Baseerat-e-Quran - Al-Kahf : 102
اَفَحَسِبَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنْ یَّتَّخِذُوْا عِبَادِیْ مِنْ دُوْنِیْۤ اَوْلِیَآءَ١ؕ اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِیْنَ نُزُلًا
اَفَحَسِبَ : کیا گمان کرتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : وہ جنہوں نے کفر کیا اَنْ يَّتَّخِذُوْا : کہ وہ بنالیں گے عِبَادِيْ : میرے بندے مِنْ دُوْنِيْٓ : میرے سوا اَوْلِيَآءَ : کارساز اِنَّآ : بیشک ہم اَعْتَدْنَا : ہم نے تیار کیا جَهَنَّمَ : جہنم لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے نُزُلًا : ضیافت
کیا ان کافروں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو اپنا کار ساز بنا لیں گے۔ بیشک ہم نے ان کافروں کی مہمان داری کے لئے جہنم کو تیار کر رکھا ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 102 تا 108 اولیاء دوست، کام بنانے والے۔ نزل مہمان داری۔ سعی کوشش، جدوجہد۔ صنع کام۔ حبطت ضائع ہوگئی۔ لانقیم ہم قائم نہ کریں گے۔ ھزو مذاق۔ الفردوس جنت ، بہشت۔ لایبغون وہ نہ چاہیں گے۔ حول تبدیل کرنا۔ تشریح :- آیت نمبر 102 تا 108 اللہ تعالیٰ نے کہف میں اصحاب کہف، حضرت موسیٰ خضر اور ذوالقرنین کے واقعات سنانے کے بعد فرمایا ہے کہ اتنا کچھ بتانے اور سنانے کے باوجود کیا اس بات کی ذرا بھی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر دوسری بےحقیقت چیزوں کو اپنا حمایتی، مددگار اور رب بنا لیا جائے۔ فرمایا کہ یہ بات بنیادی طور پر غلط سوچ کا نتیجہ ہے کہ قیامت کے ہولناک دن یہ جھوٹے معبود ان کا سہارا بن سکیں گے یا ان کے کام آسکیں گے۔ فرمایا کہ ایسا ہرگز نہ ہوگا۔ کیونکہ وہاں اللہ کی مدد اور حمایت کے بغیر کسی کا کام نہ چل سکے گا۔ طنز کے طور پر فرمایا کہ ایسے لوگوں کی مہمان نوازی بھڑکتی آگ اور جہنم کے شعلوں سے کی جائے گی۔ نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی ﷺ ان کو صاف صاف بتا دیجیے کہ جس طرح تمہارے جھوٹے معبود تمہارے کسی کام نہ آسکیں گے اسی طرح دنیاوی مال و دولت اور عیش و عشرت میں پڑے ہوئے لوگوں کے ان کی دولت اور دنیاداری کام نہ آسکے گی۔ کیونکہ یہ دنیا بڑی بےوفا ہے۔ یہ اس دنیا میں اور اس کے بعد بھی وفا نہیں کرتی۔ ادھر آنکھ بند ہوئی اور ادھر تمام چیزوں سے تعلق ہوجاتا ہے۔ لیکن جو صراط مستقیم سے بھٹکا ہوا ہوتا ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ بالکل صحیح اور درست راستے پر چل رہا ہے۔ اس کا یہ گمان ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے وہی صحیح راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا حالانکہ یہ لوگ وہ ہیں جنہوں نے اللہ کی آیات کو دیکھ کر بھی اس کا انکار کیا ہے اور وہ اس سے قطعات بیخبر ہیں کہ بہت جلد آخرت میں ان کی ملاقات اس اللہ رب العالمین سے ہوگی جو ہر بات سے بخوبی واقف ہے۔ یہ وہ بدنصیب لوگ ہیں جنہوں نے سب کچھ کر کے بھی کئے کرائے پر پانی پھیر دیا ہے۔ قیامت کے دن اس وقت ان کی حسرتوں کی انتہا ہو جائیگی جب ان کے اعمال بےوزن ہو کر رہ جائیں گے کیونکہ انہوں نے دنیا میں نہ صرف اللہ کی آیات کا مذاق اڑایا تھا بلکہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کو مذاق سمجھ رکھا تھا۔ اس کے بر خلاف وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کی روش اختیار کی ان کے لئے جنت الفردوس کی ابدی راحتیں، اللہ کی طرف سے مہمان داری اور محبت سے استقبال ، یہ ان کا سرمایہ ہوگا۔ وہ ہمیشہ جنت کی راحتوں میں رہیں گے وہ ایک ایسی عیش و عشرت ہوگی جس میں سے نہ کوئی نکلنا پسند کرے گا اور نہ اس کو نکال جائے گا۔ فرمایا کہ وہاں حالات کی یکسانیت بھی نہ ہوگی جس سے وہ اکتا جائیں بلکہ وہاں کا ہر دن ایک نئی خوشی، راحت اور آرام کا پیغام لے کر آئے گا۔
Top