْ : ہم ضرور انہیں دیں گے اَجْرَهُمْ : ان کا اجر بِاَحْسَنِ : اس سے بہت بہتر مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
تم میں سے جس نے بھی کوئی بہتر کام کیا خواہ مرد ہو یا عورت ہو جب کہ وہ مومن ہو تو ہم اس کو (اس دنیا میں) پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور (آخرت میں) ان کا اجر وثواب اس سے بہتر دیں گے جو وہ عمل کرتے تھے۔
لغات القرآن آیت نمبر 97 تا 100 صالح نیک، بہتر۔ ذکر مرد۔ انثیٰ عورت۔ نحیین ہم ضرور زندگی دیں گے۔ حیوۃ طیبۃ پاکیزہ زندگی۔ نجزین ہم ضرور بدلہ لیں گے۔ احسن زیادہ بہتر۔ قرات تم نے پڑھا، تلاوت کی۔ استعذ پناہ مانگ لے۔ سلطن زور، قوت۔ پتوکلون وہ بھروسہ کرتے ہیں۔ یتولون دوستی کرتے ہیں۔ تشریح آیت نمبر 97 تا 100 ان آیات میں اللہ نے فرمایا ہے کہ عورت ہو یا مردان میں سے جو بھی ایمان اور عمل صالح کا پیکر ہوگا۔ ہم اس کو نہ صرف حیاۃ طیبہ عطا کریں گے بلکہ اس نے جو بھی نیکی اور بھلائی کے کام کئے ہوں گے ان پر اس کے تصویر سے بھی بہتر اجر وثواب عطا کریں گے۔ دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ یہ قرآن کریم جو ہر نیکی، ایمان اور عمل صالح کا سرچشمہ ہے اس کی تلاوت کے آداب یہ ہیں کہ جب بھی اس کی قرأت کی جائے تو پہلے ” استعاذہ “ کرلیا جائے یعنی شیطان جو ہر وقت مستعد اورت یار رہنا ہے کہ کسی طرح لوگوں کو نیکی اور بھلائی کے کاموں سے دور لے جائے اور ان کے دل میں طرح طرح کے وسوسے ڈال کر ان پر حاوی ہوجائے فرمایا کہ تلاوت کلام اللہ کے وقت اللہ سے اس کی پناہ اور شیطان کے شر سے بچنے کی درخواست کرلیا کریں تاکہ شیطان کے کسی چکر میں نہ پھنس جائیں۔ فرمایا کہ جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور ہر حال میں اسی پر بھروسہ کر کے زندگی کی راہوں میں چلتے ہیں ان پر شیطان کا زور نہیں چلتا۔ اس کا زور تو ان لوگوں پر چلتا ہے جو اللہ کے دین کی ہر بات سے منہ پھیر کر چلتے ہیں یا اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔ ان آیات کی مزید وضاحت کیلئے کچھ الفاظ کا ترجمہ اور مفوہم بھی پیش نظر رکھ لیجیے : عمل صالح ہر وہ کام جو اللہ او اس کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے احکامات کے تحت محض اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے کیا جائے ” عمل صالحذ ہے۔ قرآن کریم میں عموماً ایمان کے ساتھ عمل صالح کا حکم اسی اہمیت کے پیش نظر فرمایا گیا ہے۔ لہٰذا ہر وہ کام جس کو ہم بہتر سمجھتے ہیں ضروری نہیں ہے کہ وہ عمل صالح ہو۔ البتہ اگر اللہ و رسول کے حکم کے مطابق ہو تو وہ عمل صالح ہے۔ ذکر او انثی یعنی ایمان اور عمل صلح جو بھی کرے گا اس کو اجر ملے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ کفار و مشرکین عورت ذات کو انتہائی کم تر اور گھٹیا درجہ دیتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ ایمان اور عمل صالح کے حق دار صرف مرد ہیں فرمایا کہ اعمال صالحہ میں ہر مرد اور ہر عورت برابر کا درجہ رکھتے ہیں جو جیسا عمل کرے گا اس کو ویسا ہی اجر وثواب دیا جائے گا۔ حیاۃ طیبۃ پاکیزہ اور کامیاب زندگی جس میں نیکی سے کئے گئے کاموں اور اجر وثواب اس دنیا میں اور آخرت میں بھرپور طریقے سے ادا کیا جائے گا۔ ان کو دنیا میں رزق حلال، صبر و قناعت، تحمل اور برداشت، قلبی سکون و اطمینان، معاشی خوش حالی، گھریلو سکون، کامیاب مستقبل کا خوشنما تصور عزت و سربلندی، کامیابی اور کامران نصیب ہوگی۔ قبر میں اس کا ایمان اور عمل صالح اس پر سایہ کئے ہوں گے اور وہ عذاب قبر سے محفوظ رہے گا۔ پھر آخرت میں جنت کی وہ راحتیں نصیب ہوں گی جن کی لذت اور کیفیت کا تصور اس دنیا میں ممکن ہی نہیں ہے۔ عرضی کہ دنیاوی زندگی، قبر کی منزل کی آسانی، حشر میں رسوائی سے حفاظت اور نجت کی ہمیشہ رہنے والی راحتیں اور لذتیں حیاۃ طیبہ ہیں۔ قرأت القرآن قرآن کریم کو پڑھنا، تلاوت کرنا قرأت کرنا اس کے تمام آداب کا لحاظ کرنا قرأت قرآن کریم کہلاتا ہے۔ قرآن کریم اس لئے نازل کیا گیا ہے کہ اس کی تلاوت کی جائے اس کو سمجھا جائے اور سمجھ کر ایمان اور عمل صالح کا راستہ اختیار کیا جائے تاکہ آخرت کی ابدی راحتیں نصیب ہو سکیں۔ لیکن قرآن کریم چونکہ سرچشمہ ہدایت ہے اس لئے اگر ایک شخص محض تلاوت قرآن کریم کرتا ہے اور اس کے معنی نہیں سمجھتا تب بھی اس کو ہر حرف پر دس نیکیوں کا ثواب عطا کیا جانے کا وعدہ ہے۔ اس لئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب قرآن کریم کے ایک حرف پر دس نیکیاں ہیں اگر اس کو سمجھ کر پڑھا جائے تو اس کے اجر وثواب کا کیا ٹھکانا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ صحابہ کرام جو قرآن کریم اور اس کی تشریح یعنی سنت رسول اللہ ﷺ میں اس طرح ڈھل گئے تھے کہ انہوں نے اس قرآن کریم کے ذریعہ ساری دنیا میں ایک صالح انقلاب برپا کردیا تھا۔ آج بھی اس کی ضرورت ہے کہ قرآن کریم کے نور سے ساری دنیا کو روشن کر کے اندھیروں کو سمیٹ دیا جائے۔ استعاذہ اصل میں شیطان ہر آن اس فکر میں لگا رہتا ہے کہ وہ انسان کو صراط مستقیم سے بھٹکا کر اللہ کی رحمت سے دور لے جائے وہ اس کو بہت سے فضول کاموں کی طرف متوجہ کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح وہ قرآن کریم کی تلاوت کی طرف نہ جاسکے وہ اس کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے تاکہ وہ قرآن کریم کے نور سے دور رہ سکے۔ نبی کریم ﷺ جو اللہ کے نبی اور رسول ہیں اور وہ ہر خطا سے معصوم ہیں اور براہ راست اللہ کی نگرانی میں ہیں آپ کو خطاب کرتے ہوئے درحقیقت پوری امت کے ہر فرد کو بتایا گیا ہے کہ اے نبی ﷺ آپ جب بھی تلاوت قرآن فرمائیں تو سب سے پہلے اس بات کی درخواست کریں کہ اے اللہ مجھے شیطان کے ہر وسوسے سے محفوظ فرما۔ اس کے ہر شر سے بچاتے ہوئے اپنی پناہ اور حفاظت عطا فرما۔ چونکہ شیطان کا وارتو ان لوگوں پر چلتا ہے جو اللہ اور اس کی پناہ سے منہ پھیر کر چلتے ہیں یا اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں لیکن وہ لوگ جو ایمان، عمل صالح اور توکل علی اللہ کے پیکر ہوتے ہیں ان پر شیطان کا بس نہیں چلتا۔
Top