Baseerat-e-Quran - Al-Furqaan : 20
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ
سُبْحٰنَ : پاک الَّذِيْٓ : وہ جو اَسْرٰى : لے گیا بِعَبْدِهٖ : اپنے بندہ کو لَيْلًا : راتوں رات مِّنَ : سے الْمَسْجِدِ : مسجد الْحَرَامِ : حرام اِلَى : تک الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا : مسجد اقصا الَّذِيْ : جس کو بٰرَكْنَا : برکت دی ہم نے حَوْلَهٗ : اس کے ارد گرد لِنُرِيَهٗ : تاکہ دکھا دیں ہم اس کو مِنْ اٰيٰتِنَا : اپنی نشانیاں اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْبَصِيْرُ : دیکھنے والا
اللہ، پاک بےعیب ذات ہے جو اپنے بندے (حضرت محمد ﷺ کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد اقصی (بیت المقدس) تک لے گیا جس کے اردگرد کو ہم نے برکت عطا کی ہے تاکہ ہم ان کو (اپنی قدرت کی) نشانیاں دکھائیں ۔ بیشک وہی سننے والا اور خوب دیکھنے والا ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 1 سبحن ہر طرح کے عیب سے پاک ذات۔ ساری لے گیا۔ (گیا) ۔ المسجد الحرام قابل احترام مسجد (بیت اللہ) ۔ المسجد الاقصی دور کی مسجد۔ (بیت المقدس) ۔ حول اردگرد۔ آس پاس۔ نری ہم دکھائیں گے۔ تشریح : آیت نمبر 1 اللہ تعالیٰ نے سورة الاسراء یا سورة بنی اسرائیل کی ابتدا ” سبحن “ سے فرمائی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات ہر طرح کے عیب سے پاک ہے، وہ اللہ جیسے اس کائنات میں ہر طرح کی تعریفوں اور عظمتوں کا مستحق ہے اسی طرح وہ تمام انسانی کمزوریوں سے بھی پاک ہے۔ وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ وہ کسی کام کے کرنے میں دنیاوی اسباب اور ذرائع کا محتاج نہیں ہے بلکہ وہ جب بھی کسی کام کو کرنا چاہتا ہے اسی وقت پورا ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اگر وہ اپنے محبوب بندے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد اقصی (بیت المقدس) تک لے گیا اور وہاں سے ان کو سارے آسمانوں کے عجائبات قدرت کی سیر کرانے کے بعد اسی رات ان کو واپس مکہ مکرمہ لے آیا تو اس میں تعجب اور حیرت کی کیا بات ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کی اس سورت میں صرف مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک کی سیر کا ذکر فرمایا ہے اور سورة النجم (پارہ 27) میں اللہ تعالیٰ نے اس معراج کا ذکر فرمایا ہے جس میں آپ ﷺ کو آسمان تک لے جانے اور رسول اللہ ﷺ کے بارگاہ الہی میں پہنچنے کی کیفیات ارشاد فرمائی گیء ہیں۔ اسی لئے علماء کرام نے فرمایا ہے کہ ” اسراء اور معراج “ دونوں ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں ۔ البتہ فرق یہ ہے کہ 1- اسراء مسجد الحرام (مکہ مکرمہ) سے مسجد الاقصی (بیت المقدس) تک کے سفر کو اسراء کہا جاتا ہے۔ 2- معراج مسجد الاقصی سے بار گاہ الٰہی تک پہنچنے اور سفر کرنے کو معراج کہا جاتا ہے۔ اسراء کا ذکر تو سورة بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے البتہ معراج کا تفصیلی ذکر سورة النجم (پارہ نمبر 27) کے علاوہ ان متواتر اور مشہور احادیث میں بھی موجود ہے جن کو اکابر صحابہ خاص طور پر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ حضرت علی مرتضی حضرت عبداللہ ابن مسعود، حضرت عبداللہ ابن عباس، حضرت ابوہریرہ، حضرت ابو ذر غفاری، حضرت انس ابن مالک، حضرت ابو سعید خدری، حضرت مالک ابن صعصعہ اور حضرت حذیفہ ابن الیمان جیسے جلیل القدر صحابہ نے روایت کیا ہے۔ معراج کی روایات اس قدر تسلسل اور تو اتر کے ساتھ معتبر ترین ذرائع سے بیان کی گئی ہیں جن پر تقریباً تمام اکابر امت کا اتفاق ہے اور ان کی تعداد تیس (30) تک جا پہنچتی ہے۔ جمہور علماء امت اس بات پر متفق ہیں کہ ” اسراء اور معراج “ کا واقعہ ایک ہی وقت اور ایک ہی رات میں بیداری کی حالت میں جسم و روح کے ساتھ پیش آیا۔ آپ ﷺ کو مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے جایا گیا اور آپ اسی رات عالم بالا کی بلندیوں سے گذرتے ہوئے بار گاہ الٰہی تک پہنچے اور صبح وہنے سے پہلے آپ مکہ مکرمہ واپس تشریف لے آئے۔ سورۃ الاسراء کی اس پہلی آیت کی تشریح اور وضاحت کرتے ہوئے علماء کرام اور مفسرین نے بہت سی بحثیں کی ہیں جن کو مختصر انداز میں بیان کیا جاتا ہے تاکہ اسری اور معراج کی پوری کیفیات سامنے آسکیں۔ سورة الاسراء اور سورة النجم کی آیات کے مطالعہ سے جو باتیں سامنے آتی ہیں ان کو چند عنوانات کے تحت بیان کیا جاسکتا ہے تاکہ بات پوری طرح سمجھ میں آسکے۔ 1- مکہ مکرمہ سے بیت المقدس تک کا سفر (جس کو اسراء کہا جاتا ہے۔ ) 2- مسجد الاقصی (بیت المقدس) میں رسول اللہ ﷺ کی امامت میں تمام انبیاء نے نماز ادا فرمائی۔ 3- مسجد الاقصیٰ سے سدرۃ المنتھی تک پہنچنا (جس کو معراج کہا جاتا ہے۔ ) 4- سدرۃ المنتھی پر حضرت جبرائیل امین کا اپنی اصلی صورت میں ظاہر ہونا۔ 5- سدرۃ المنتھی سے بار گاہ الٰہی میں حاضری کی کیفیات (کیا رسول اللہ ﷺ نے اللہ کو آنکھوں سے دیکھا ہے ؟ ) 6۔ سفر ” اسراء و معراج “ خواب میں پیش آیا یا بیداری کی حالت میں ؟ 8- سفر معراج کی ضرورت کیا تھی ؟ اس سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے ؟ یہ ہیں وہ عنوانات جن کی تفصیل بیان کرنے سے انشاء اللہ اس سفر کی عظمت سامنے آسکے گی۔ اسرائ۔ اللہ تعالیٰ نبی کریم ﷺ کو اپنی قدرت کاملہ سے بعض نشانیاں دکھانے کے لئے راتوں رات مسجد الحرام (بیت اللہ) سے مسجد الاقصی (بیت المقدس) تک لے گیا۔ اور اللہ نے اس سفر اسری میں نبی کریم کو بعض نشانیاں بھی دکھائیں جن کی کیفیات کو صحیح احادیث میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد مسجد الاقصیٰ سے آپ کو معراج عطا فرمائی گئی ۔ امت کے اکثر علمائ، فقہا محدثین، متکلمین اور مفسرین کا اتفاق ہے کہ اسراء اور معراج کا واقعہ ایک ہی رات میں جسم و روح کے ساتھ بیداری کی حالت میں پیش آیا ہے۔ یہ کوئی خواب یا محض روحانی عروج نہ تھا۔ یہ واقعہ کب پیش آیا ؟ مشہور تو یہی ہے کہ ہجرت مدینہ سے ایک سال پہلے شعب ابی طالب میں شدید فقر و فاقہ اور سفر طائف کے اذیتوں بھرے سفر کے بعد 27 رجب 12 نبوی ﷺ میں پیش آیا لیکن بعض علمئا امت نے کچھ روایات کی بنیاد پر مختلف تاریخیں اور دن بیان کئے ہیں۔ 1- جس سال نبوت عطا کی گئی اسی سال معراج کا واقعہ پیش آیا (امام طبری) 2- نبوت کے پانچویں سال 27 رجب کو معراج ہوئی ۔ (امام قرطبی) 3 نبوت کے دسویں سال 27 رجب کو معراج کا واقعہ پیش آیا (علامہ منصور پوری) 4- واقعہ معراج مکی زندگی کے بالکل آخری درو میں ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا (سبقات ابن سعد) 5) یہ واقعہ معراج 17 رمضان المبارک 12 نبوی ﷺ میں پیش آیا (واقدی) 6- یہ ہجرت کے ایک سال آٹھ مہینے پہلے رجب 12 نبوی ﷺ میں پیش آیا (ابن عبداللہ) 7- یہ علماء کرام کے مختلف اقوال ہیں جن کو بیان فرمایا گیا ہے۔ حقیقت کا علم تو اللہ کو ہے بہرحال موجودہ دور میں یہی قول مشہور ہے کہ واقعہ معراج 27 رجب کو پیش آیا۔ معراج اور ختم نبوت علم و تحقیق کی بات تو اپنی جگہ محترم ہے لیکن اگر ہم اس مبارک رات کی حقیقت، کیفیات اور معراج عطا کئے جانے کا جو عظیم مقصد تھا اس کو پیش نظر رکھیں تو یہ سب سے بہتر بات ہوگی کیونکہ امت محمدی کی اس سے بڑھ کر اور کیا عظمت ہوگی کہ اس نے انہیں ایک ایسے عظیم نبی کا امتی بنایا جو سردار انبیاء خاتم الانبیاء اور فخر انبیاء و رسل ہیں جنہیں اللہ نے حضرت موسیٰ کی طرح محض اپنے کلام ہی سے نہیں نوازا بلکہ آپ کو پوری شان و شوکت سے اس قدر قریب بلایا کہ جبرئیل امین بھی کہہ اٹھے کہ اس سے آگے آپ تشریف لے جائیے۔ اگر میں نے اس سے آگے ایک قدم بھی بڑھایا تو تجلی الٰہی میرے پروں (بازوؤں) کو جلا کر راکھ کر دے گی۔ اللہ نے آپ کو یہ مقام رفعت و عظمت عطا فرمایا۔ اس شان و عظمت اور بلندیوں تک نہ کوئی نبی اور رسول پہنچا اور نہ کسی کو یہ عظمت حاصل ہو سکتی تھی۔ اللہ نے اس سفر میں گویا آپ کے سر پر ختم نبوت کا تاج رکھ کر قیامت تک آنے والی نسلوں کو بتا دیا کہ یہی وہ نبی و رسول ہیں جن کے ساتھ نبوت و رسالت مکمل ہوگئی اب کسی نئے نبی نئے رسول اور نئی امت کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ اسراء و معراج درحقیقت ختم نبوت کا اعلان بھی ہے۔ یہی اس سفر کا ایک بنیادی مقصد سمجھ میں آتا ہے۔ تمام نبیوں کی امامت ایک رات نبی کریم ﷺ ” حطیم کعبہ “ میں آرام فرما رہے تھے اچانک حضرت جبرئیل امین اور حضرت میکائیل نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ نے آپ کو یاد فرمایا ہے ہمارے ساتھ چلئے۔ چناچہ آپ اس براق پر سوار کئے گئے جو آپ کے لئے لایا گیا تھا۔ براق جس کی تیزی رفتایر کا یہ عالم تھا کہ جس جگہ (حضور) کی نظر پڑتی تھی وہیں اس کا قدم پڑتا تھا۔ براق بجلی کی طرح کو ندتا ہوا تیزی سے آپ کو مسجد اقصی (بیت المقدس) لے کر پہنچ گیا بعض روایات کے مطابق جیسے ہی نبی کریم ﷺ مسجد الاقصی پہنچے یہاں تمام انبیاء اور رسل جمع تھے۔ نماز تیار تھی جیسے صرف امام کا اتنظار کیا جا رہا ہے۔ چناچہ حضرت جبرئیل امین نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو امامت کی جگہ کھڑا کردیا اور اس طرح آپ نے تمام نبیوں اور رسولوں کی امامت فرمائی۔ اس سلسلہ میں دوسری روایت بھی ہے کہ جب نبی کریم ﷺ سفر معراج سے واپس تشریف لائے تب آپ نے تمام نبیوں اور رسولوں کی امامت فرمائی۔ یہ تو روایات کا اختلاف ہے بہرحال یہ تو ثابت ہے کہ آپ کو اللہ نے سارے نبیوں اور رسولوں کا امام بنایا ہے۔ اس طرح یہ واقعہ بھی آپ کی ختم نبوت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ الاقصیٰ سے سدرۃ المنتھی تک مسجد الاقصی سے سدرۃ المنتھی کے سفر کی کوئی تفصیل قرآن کریم میں موجود نیں ہے البتہ ایسی صحیح اور متواتر تیس احادیث میں اس کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں جن پر پوری امت کے اکثر علماء کا اتفاق ہے ۔ لیکن اس جگہ یہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر احادیث میں اس واقعہ کی تفصیل نہ بھی ہوتی تو یہ بات خود بخود سمجھ میں آجاتی ہے کہ جب سورة النجم میں سدرۃ المنتھی اور بارگا الٰہی میں پہنچنے کا ذکر ہے تو یقینا آپ کسی نہ کسی ذریعہ سے مسجد الاقصی سے آسمانوں تک پہنچے ہوں گے۔ بہرحال احادیث کے مطابق تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت جبرائیل امین حضور اکرم ﷺ کو براق پر سوار کر کے آسمانوں کی طرف لے چلے۔ جب آپ پہلے آسمان پر پہنچے تو وہاں حضرت آدم سے ملاقات ہوئی جنہوں نے نبی کریم ﷺ کا خیر مقدم کیا۔ دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ سے تیسرے آسمان پر حضرت یوسف سے چوتھے آسمان پر حضرت ادریس سے پانچویں آسمان پر حضرت ہارون سے چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ سے اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیھم السلام سے ملاقات ہوئی پھر حضرت جبرائیل امین آپ کو سدرۃ المنتھی کی طرف لے کر چلے۔ راستے میں آپ نے حوض کوثر ار جنت کو بھی دیکھا پھر کچھ لوگوں پر جن ہم کے عذاب کی مختلف شکلیں اور جہنم کو بھی دیکھا ہے۔ اس طرح اللہ کی نشانیوں کو دیکھتے ہئے آپ سورة المنتھی تک پہنچ گئے۔ سورۃ المنتھی کیا ہے ؟ سدرہ بیری کے درخت کو کہتے ہیں مگر بیری کا درخت کیا ہے ؟ اس کا تصور بالکل اسی طرح ناممکن ہے جس طرح جنت کی راحتوں اور جہنم کی تکلیفوں کا اندازہ اس دنیا میں لگانا مشکل ہے کیونکہ یہ چیزیں انسان اپنے مشاہدہ کے ذریعے معلوم نہیں کرسکتا۔ مثلاً نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جنت ایسی ہے کہ نہ کسی کان نے سنا نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کے دل پر اس کا تصور بھی گذرا ہے۔ اسی طرح سدرہ بیری کا ایک درخت ہے اس کی صحیح کیفیات کا علم اللہ کو ہ۔ سدرۃ المنتھی کی تفصیل یہ بتائی گئی ہے کہ یہ آسمان پر تمام بھلائیوں اور احکامات الٰہی کا ایک ایسا سنگم ہے کہ اللہ کی طرف سے جو بھی احکامات آتے ہیں پہلے وہ سدرۃ المنتھی تک پہنچتے ہیں پھر وہاں سے ملائکہ زمین پر لاتے ہیں اسی طرح اس دنیا کے تمام اعمال پہلے سدرۃ المنتھی تک پہنچتے ہیں پھر وہاں سے اللہ کے حکم پر اوپر اٹھائے جاتے ہیں حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے کہ یہ اتنا بڑا اور تناور درخت ہے جس کی جڑیں چھٹے آسمان میں اور اس کا پھیلاؤ ساتویں آسمان تک ہے۔ سدرۃ المنتھی وہ ہے جس کے پاس ” جنت الماوی “ یعنی و جنت ہے جس میں اہل ایمان کو رکھا جائے گا اور اہل ایمان و صاحبان تقویٰ کے لئے بہترین قیام ہوگی۔ (حسن بصری) حضرت قتادہ اور حضرت عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ وہ جنت ہے جس میں اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کی ارواح کو رکھا جاتا ہے۔ اس سے مراد وہ جنت نہیں ہے جو آخرت میں ملنے والی ہے غرضیکہ جب نبی کریم ﷺ سدرۃ المنتھی سے آگے لے جائے گئے تو آپ نے دیکھا کہ کچھ چیزیں جو سونے کے پروانوں کی طرح روشن ومنور تھیں وہ اس بیری کے درخت سے چمٹی اور لپٹی ہوئی ہیں۔ روایات کے مطابق یہ فرشتے تھے جو اس درخت سے اتنی بڑی مقدار میں لپٹے ہوئے تھے کہ ہر پتے پر ایک فرشتہ نظر آ رہا تھا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب فرشتوں کو معلوم ہوا کہ خاتم الانبیاء سردار انبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ آج کی رات یہاں تشریف لا رہے ہیں تو فرشتوں نے درخواست پیش کی کہ ہم بھی نبی کریم ﷺ زیارت کرنا چاہتے ہیں۔ چناچہ ان کو اجازت دے دی گئی۔ معلوم ہوا کہ اس رات اللہ کی خصوصی تجلیات کا ظہور تھا جس کی بنا پر اللہ کے فرشتے بھی آپ کی آمد کے منتظر تھے۔ جبرئیل اپنی اصلی شکل میں اس مضمون کو سمجھنے کے لئے سورة النجم کی آیات کا ترجمہ ملاحظہ کر لیجیے۔ ترجمہ :- ستارے کی قسم جب وہ غروب ہوا۔ یہ تمہارے صاحب (ساتھ رہنے والے) نہ راہ حق سے بھٹکے نہ غلط راستہ پر چلے۔ نہ وہ اپنی نفسانی خواہش سے کہچھ کہتے ہیں سوائے اس وحی کے جو ان کی طرف کی جاتی ہے۔ ان کو وہ سکھاتا ہے جو بڑی قوت والا ہے۔ پھر وہ اصلی صورت پر اس حالت میں ظاہر ہوا کہ وہ (آسمانوں کے) بلند کنارے پر تھا۔ پھر وہ قریب آیا اور بہت نزدیک آگیا کہ دو کمانوں سے بھی کم کا فاصلہ رہ گیا۔ پھر اللہ نے اپنے بندے پر وحی نازل کی اور (وہ نازل کیا) جو اس کو نازل کرنا تھا۔ قلب نے دیکھی ہوئی چیز میں غلطی نہیں کی کیا تم اس سے اس بات پر جھگڑتے ہو جو اس نے دیکھا۔ اور یقینا اس نے اس کو ایک مرتبہ پھر سدرۃ المنتھی کے پاس اترتے دیھکا۔ جس کے قریب جنت الماویٰ (انسان کا اصل ٹھکانا اور مقام) بھی ہے۔ جب وہ اس ” سدرہ “ پر چھا رہا تھا جو کچھ وہ چھا رہا تھا۔ نہ تو نگاہ (حد سے آگے بڑھی۔ اور اس نے اپنے پروردگار کے بڑے بڑے عجائبات کو دیکھا۔ (سورۃ النجم آیت نمبر 1 تا 18) سورۃ النجم کی ابتدائی آیات میں علماء مفسرین کی دورائے ہیں۔ کچھ علماء فرماتے ہیں کہ ان آیات میں ” شدید القوی، ذومرۃ ، دنی فتدلی، قاب قوسین، اوادنی “ الفاظ حضرت جبرئیل امین کی صفات ہیں۔ یعنی وہ لوگ جو نبی کریم ﷺ کی وحی میں یہ کہہ کر شبہات پیدا کرتے تھے کہ حضرت جبرئیل پر ہمیں اعتماد نہیں ہے کہ وہ صحیح طریقے پر وحی لے کر اترتے ہیں اور کہتے تھے کہ ہمارا محمد ﷺ سے کوئی لڑائی جھگڑا یا اختلاف نہیں ہے بلکہ ہم تو جبرائیل کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ اس کا جواب اللہ نے سورة بقرہ میں یہ دیا ہے کہ اے نبی ﷺ ! آپ ان لوگوں سے جو جبرئیل سے دشمنی کا اظہار کرتے ہیں کہہ دیجیے کہ وہ جبرئیل تو اللہ کے حکم سے اللہ کا کلام آپ کے قلب پر لے کر اترتے ہیں۔ (سورۃ البقرہ) روایات کے مطابق عام طور پر حضرت جبرئیل امین حضرت وحیہ کلبی کی شکل میں آتے تھے لیکن دو موقعے ایسے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت جبرئیل کو ان کی اصل شکل میں دیکھا ہے ان میں سے ایک وہ موقع ہے جس کی طرف ان آیات میں ارشاد فرمایا گیا ہے جب نبی کریم ﷺ نے سدرۃ المنتھی پر حضرت جبرئیل کو دیکھا تو اس وقت وہ پورے افق پر چھائے ہوئے تھے اور ان کے چھ سو بازو تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جبرئیل وہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اتنی زبردست طاقتیں عطا فرمائی ہیں کہ وہ کسی کے سامنے مجبور یا کمزور نہیں پڑ سکتے وہ شدید القوی یعنی زبردست قوت و طاقت والے ہیں۔ ذومرہ طاقت ور ہیں، دنی فتدلی وہ قریب ہوئے اور بہت قریب ہوگئے۔ قاب قوسین اوادنی۔ دو کمان کے برابر یا اس سے قریب تر ہوگئے۔ مراد یہ ہے کہ وہ ایسی طاقتوں والے اور افق پر چھا جانے والے ہیں کہ شیطان کی طاقتیں ان کو نہ مجبور و بےبس کرسکتی ہیں اور نہ شیطان کی یہ مجال ہے کہ ان کے کام میں کسی طرح کی مداخلت کرسکے۔ کچھ علماء نے ان آیات کو اللہ کی صفات قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان آیات میں رویت اور قرب سے مراد اللہ کی رویت اور قرب ہے بہرحال آیات میں دونوں تفسیروں کی گنجائش اور احتمال موجود ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت جبرائیل امین کو ان کی اصلی صورت میں دو دفعہ دیکھا ہے۔ پہلا موقع تو مکہ مکرمہ میں اس وقت پیش آیا جب آپ ﷺ فترۃ الوحی کے زمانہ میں مکہ مکرمہ سے کہیں تشریف لے جا رہے تھے۔ دوسرا واقعہ شب معراج میں ساتویں آسمان پر سدرۃ المنتھی کے قریب پیش آیا جس کا ذکر سورة النجم کی مذکورہ آیات میں کیا گیا ہے۔ سورۃ المنتھی اور دربار الٰہی میں حاضری جیسا کہ عرض کیا گیا ہے ” سدرۃ المنتھی “ ایک اہم ترین مقام اور سنگم ہے جہاں سے سارے فیصلے اور اعمال اوپر سے آتے اور نیچے سے بارگاہ الٰہی میں پہنچتے ہیں۔ جب حضرت جبرئیل اس مقام پر پہنچے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کیا بات ہے ؟ حضرت جبرئیل نے فرمایا کہ میں اس سے ایک قدم بھی آگے بڑھاؤں گا تو اللہ کی تجلی مجھے جلا کر راکھ کر دے گی۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ جب میں سدرۃ المنتھی کے پاس پہنچا تو مجھے بادل کی طرح کی چیز نے گھیر لیا او میں سجدہ میں گر گیا۔ پھر اللہ کی طرف سے رف رف سواری بھیجی گئی اور میں رنگ و نور کے درمیان آگے بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ میں اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوگیا۔ علماء محققین نے اس موقع پر اس سوال کو اٹھایا ہے کہ سفر معراج میں رسول اللہ ﷺ کو اللہ کی ردیت حاصل ہوئی یا نہیں ؟ چناچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ اس بات کو بڑی شدت سے بیان فرماتی ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ کو دیکھا ہے تو وہ غلط کہتا ہے اور اس تصور سے میرے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ فرمایا کہ امت میں سب سے پہلے میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تھا کہ سورة النجم میں جس ردیت کا ذکر فرمایا گیا ہے اس سے کیا مراد ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ اس سے مراد جبرئیل کی ردیت ہے۔ ام الممونین تو یہاں تک فرمتای ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا تھا تو آپ نے فرمایا کہ (سورۃ النجم میں جس ردیت کا ذکر ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ) میں نے جبرائیل کو دیکھا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کو اپنا قرب تو عطا فرمایا لیکن آپ ﷺ نے اللہ کو آنکھوں سے نہیں دیکھا۔ اسی لئے ام المومنین کی روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ وہ تو نور ہے میں اسے کیسے دیکھتا ایک اور روایت کے مطابق ام المومنین حضرت عائشہ صدیقفہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ کیا آپ نے اللہ کو دیکھا ہے تو آپ نے اس سے انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے اللہ کو نہیں دیکھا۔ مسلم کی ایک روایت کے مطابق ام المومنین نے مسروق سے گفتگو میں فرمایا کہ جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا افترا کرتا ہے۔ (مسلم ، کتاب الایمان فی ذکر سدرۃ المنتھی) دوسری طرف وہ روایات بھی موجود ہیں جن میں ” ردیت “ سے مراد جبرئیل امین کی ردیت نہیں بلکہ اللہ کی ردیت ہے چناچہ حضرت انس بن مالک نے قصہ معراج میں شریک ابن عبداللہ سے ایک روایت نقل کی ہے جس کو امام بخاری نے کتاب التوحید میں درج فرمایا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ سدرۃ المنتھی پر پہنچے تو اللہ تعالیٰ کے قریب آئے اور (اس کا نور) آپ پر سایہ فگن ہوگیا۔ یہاں تک کہ آپ کے اور اللہ کے درمیان دو کمانوں یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جو چاہا آپ پر وحی نازل فرمائی۔ ان ہی احکامات میں سے پچاس نمازوں کی فرضیت کا حکم بھی تھا (جو بعد میں پانچ فرض نمازوں تک محدود کردیا گیا) حضرت عبداللہ ابن عباس کا ایک قول امام شعبی نے نقل فرمایا ہے جو حضرت ابن عباس نے ایک مجلس میں فرمایا ۔ انہوں نے فرمایا۔ ” اللہ تعالیٰ نے اپنی رویت اور اپنے کالم کو حضرت محمد ﷺ اور حضرت موسیٰ کے درمیان تقسیم فرما دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے دو مرتبہ کلام فرمایا اور حضرت محمد ﷺ نے اللہ کو دو مرتبہ دیکھا۔ (ترمذی) مسند احمد میں حضرت عبداللہ ابن عباس سے یہ روایت نقل کی گئی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ میں نے اپنے رب کو دیکھا ہے ۔ طبرانی اور ابن مردویہ نے بھی حضرت ابن عباس کی اس روایت کو نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے رب کو دومرتبہ دیکھا ہے۔ ایک مرتبہ آنکھ سے اور دوسری مرتبہ دل سے۔ روایتوں کے اس اختلاف سے آپ نے ملاحظہ فرمالیا ہے کہ اللہ کو آنکھوں سے دیکھنے اور نہ دیکھنے کے بارے میں علماء محققین کی مختلف رائے ہیں۔ چونکہ سورة النجم کی آیات میں دونوں ہی احتمال اور امکان موجود ہیں اس لئے بعض حضرات اس کے قائل ہیں کہ اللہ نے نبی کریم ﷺ کو معراج پر اسی لئے بلایا تھا تاکہ اپنا دیدار کرا دیں اور دوسرے حضرات یہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی آنکھوں سے تو نہیں دیکھا البتہ اللہ نے آپ کو اپنی بارگاہ میں قریب تر بلا کر کائنات کی نشانیاں دکھائیں اور آپ کو زبردست اعزاز عطا فرمایا جو کسی اور نبی اور رسول کو حاصل نہ ہوسکا۔ معراج اور پانچ وقت کی نمازیں سفر معراج سے پہلے آپ ﷺ اور صحابہ کرام سنت ابراہیمی کے مطابق صبح کی دو رکعتیں اور عصر کی دو رکعتیں ادا فرماتے تھے۔ مکہ مکرمہ میں زیادہ تر نمازیں دار ارقم میں اد ا کی جاتی تھیں کیونکہ کفار مکہ اس بات کو برداشت نہیں کرتے تھے کہ اللہ کے گھر میں ان کی مرضی کے بغیر اللہ کا نام لیا جائے چناچہ مسلمان چھپ چھپ کر نمازوں کو ادا کرتے تھے۔ جب حضرت عمر ابن خطاب ایمان لے ائٓے تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ جب ہم حق پر ہیں تو بیت اللہ میں جا کر نمازیں کیوں ادا نہ کریں ؟ نبی کریم ﷺ کی اجازت کے بعد حضرت عمر اور صحابہ کرام نے بیت اللہ میں جا کر کھل کھلا نماز ادا فرمائی۔ معراج النبی ﷺ کے موقع پر جب پانچ قوت کی نمازیں فرض کردی گئیں اور حضرت جبرائیل امین نے اللہ کے حکم سے نمازوں کے اوقات اور اس کی ترتیب تعلیم فرما دی تب پانچ وقت کی باقاعدہ نمازوں کا آغاز ہوگیا۔ اس بات پر بخاری و مسلم کی روایات ایک جیسی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سفر معراج کے موقع پر نبی کریم ﷺ کو آپ کی امت کیلئے پچاس نمازوں کا تحفہ عطا فرمایا تھا جس پر نبی کریم ﷺ بہت مطمئن اور خوش تھے جب آپ واپس تشریف لا رہے تھے اور حضرت موسیٰ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول آپ اللہ تعالیٰ سے یہ درخواست کیجیے کہ پچسا نازوں میں تخفیف فرما دیں کیونکہ مجھے اپنی امت کا تلخ تجربہ ہے جس پر دو وقت کی نمازیں فرض تھیں جنہیں وہ ادا نہ کرسکے۔ آپ ﷺ نے اللہ کی بارگاہ میں تخفیف کی درخواست کی جسے قبول کرتے ہوئے دس یا پانچ نمازیں کم کردی گئیں حضرت موسیٰ نے کہا اس میں بھی کمی کی درخواست کیجیے۔ آپ نے اللہ سے درخواست کی اور یہ سلسلہ اس وقت تک رہا جب تک پہنچا اس نمازوں کی تعداد گھٹ کر پانچ رہ گئی۔ اللہ تعالیٰ آپ نے اللہ سے درخواست کی اور یہ سلسلہ اس وقت تک رہا جب تک پچاس نمازوں کی تعداد گھٹ کر پانچ ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی ﷺ اگرچہ آپ کی درخواست پر ہم نے پچاس نمازوں کو پانچ نمازوں تک محدود کردیا ہے لیکن جو شخص بھی دن بھر میں پانچ فرض نمازیں ادا کرے گا کو پچاس نمازوں کا ثوابت عطا کیا جائے گا۔ حضرت موسیٰ کے مشورے پر نبی کریم ﷺ کا بار بار اللہ کی بارگاہ میں درخواست کرنا اور ہر مرتبہ نمازوں کی تعداد کو کم کرنا اس سے یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے اسی سے جب بھی درخواست کی جاتی ہے تو وہ سنتا ہے اور بندوں کے خواہشات کو پورا کرتا ہے بندے کی خواہشات کو پورا کرتا ہے بندے کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا دوسرے یہ کہ اس میں نبی کریم ﷺ کا اعزازو اکرام بھی ہے کیونکہ نبی ﷺ اپنی امت پر کس قدر مہربان ہیں کہ امت کی آسانیوں کے لئے بار بار میں درخواست پیش فرما رہے اور اللہ تعالیٰ بھی اکرم ﷺ کی امت پر کس قدر مہربان و کریم ہے کہ پچاس نمازوں کو پانچ کردینے کے باوجود پچاس نازوں کے برابر دینے کے برابر ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ اپنی امت پر کس قدر مہربان ہیں کہ امت کی آسانیوں کے لئے بار بار اللہ کی بارگاہ میں درخواست پیش فرما رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی حضور اکرم ﷺ کی امت پر کسی قدر مہربان و کریم ہے کہ پچاس نمازوں کو پانچ کردینے کے باوجود ثواب پچاس نمازوں کے برابر دینے ہی کا وعدہ فرما رہے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کو اور آپ کی امت کو معراج کا یہ تحفہ عطا فرمایا گیا اسی لئے گویا نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ میری معراج تو یہ ہے کہ میں بارگاہ الٰہی تک گیا لیکن مومنوں کی معراج اور سربلندی نمازوں میں رکھ دی گئی ہے۔ جو شخص بھی نمازیں ادا کرتا ہے روہ معراج کی ذلتوں اور کیفیتوں کو محسوس کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نمازوں کے حقوق اور پابندی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ نبی کریم ﷺ کی مکہ واپسی جب اللہ تعالیٰ نے اپنی نشانیاں دکھا دیں تو آپ نماز جیسی عظیم عبادت کا تحفہ اور سورة بقرہ کی آخری آیات کا عطیہ لے کر اسی رات مکہ مکرمہ واپس تشریف لے آئے ۔ آپ نے صبح کو یہ واقعہ سب سے پہلے اپنی چاچا زاد بہن حضرت ام ہانی کو سنایا جو حرم کعبہ کے نزدیک ہی رہتی تھیں۔ جب آپ نے یہ فرمایا کہ میں اس واقعہ کو کفار مکہ کے سامنے بیان کرنے جا رہا ہوں تو حضرت ام ہانی نے آپ کی چادر مبارک کو تھام کر کہا کہ اللہ واسطے آپ اس قصہ کو نہ سنائیے ورنہ کفار مکہ آپ کا مذاق اڑایائیں گے اور آپ کو ستائیں گے۔ مگر آپ نے فرمایا میں اس واقعہ کو ضرور بیان کروں ا (طبرانی ابو اعلی) نبی کریم ﷺ حضرت ام ہانی کے گھر سے سیدھے حرم کعبہ پہنچے۔ یہاں سب سے پہلے جس سے ملاقات ہوئی اوہ ابوجہل تھا۔ ابوجہل نے طنز کے طور پر پوچھا کہئے آج کونسی بات بیان کرنے تشریف لائے ہیں آپ نے فرمایا کہ آج رات میں مسجد الاضیٰ (بیت المقدس) یا اور واپس آگیا آپ نے مزید تفصیلات بتائیں ابوجہل کو تو جیسے مذاق اڑانے کا موقع مل گیا۔ کہنے لگا کہ اے محمد ﷺ ! کیا تم یہی بات سب کے سامنے بیان کرسکتے ہو) آپ نے فرمایا کیوں نہیں۔ ابوجہل نے آوازیں دے دے کر ساری قوم کو جمع کرلیا۔ آپ نے گذری ہوئی رات کے تمام واقعات کو تفصیل سے بیان کردیا لوگوں نے مذاق اڑانا شروع کیا۔ کوئی تالیاں پیٹ رہا تھا، کوئی ہنس رہا تھا کوئی سر پر ہاتھ کر ناچ رہا تھا۔ یہ بات پورے شہر میں جنگل کی آگ کی طرف پھیل گئی اور اس انہونی بات کا اتنا مذاق اڑایا گیا کہ کمزور ایمان کے بعض مسلمانوں نے اسلام سے رخ پھیرلیا۔ کفار اس پر خوش تھے کہ ان کا پروپیگنڈہ کام آگیا اور مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا ہوگیا۔ ابوجہل نے حضرت ابوابکر سے پوچھا کہ کیا عقل میں آنے والی ہوں کہ آسمان سے کیا گیا پیغام آتے ہیں۔ اور فرمایا کہ میں اس کی تصدیق کرتا ہوں (ترمذشی، ترمی ، بیھقی مسند احمذ) اس موقع پر بعض وہ لوگ بھی موجود تھے جنہوں نے بیت المقدس کو دیکھا ہوا تھا انہوں نے پوچھا کہ یہ بتائیے کہ بیت المقدس کے دروازے اور طاقیں کتنی ہیں ؟ یہ عجیب سا سوال تھا کیونکہ آپ ﷺ نے بیت المقدس کی زیارت کرتے ہوئے غور ہی نہیں کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس اور آپ کے درمیان سے پردے ہٹا دیئے۔ اب بیت المقدس آپ کے سامنے تھا۔ آپ نے کفار مکہ کے ایک ایک سوال کا جواب دیا کفار لاجواب ہوگئے اور پھر بھی انہوں نے ان حقائق کو تسلیم نہیں کیا اور وہ اپنے کفر و شرک پر جمے رہے۔ یہ واقعہ کسی خواب کا واقعہ نہ تھا کیونکہ انسان خواب میں تو اس سے بھی زیادہ حیرت ناک باتیں دیکھ لیتا ہے اور کفار مکہ مذاق نہ اڑاتے چونکہ آپ نے بیداری کی حالت میں یہ سب کچھ دیکھا تھا اس لئے کفار مکہ نے مذاق اڑانے کی کوشش کی۔ اس بحث کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ یہ واقعہ خواب میں پیش آیا۔ روحانی سفر تھا یا جسمانی و روحانی سفر تاہم اس بات پر تفصیل سے غور کرلیا جائے تو بہتر ہوگا۔ ۔ کیا واقعہ معراج خواب میں پیش آیا ؟ یہ مسئلہ کہ آپ نے یہ سفر اسراء و معراج خواب میں طے کیا یا آپ نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے جاگتے ہوئے مشاہدہ کیا اور اللہ نے آپ کو اپنے دیدار (رویت) کرایا یا نہیں، اس سلسلہ میں اکابر صحابہ و علما نے جو کچھ فرمایا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے۔ 1- اگر یہ واقعہ محض خواب یا روحانی عروج کا ہوتا تو اس پر کفار مکہ کو کوئی اعتراض نہ ہوتا کیونکہ انسان خواب میں تو بہت سی ناممکن چیزوں کو بھی دیکھ لیتا ہے۔ انسانی تصورات اور خیالات اس کو کہیں سے کہیں حیرت انگیز واقعات کی طرف لے جاتے ہیں جس کا عام زندگی میں تصور بھی ممکن نہیں ہوتا۔ خواب کی بات ہوتی تو کفار مکہ نے تو سوالات کی بوچھاڑ کرتے نہ مذاق اڑاتے اور نہ حضرت ام ہانی آپ کی چادر مبارک پکڑ کر یہ کہتیں کہ آپ اس کو بیان نہ کریں ورنہ لوگ آپ کا مذاق اڑائیں گے مگر آپ نے فرمایا کہ میں اس کو ضرور بیان کروں گا۔ 2۔ ان حضرات کی دوسری دلیل یہ ہے کہ جب آپ براق پر سوار تشریف لے جا رہے تھے تو آپ نے قریش مکہ کے تین تجارتی قافلوں کو دیکھا ۔ سلام کیا جب کفار مکہ نے جھٹلایا تو آپ نے فرمایا کہ فلاں فلاں قافلہ مکہ کی طرف آ رہا ہے اور فرمایا کہ ایک جگہ تو براق کو دیکھ کر قافلے والوں کا ایک اونٹ بھاگ گیا تھا جس کی طرف میں نے رہنمائی کی۔ کچھ دن بعد وہ قافلے والے مکہ پہنچے اور انہوں نے آپ کی ایک ایک بات کی تصدیق کی۔ علماء فرماتے ہیں کہ خواب میں ایسا کچھ نہیں ہوتا بلکہ یہ پوری جاگنے کی کیفیت کا اظہار ہے۔ 3- تیسری دلیل یہ ہے کہ جب آپ نے بیت المقدس کا ذکر کیا تو کفار مکہ نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ اچھا یہ بتایئے بیت المقدس کیا ہے ؟ اس کی تفصیل کیا ہے ؟ آپ نے ایک ایک تفصیل بتائی یہ بات بھی اس کی دلیل ہے کہ یہ واقعہ محض خواب کا واقعہ نہ تھا۔ 4۔ چوتھی دلیل یہ ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق سے کفار مکہ نے یہ کہا کہ اے ابوبکر کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص ایک ہی رات میں ساتوں آسمان کی سیر کرلے اور اسی رات واپس آجائے ؟ تو حضرت ابوبکر نے اس کی تصدیق فرمائی اور آپ کو اسی بنا پر صدیق کا لقب عطا فرمایا گیا۔ اس سلسلہ میں آخری بات یہ ہے کہ اس دور میں ممکن ہے کہ بعض ایسے سوالات پیدا ہوئے ہوں مگر موجودہ دور میں سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ یہ بات کسی طرح تعجب کی نہیں ہے کیونکہ اب تو چند گھنٹوں میں اتنا طویل سفر کرنا آسان ہے اور نجانے آئندہ اور کیسی کیسی سہولتیں لوگوں کو نصیب ہوں گی۔ خلاصہ یہ ہے کہ اکثر علماء و تحقیق کی روشنی میں یہ فرماتے ہیں کہ اسراء اور معراج کا یہ واقعہ خواب یار وحانی عروج کا قصہ نہیں تھا بلکہ پوری طرح حالت بیداری میں پیش آیا ہے۔ سفر معراج کی ضرورت و اہمیت سفر معراج اس وقت پیش آیا جب آپ کو اسلام کی تعلیمات کو پھیلاتے ہوئے بارہ سال گذر چکے تھے۔ طائف کا تکلیف دہ سفر، تین سال تک بائیکاٹ کی وجہ سے فقر و فاقہ، محبت کرنے والی بیوی اور ہر موقع پر سرپرستی کرنے والے چچا کا سایہ اٹھ چکا تھا۔ صحابہ کرام مکہ چھوڑنے پر مجبور ہوچکے تھے۔ کفار نے ظلم و ستم کی انتہا کردی تھی۔ ان مایوس کن حالات میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو آپ کا وہ مقام رفیع دکھایا جو اس سے پہلے کسی کو نصیب نہ ہوا تھا۔ دوسری طرف کفار کی صفوں سے نکل نکل کر سعادت مند لوگ دامن مصطفیٰ ﷺ میں پناہ لے رہے تھے کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جس کے دو چار آدمی دین اسلام میں داخل نہ ہوچکے ہوں۔ مدینہ منورہ میں اوس اور خزرج کے طاقت ور قبیلوں کے بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا تھا اور جنہوں نے ابھی تک اسلام قبول نہ کیا تھا وہ اسلام کی آفاقی اور اخلاقی تعلیم سے پوری طرح متاثر ہوچکے تھے اب یہ وقت تھا کہ ساری دنیا کو بتا دیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے باقاعدہ بنی اسرائیل کو منصب امامت سے معزول کردیا ہے اور امت محمدیہ ﷺ کو درجہ امامت و فضیلت پر فائز کردیا گیا ہے۔ اب دین اسلام کی تکمیل کا وقت قریب ہے اور جس دین کو مٹانے کے لئے کفار مکہ سر توڑ کوششیں کرچکے تھے اب ایک حقیقت بن چکا ہے۔ اب یہ پودا کمزور نہیں رہا جس کو آسانی سے زمین سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے بلکہ وہ ایک مضبوط اور تناور درخت بن چکا تھا جس کی جڑ اگر زمین پر تھی تو اس کی شاخیں سدرۃ المنتھی سے بھی آگے تک پھیل چکی تھیں۔
Top