Baseerat-e-Quran - Al-Israa : 4
وَ قَضَیْنَاۤ اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ فِی الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَ لَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِیْرًا
وَقَضَيْنَآ : اور صاف کہ دیا ہم نے اِلٰى : طرف۔ کو بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل فِي الْكِتٰبِ : کتاب لَتُفْسِدُنَّ : البتہ تم فساد کروگے ضرور فِي : میں الْاَرْضِ : زمین مَرَّتَيْنِ : دو مرتبہ وَلَتَعْلُنَّ : اور تم ضرور زور پکڑوگے عُلُوًّا كَبِيْرًا : بڑا زور
ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں (صاف طور پر) بتا دیا تھا کہ تم زمین میں دو مرتبہ فساد کرو گے اور البتہ تم ضرور زبردست سرکشی کرو گے
لغات القرآن آیت نمبر 4 تا 10 قضینا صاف صاف بتا دیا۔ مرتین دو مرتبہ تعلن تم ضرور ظلم / تکبر/سرکشی کرو گے۔ اولیٰ پہلا۔ بعثنا ہم نے بھیجا۔ اولی باس لڑنے والے۔ جاسوا وہ گھس گئے۔ وہ پھیل گئے۔ الدیار (دیر) گھر، آبادیاں، شہر۔ مفعولاً کیا جانے اولا۔ رددنا ہم نے لوٹایا۔ کرۃ بار بار۔ نفیر لوگ۔ مددگار۔ احسنتم تم نے اچھا کیا۔ اساتم تم نے برا کیا۔ لیسوء تاکہ وہ بگاڑ دیں۔ لیتبروا تاکہ وہ تباہ کردیں گے۔ عدتم تم پلٹے۔ حصیر گھیر لے، روک لے، قید خانہ۔ یھدی رہنمائی کرتا ہے، ہدایت دیتا ہے۔ اقوم بالکل سیدھا، سب سے بہتر ۔ تشریح :- آیت نمبر 4 تا 10 تاریخ کے دھارے، دنیا کے حالات، رنگ ڈھنگ اور طرز فکر و عمل بدلتے رہتے ہیں لیکن تاریخی سچائیاں کبھی تبدیل نہیں ہوتیں۔ سورة بنی اسرائیل کی ان چند آیات میں قوم بنی اسرائیل کی ایک ہزار سالہ تاریخ کو نہایت جامع انداز میں بیان کر کے اہل ایمان کو بتایا گیا ہے کہ جب بھی کسی قوم کو دین و دنیا کی بھلائیاں اور کامیابیاں نصیب ہوئیں ان کے پس پردہ اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی تعلیمات اور انبیاء کرام کی شریعت کو ماننے کا عظیم جذبہ کار فرما رہا ہے۔ اسی سے ان کو ایک نئی زندگی ملی ہے۔ اس کے برخلاف جس قوم نے بھی اللہ کی تعلیمات سے روگردانی اور انبیاء کرام کی شریعت سے منہ موڑا ہے دین و دنیا کی بدنصیبیاں ان کا مقدر بن گئی ہیں۔ یہ اللہ کی ایک ایسی سنت اور طریقہ ہے جس میں کبھی تبدیلی نہیں آتی۔ جب حضرت موسیٰ کو قوم بنی اسرائیل کی ہدایت و رہنمائی کے لئے مبعوث فرمایا گیا اس وقت بنی اسرائیل کو فرعون اور اس کی قوم نے ذلتوں کے اس مقام تک پہنچا دیا تھا جہاں انسانیت بھی شرما جاتی ہے، دنیا پرستی اور اللہ کی مسلسل نافرمانیوں کی وجہ سے اس قوم کی یہ حالت ہوچکی تھی کہ ان کو دو وقت کی روٹی حاصل کرنے کے لئے ذلیل سے ذلیل کام کرنے پڑتے تھے۔ ملک کی اکثریت ہونے کے باوجود ان میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ فرعون کے ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑے ہوجاتے۔ اگر ان کے لخت جگر بیٹوں کو ان کی ماؤں کی گود سے چھین کر ذبح کردیا جاتا تو ان کو اف تک کرنے کی اجازت نہ تھی۔ وہ اللہ جو اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے اس نے بنی اسرائیل کی اس مظلومیت کو دیکھتے ہوئے ان ہی میں سے حضرت موسیٰ کو بھیجا۔ انہوں نے بنی اسرائیل کی اصلاح کا کام شروع کردیا۔ حضرت موسیٰ کی قیادت و رہنمائی میں اس قوم کو ایک نئی زندگی مل گئی اور ان میں اس بات کا شعور پیدا ہونا شروع ہوگیا کہ ہماری تباہی و بربادی کا اصل سبب اللہ کے دین اور اپنے مرکز سے دوری ہے۔ چناچہ حضرت موسیٰ پوری قوم بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر فلسطین کی طرف روانہ ہوگئے۔ فرعون نے ان کا پیچھا کیا مگر اللہ نے فرعون، اس کے لشکر اور حکومت و سلطنت کو سمندر میں ڈبو دیا اور اس طرح اس قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے نجات مل گئی۔ صحرائے سینا میں اللہ نے اس قوم پر بڑے بڑے انعامات کئے۔ سب سے بڑا انعام یہ تھا کہ ان کی رہبری و رہنمائی کے لئے تو ریت جیسی کتاب عطا کی گئی لیکن اس قوم کا جو مزاج بن چکا تھا اس نے ان کو پھر سے نافرمانیوں پر آمادہ کردیا اور ایک دفعہ پھر وہ چالیس سال کے لئے میدان تیہ میں بھٹکا دیئے گئے۔ اس عذاب سے نکلنے کا راستہ ان سے اس طرح گم ہوگیا کہ صبح کو چلتے چلتے جب رات ہوجاتی تو وہ سمجھتے کہ ہم نے راستہ معلوم کرلیا ہے لیکن اگلے دن وہ وہیں پر ہوتے جہاں سے وہ چلے تھے۔ ان سب نافرمانیوں کے باوجود اللہ نے ان کو اس لق و دق صحرا میں کھانے، پینے اور سائے سے محروم نہیں فرمایا بلکہ حضرت موسیٰ کی دعا سے کھانے کے لئے من وسلویٰ ، پینے کیلئے بارہ چشمے سائے کے لئے بادل عطا کئے۔ اسی کشمکش میں یہ قوم فلسطین کی طرف بڑھتی رہی۔ حضرت ہارون کا اسی راستے میں وصال ہوگیا۔ پھر ایرجا کے مقام پر حضرت موسیٰ بھی اپنے مالک حقیقی سے جا ملے اور حضرت شمعون قوم بنی اسرائیل کو لے کر فلسطین میں داخل ہوگئے۔ حضرت شمعون جو حضرت موسیٰ کے بعد اس قوم کی رہنمائی کے لئے مقام نبوت پر فائز ہوئے انہوں نے اس قوم کو بہت سمجھایا مگر انہوں نے نہ صرف ان کی نبوت کا انکار کردیا بلکہ ایک دوسرے کی ضد میں بارہ قبیلوں نے بارہ سلطنتیں قائم کرلیں ان پر دنیا داری اور قوم پرستی کا اس قدر غلبہ ہوگیا تھا کہ وہ کتاب الٰہی کو بھول گئے۔ اس انتشار کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ کفار و مشرکین جو ان علاقوں میں رہتے بستے تھے انہوں نے آہستہ آہستہ ان کی منتشر حکومتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی سرحدوں پر حملے شروع کردیئے اور بد اخلاقیوں کو رواج دینا شروع کردیا چناچہ ان کا شیرازہ بکھرنا شروع ہوگیا۔ ان سلطنتوں کی حیثیت بارہ قبیلوں جیسی ہوگئی جو ایک دوسرے سے الجھتے رہتے تھے۔ ایک پٹتا تو دوسرا دور کھڑے ہو کر صرف تماشا دیکھتا تھا۔ کفار و مشرکین نے ایک ایسا متحدہ پلیٹ فارم بنا لیا تھا کہ بنی اسرائیل کی کوئی ریاست ان کے شر سے محفوظ نہ رہی۔ سرحدی جھڑپوں کے بعد آہستہ آہستہ ان کی ایک ایک ریاست کو کفار و مشرکین نے ہڑپ کرنا شروع کردیا یہاں تک کہ جالوت جیسے ظالم بادشاہ نے اس قوم بنی اسرائیل سے صندوق سکینہ تک چھین لیا جس میں توریت کی تختیاں اور حضرت موسیٰ کا عصا جیسے تبرکات تھے۔ جب ان پر ہر طرف سے حملے کر کے ان کی کمزور ریاستوں کو تباہ و برباد کردیا گیا تب اس قوم کو ہوش آیا اور انہوں نے جالوت کے جبر و ظلم اور ظاقت کا مقابلہ کرنے کے لئے وقت کے نبی سے درخواست کی کہ ہمارے لئے کوئی بادشاہ مقرر کردیجیے تاکہ ہم اس کے ساتھ مل کر جالوت کا مقابلہ کرسکیں۔ اللہ نے حضرت طالوت کو جو بن یا مین کے قبیلے سے تھے اس قوم کا سربراہ مقرر فرمایا۔ اتنی تباہی و بربادی کے باوجود بھی بنی اسرائیل نے حضرت طالوت کی قیادت سے صاف انکار کردیا اور کہنے لگے کہ یہ ایک بہت چھوٹے سے خاندان کا ایک غریب آدمی ہے یہ ہمارے اوپر حکمرانی کیسے کرسکتا ہے ؟ لیکن اللہ نے ان پر ثابت کردیا کہ اب اس قوم کی نجات اسی میں ہے کہ حضرت طالوت کی قیادت کو تسلیم کیا جائے چناچہ حضرت طالوت معمولی سے لشکر کے ساتھ آگے بڑھے۔ اللہ نے ان کی غیب سے مدد فرمائی صندوق سکینہ بھی واپس مل گیا۔ جالوت کو قتل کردیا گیا اور اس کے لشکر کو شکست ہوئی اور اہل ایمان کا دوبارہ غلبہ ہوگیا۔ اس جہاد کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کی عظیم سلطنتیں ایک سو سال تک قائم رہیں جن میں صرف انسان ہی نہیں بلکہ جنات، چرند، پرند پر حکومت الٰہی قائم ہوگئی۔ حضرت سلیمان کو جانوروں تک کی بولیاں سکھا دی گئیں تاکہ اگر ایک چیونٹی بھی فریاد کرنے والی ہو تو وہ سن کر اس کی فریاد کو پہنچ سکیں۔ حضرت سلیمان کے وصال کے بعد بنی اسرائیل پر ایک دفعہ پھر دنیا پرستی کا غلبہ ہوگیا اور باہمی انتشار اور اختلافات کی وجہ سے ایک اسلامی ریاست دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی۔ شمالی فلسطین اور شرق اردن پر سلطنت اسرائیل قائم ہوگئی اور یروشلم میں سلطنت یہودیہ قائم ہوگئی۔ سلطنت اسرائیل میں مشرکانہ تہذیب و عقائد کو سا قدر زیادہ فروغ حاصل ہوچکا تھا کہ وہ اپنی عیش پرستیوں اور بدمستیوں میں پوری طرح ڈوب گئے کہ ان کے بازوؤں میں دشمن کا مقابلہ کرنے کی سکت و قوت ختم ہو کر رہ گئی۔ اشوریوں نے سلطنت اسرائیل پر مسلسل حملے کر کے اس سلطنت کا خاتمہ کردیا۔ بنی اسرائیل کے خون سے ارض فلسطین رنگین ہوگئی۔ تیس ہزار بنی اسرائیل کے با اثر لوگوں کو ملک بدر کردیا گیا۔ ان کی عبادت گاہوں کو تباہ و برباد کر کے کھ دیا گیا اور اس طرح سلطنت اسرائیل اشوریوں کی غلام بن کر رہ گئی۔ بنی اسرائیل کی دوسری سلطنت جو انبیاء کی تعلیمات کی وجہ سے ابھی اس قدر عیاشیوں اور بدکرداریوں میں مبتلا نہیں ہوئی تھی لیکن کفر و شرک کی وجہ سے وہ بھی انتہائی کمزور ہوچکے تھے مگر انبیاء کرام کی تعلیمات کی وجہ سے ان کے بازوؤں میں دشمن کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ باقی تھا۔ وہ خوب لڑے مگر وہ بھی اشوریوں کے باج گذار بن کر رہنے پر مجبور ہوگئے۔ مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے تقریباً چھ سو سال پہلے بخت نصر نے اپنی پوری قوت و طاقت سے سلطنت یہودیہ پر قبضہ کرلیا۔ ان کے بادشاہ کو گرفتار کر کے جیل خانہ میں ڈال دیا گیا۔ ان کے شہروں کو تباہ و برباد کردیا گیا اور ہیکل سلیمانی کی اینٹ سے این بجا کر رکھ دی گئی یہاں تک کہ اس کی دیواریں بھی سلامت نہ رہیں۔ لاکھوں یہودیوں کو ملک سے نکال دیا گیا ۔ جو لوگ اس سلطنت میں رہ گئے تھے ان کو اس قدر ذلیل و خوار کردیا گیا کہا نہیں اپنے وجود پر شرم آنے لگی۔ اگر یہ لوگ انبیاء کرام کی اطاعت کرتے جو قدم قدم پر ان کو سمجھاتے رہے، برے انجام سے ڈراتے رہے تو انہیں اس بدترین تباہی سے واسطہ نہ پڑتا مگر اللہ اور اس کے رسولوں کی تعلیمات سے منہ موڑنے والی قوم کا انجام ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے پہلے تک یہ وہ فساد عظیم تھا جس کا قرآن کریم نے ان آیات میں تذکرہ فرمایا ہے۔ دوسرا فساد اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی، انکساری اور توبہ استغفار سب سے بڑی سعادت اور نیکی ہے۔ چناچہ یہودیوں کی وہ حکومت جو سلطنت یہودیہ کے نام سے مشہور ہے اس میں انبیاء کرام کی تعلیمات کی وجہ سے اتنی جان موجود تھی کہ وہ کفار و مشرکین کے عقائد اور غلط نظریات کا مقابلہ کرسکے۔ ان کی اس جدوجہد اور توبہ استغفار کا نتیجہ یہ نکلا کہ ” بابل کی سلطنت “ زوال پیذر ہونا شروع ہوگئی اور ایران کے سائرس نے بابل کی سلطنت کو شکست دے کر فتح کرلیا۔ ایرانی فاتح کی اجازت سے ایک مرتبہ پھر بنی اسرائیل کو وطن آنے کی اجازت مل گئی اور یہودیوں کے قافلے بڑی تیزی سے فلسطین آنا شروع ہوگئے۔ ہیکل سلیمان کو دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت کے ساتھ ہی اس علاقے کو ایک نئی زندگی مل گئی۔ جب سلطنت یہودیہ کے آخری بادشاہ کے پوتے کو بابل کا گورنر مقرر کیا گیا تو اس نے اس وقت کے موجود انبیاء اور علماء کو اپنے ارگرد جمع کرلیا اور ان کی نگرانی میں ہیکل سلیمان کی تعمیر کا آغاز ہوگیا۔ بعد میں حضرت عزیز کو شاہ ایران نے ایک خصوصی فرمان کے ذریعہ حکومت کا نگران مقرر کردیا۔ حضرت عزیز نے اس قدر تیزی کے ساتھ اصلاحات کا آغاز کیا کہ قوم بنی اسرائیل ایک دفعہ پھر خواب غفلت سے بیدار ہو بیٹھی۔ حضرت عزیز نے بائبل کی ترتیب، عوام کے لئے تعلیم کا انتظام، قوانین شریعت کا نفاذ اور اخلاق و اعتقاد کی اصلاح کے لئے انقلابی اقدامات کئے۔ حضرت عذیر کے بعد بھی ہیکل سلیمانی (بیت المقدس) کی آباد کاری کا کام جاری رہا اس طرح بنی اسرائیل کو ابھر کر کام کرنے کا موقع مل گیا لیکن ایرانی سلطنت کے زوال، سکندر اعظم کی فتوحات اور پھر یونانیوں کے عروج نے اس پوری قوم کو کئی حصوں میں تقسیم کردیا۔ یونانیوں کی حکومت نے بنی اسرائیل کے اخلاق کو اتنی تیزی سے بگاڑنا شروع کردیا کہ حکومت کی کوشش سے ہر بد اخلاقی اور بد کرداری کو قوت سے رواج دینا شروع کردیا۔ بنی اسرائیل پر اور مذہبی طبقہ پر ظلم و جبر کا ایک نیا باب کھل گیا۔ بنی اسرائیل کی بےدینی اور کھیل کود میں لگ جانے کی وجہ سے کافر کو اس حد تک ہمت پیدا ہوگئی کہ حکومت وقت نے بیت المقدس میں بت رکھوا کر ان کی عبادت کرنے کو لازمی قرار دیدیا۔ اس مذہبی ظلم و ستم نے یہودیوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ بنی اسرائیل نے متحد ہو کر حالات کا مقابلہ اس تحریک کے نتیجے میں انہوں نے کفار و مشریکن کی صفوں کو ابلٹ کر رکھ دیا۔ لیکن کچھ زیادہ عرصہ نہ گذرا تھا کہ بنی اسرائیل پر ایک مرتبہ پھر دنیا کی دولت عیش و آرام اور بدکرداریوں نے غلبہ حاصل کرلیا اور اس طرح رومی فاتح نے یہودیوں کی سلطنت پر قبضہ کرلیا ۔ اس کے بعد یہودیوں کی بدقسمتی کا دور شروع ہوا۔ ان کی سلطنت لٹ گئی لاکھوں یہودیوں کو یا تو قتل کردیا گیا یا ان کو وطن سے بےوطن کر کے در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کردیا گیا۔ یہ ہے وہ دوسرا فساد عظیم جس نے یہودیوں کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان واقعات کی طرف اشارہ کر کے یہ بتا دیا ہے کہ اب ان یہودیوں کی سربلندی اسی میں ہے کہ وہ حضرت محمد ﷺ کے لائے ہوئے دین پر چلنے کی مخلصانہ جدوجہد کریں اسی سے ان کو ایک نئی زندگی مل سکتی ہے۔
Top