Baseerat-e-Quran - Al-Israa : 66
رَبُّكُمُ الَّذِیْ یُزْجِیْ لَكُمُ الْفُلْكَ فِی الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا
رَبُّكُمُ : تمہارا رب الَّذِيْ : وہ جو کہ يُزْجِيْ : چلاتا ہے لَكُمُ : تمہارے لیے الْفُلْكَ : کشتی فِي الْبَحْرِ : دریا میں لِتَبْتَغُوْا : تاکہ تم تلاش کرو مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اس کا فضل اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے بِكُمْ : تم پر رَحِيْمًا : نہایت مہربان
تمہارا رب وہ ہے جو تمہارے لئے سمندر میں کشتی (جہاز) چلاتا ہے تاکہ تم اس کا فضل (رزق) تلاش کرو۔ بیشک وہ تمہارے اوپر نہایت مہربان ہے
لغات القرآن آیت 66 تا 69 یزجی وہ چلاتا ہے۔ الضر مصیبت، نقصان۔ افامنتم کیا پھر تم مطمئن ہوگئے ؟ ۔ یخسف وہ دھنسا دیتا ہے۔ حاصباً پتھر برسانے والی آندھی۔ تارۃ اخری دوبارہ۔ قاصف سخت طوفانی ہوا۔ یغرق وہ غرق کرتا ہے۔ لاتجدوا تم نہ پاؤ گے۔ تبیع پیچھا کرنے والا۔ تشریح : آیت نمبر 66 تا 69 اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا ہے ” اگر تم میرا شکر کرو گے تو میں (دی گئی نعمتوں میں) اور اضافہ کرتا چلا جاؤں گا۔ اس کے برخلاف اگر میری نعمتوں کی ناشکری کی گئی تو پھر میری گرفتا ور پکڑ بہت سخت ہے۔ واقعتاً اگر غور کیا جائے تو انسانی وجود کی ابتداء سے لے کر زندگی کے آخری سانس تک اللہ اتنی نعمتوں سے نوازتا ہے جن کو شمار کرنا مشکل ہے۔ سورة رحمن میں ان بیشمار نعمتوں کو گنوا کر اکتیس (31) مرتبہ اس آیت کو دھرایا گیا ہے کہ ” اے جن و انسان تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟ “ سورۃ الاسراء کی ان آیات میں بھی چند نعمتوں کا ذکر کر کے اللہ نے یہی سوال کیا ہے کہ ایک زبردست سمندر جس میں بڑے بڑے جہازوں کی حیثیت تنکے سے زیادہ نہیں ہوتی اس میں موافق ہوائیں چلا کر ایک کنارے سے دور سے کنارے تک ان کشتیوں اور جہازوں کو کون چلاتا ہے ؟ اگر اللہ کی طرف سے یہ سہولتیں نہ ہوتیں تو انسان سمندر کے ذریعہ سامان تجارت ادھر ادھر کیسے لے جاسکتا تھا اور وہ نفع اور فائدے کیسے حاصل کرسکتا تھا جس پر قوموں کی زندگی کا دار و مدار ہے۔ فرمایا کہ انسان اگر اس پر ذرا بھی دیانت داری سے غور کرے تو اس کا دل پکار اٹھے گا کہ یہ سب کچھ اس اللہ کا کرم ہے جس کے ہاتھ میں کائنات کی ہر قوت و طاقت ہے۔ فرمایا کہ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی سمندر کی بپھری ہوئی موجوں میں گھر جاتا ہے اور اس کو اس طوفان بلاخیز سے نجات کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا تب وہ اپنے بتوں کو بھول کر صرف اللہ ہی کو پکارتا ہے اور پھر اللہ ہی اس طوفان سے نجات عطا فرماتا ہے۔ لیکن جب وہی انسان خشکی پر آجاتا ہے تو اللہ کو بھول کر پھر ” غیر اللہ “ سے اپنی امیدیں باندھ لیتا ہے اور شرک کرنے لگتا ہے۔ فرمایا یاد رکھو خشکی ہو یا تری ، فضا ہو یا ہوا ہر جگہ اسی ایک اللہ کی حکمرانی اور طقت و قوت ہے۔ اس کے علاوہ کسی کی کوئی قوت و طاقت نہیں ہے۔ فرمایا کہ اگر اللہ چاہے تو ناشکرے انسان کو بڑی سے بڑی سزا دے سکتا ہے۔ وہ زمین کے اندر دھنسا سکتا ہے کوئی آفت بھیج سکتا ہے۔ ایسی آندھی اور تیز ہوائیں بھیج سکتا ہے جس سے کنکر اور پتھر برسنے شروع ہوجائیں۔ پانی کے طوفان، زلزلوں اور آفتوں سے انسان کے بنائے ہوئے پورے نظام کو درہم برہم کرسکتا ہے۔ اگر وہ کسی عذاب یا مصیبت کو بھیجنا چاہے تو اس کو روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ یہ تو اس اللہ کا کرم ہے کہ وہ اپنے بندوں کی ہر بات پر اسی وقت گرفت نہیں کرتا بلکہ سنبھلنے، سوچنے اور صحیح فیصلہ کرنے کا موقع دیتا چلا جاتا ہے۔ لیکن جب انسان اللہ کی نافرمانیوں اور ناشکریوں کی حد تک ردیتا ہے تب اللہ کا قہر لمحوں میں سب کچھ تباہ و برباد کردیتا ہے اور انسان کی ساری تدبیریں مٹی کا ڈھیم ثابت ہوتی ہیں۔ خلاصیہ یہ ہے کہ انسان کو اللہ نے ہزاروں نعمتوں سے نوازا ہے اس پر اسے اس اللہ کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ اگر اس نے ناشکری کی روش اختیار کی تو اللہ اس سے نعمتوں کو چھین کر اس پر طرح طرح کے عذاب بھیج سکتا ہے۔ انسان کو اس سے بےفکر نہیں ہونا چاہئے کہ وہ اللہ ایک مصیبت سے نکال کر دوسری مرتبہ اسی مصیبت میں مبتلا نہیں کرسکتا۔ وہی سمندر جس میں ایک شخص اللہ سے دعائیں مانگ کر طوفان سے بچ کر خشکی پر آجاتا ہے وہ ان کی موجوں کو اس پر چڑھا کر یا اس کو سمندر میں دوبارہ لیجا کر اس کی ناشکری کی سزا دے سکتا ہے۔ وہ اپنے فیصلوں میں دوسروں کا محتاج نہیں ہے۔ وہ جس طرح چاہتا ہے فیصلے کرتا ہے اور وہ اپنے فیصلوں کے لئے کسی کو جوابدہ بھی نہیں ہے۔
Top