Baseerat-e-Quran - Al-Israa : 18
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ١ۚ یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا
مَنْ : جو کوئی كَانَ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْعَاجِلَةَ : جلدی عَجَّلْنَا : ہم جلد دیدیں گے لَهٗ فِيْهَا : اس کو اس (دنیا) میں مَا نَشَآءُ : جتنا ہم چاہیں لِمَنْ : جس کو نُّرِيْدُ : ہم چاہیں ثُمَّ : پھر جَعَلْنَا : ہم نے بنادیا لَهٗ : اس کے لیے جَهَنَّمَ : جہنم يَصْلٰىهَا : وہ داخل ہوگا اس میں مَذْمُوْمًا : مذمت کیا ہوا مَّدْحُوْرًا : دور کیا ہوا (دھکیلا ہوا)
جو کوئی جلدی ملنے والی چیز (دنیا کا عیش و آرا) مانگے گا تو ہم اس کو جتنا دینا چاہیں گے دے دیں گے۔ پھر ہم نے ایسی جہنم تیار کر رکھی ہے جس میں وہ ملازمت زدہ اور رحمت سے محروم کر کے ڈالا جائے گا
لغات القرآن آیت نمبر 18 تا 22 العاجلۃ جلد ملنے والی، (دنیا کا عیش و آرام) ۔ یصلی وہ ڈالے گا، داخل کریگا۔ مذموم ملامت زدہ، بےحال۔ مدحور رحمت سے دور ، دھوکا دیا گیا ہے۔ مشکور مقبول ، کامیابی ۔ نمد ہم دیتے ہیں۔ محظور روکی گئی۔ انظر دیکھو۔ فضلنا ہم نے بڑائی دی۔ تفضیل بڑائی ، فضیلت ، تقعد تو بیٹھے گا۔ مخذول بےکس، ذلیل ۔ تشریح آیت نمبر 18 تا 22 اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہر چیز انسان کے لئے بنائی ہے جس سے وہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس نے سورج کی چمک چاند کی ٹھنڈک ہوائیں، فضائیں، شجر و حجر ہر چیز کو انسانی ضرورت کے لئے بنایا ہے اور ہر انسان اس سے فائدہ حاصل کرتا ہے خواہ وہ اللہ کا فرماں بردار وہ یا نافرمان۔ ان شخص جتنی محنت کرتا ہے اسی قدر بہتر نتائج حاصل کرتا چلا جاتا ہے لیکن کامیاب کون ہے اور ناکام کون ہے ؟ انسان اس کا فیصلہ نہیں کرسکتا۔ بعض لوگ وہ ہوتے ہیں جو وقتی فائدوں اور عیش و آرام کی طلب میں ساری زندگی محنت کرتے ہیں اور ہر چیز کے بہتر نتائج حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاخیر کو پسند نہیں کرتے بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ جو کچھ حاصل کرنا ہے و جلد از جلد مل جائے ایسے لوگ پرہیز گاری، نیکی اور آخرت کی بھی پروا نہیں کرتے ان کے پیش نظر بس دولت مند بننے کا خواب ہوتا ہے جسے وہ زندگی بھر پورا کرنے کی جدوجہد میں لگے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کو ہم بہت کچھ اسی دنیا میں دے دیتے ہیں لیکن وہ آخرت کی ابدی راحتوں سے محروم رہیں گے اور دنیا میں سب کچھ حاصل کرنے کے باوجود وہ آخرت میں خالی ہاتھ ہوں گے۔ دنیا کی محبت میں ڈوب جانے والوں کو مرنے کے بعد آخرت کے دھکوں، ذلتوں اور بد حالیوں کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہ آئے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ دنیا استعمال کے لئے ہے محبت اور دل لگانے کے لئے نہیں ہے۔ جن لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہمیں آخرت ملے یا نہ ملے جو کچھ حاصل کرنا ہے وہ جلد از جلد اسی دنیا میں مل جائے تو ایسے لوگوں کی آخرت کی ذلت و رسوائی کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوگا اور ان کو آخرت میں جہنم کا ایندھن بننا پڑے گا۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جو ایمان اور عمل صالح کے ساتھ آخرت کی زندگی اور بہتر انجام کو حاصل کرنا چاہتے ہیں اور وہ اسی جدوجہد اور کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ ہماری آخرت درست ہوجائے خواہ دنیا میں کسی طرح کی تنگی اور پریشانی برداشت کرنا پڑے تو فرمایا کہ اللہ نے ان سے جو بھی وعدے کئے ہیں وہ ان کو پورا کر کے رہے گا۔ ایسے لوگوں کی ہر کوشش کو قبول کیا جائے گا اور آخرت میں راحت و آرام، سکون ، سکون و اطمینان سے بھرپور زندگی عطا کی جائے گی نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! اللہ تعالیٰ جب کسی کو کچھ دینا چاہتا ہے تو پھر ایسا کوئی نہیں ہے جو اس کی عطا و بخشش کو روک سکے۔ اسی حقیقت کو واضح کرنے کے لئے فرمایا کہ یہ سامنے کی بات ہے کہ اس دنیا میں بعض لوگ خوب جدوجہد کرتے ہیں۔ حالات بھی ان کا ساتھ دیتے ہیں اور وہ ڈھیروں دولت کما کر خوش حال بھی ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ وہ بھی ہوتے ہیں جو اپنی محنت میں تو کمی نہیں کرتے لیکن ساری زندگی بڑے نپے تلے انداز سے زندگی گذارتے ہیں اور انہیں خوش حالی نصیب نہیں ہوتی۔ ایک خوش حال اور دوسرا بدحال کہلاتا ہے۔ حالانکہ محنت دونوں کرتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ زندگی کی راہوں میں محنت دونوں کرتے ہیں لیکن ضروری نہیں ہے کہ جتنا ایک شخص کو ملا ہے اتنا ہی دوسرے کو مل جائے۔ فرمایا کہ آخرت کا معاملہ اس کے بالکل برخلاف ہے۔ اگر کوئی آخرت کے لئے تھوڑی سی محنت بھی کرے گا تو اس کو آخرت میں بہترین بدلہ اور حسن انجام ضرور ملے گا اور اس عطا و بخشش کو اس سے روکنے والا کوئی نہ ہوگا ۔ وہ اللہ اس کو جتنا دینا چاہے دے گا اور اس کو سکون و اطمینان کی دولت سے مالا مال فرما دے گا لیکن دنیا اور اس کی دولت کمانے والوں کے لئے ضروری نہیں ہے کہ اس دنیا میں ان کو اطمینان و سکون نصیب ہوجائے اور اگر وہ ناکام ہوگئے تو آخرت کی ناکامی تو ان کے ہر سکون کو چھین لے گی اور ایسے لوگوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم کا ایندھن بننا پڑے گا۔ فرمایا کہ اہل جنت کے مختلف درجات ہوں گے لیکن ایک چیز سب کو نصیب ہوگی اور وہ ہے دل کا سکون اور اطمینان کی دولت۔ فرمایا کہ اے لوگو ! تم اپنے وقتی فائدوں کے لئے اپنی آخرت کی ابدی زندگی کو داؤ پر نہ لگاؤ۔ وہ اللہ ایک ہے اس کی وحدانیت کا اقرار اور عمل صالح انسان کو ابدی راحتوں سے ہمکنار کرنے والا ہے ۔ یہ دنیا کی دولت اور عیش و آرام محض ایک وقتی دھوکہ ثابت ہوں گے۔ اللہ کو ایک مان کر اسی کی عبادت و بندگی کرنے والے آخرت کا عیش و آرام ضرور حاصل کرلیں گے۔
Top