Baseerat-e-Quran - Al-Kahf : 79
اَمَّا السَّفِیْنَةُ فَكَانَتْ لِمَسٰكِیْنَ یَعْمَلُوْنَ فِی الْبَحْرِ فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِیْبَهَا وَ كَانَ وَرَآءَهُمْ مَّلِكٌ یَّاْخُذُ كُلَّ سَفِیْنَةٍ غَصْبًا
اَمَّا : رہی السَّفِيْنَةُ : کشتی فَكَانَتْ : سو وہ تھی لِمَسٰكِيْنَ : غریب لوگوں کی يَعْمَلُوْنَ : وہ کام کرتے تھے فِي الْبَحْرِ : دریا میں فَاَرَدْتُّ : سو میں نے چاہا اَنْ : کہ اَعِيْبَهَا : میں اسے عیب دار کردوں وَكَانَ : اور تھا وَرَآءَهُمْ : ان کے آگے مَّلِكٌ : ایک بادشاہ يَّاْخُذُ : وہ پکڑ لیتا كُلَّ سَفِيْنَةٍ : ہر کشتی غَصْبًا : زبردستی
بہرحال وہ کشتی چند غریب لوگوں کی تھی جو دریا میں محنت مزدوری کرتے تھے۔ ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر (اچھی) کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا۔ میں نے چاہا کہ اس میں عیب ڈال دوں۔
لغات القرآن آیت نمبر 79 تا 82 السفینۃ کشتی، جہاز۔ یعملون وہ محنت مزدوری کرتے ہیں۔ اردت میں نے چاہا۔ اعیب عیب دار کر دوں۔ وراء پیچھے۔ غصب زبردستی۔ یرھق ڈھانپ لیتا ہے۔ زکوۃ پاکیزگی۔ کنز خزانہ، مال گڑا ہوا۔ امری میرا اختیار۔ تشریح : آیت نمبر 79 تا 82 یہ کائنات اور اس کا نظام کیا ہے ؟ وہ کس طرح چل رہا ہے کبھی یہ سوچتے ہوئے ذہن الجھ سا جاتا ہے کبھی ہم سوچتے ہیں کہ اگر ایسا ہوجاتا تو اچھا تھا لیکن زیادہ عرصہ نہیں گذرتا کہ ہر کام کی حقیقت سامنے آجاتی ہے اور اس کام میں جو حکمت و مصلحت پوشیدہ تھی اس کے کھلنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اچھا ہوا فلاں کام نہ ہو اور نہ اس سے مجھے بہت نقصان پہنچ جاتا۔ یہی صورتحال اس وقت پیش آئی جب حضرت موسیٰ کی موجودگی میں حضرت خضر نے بعض وہ کام کئے جن کی مصلحت اور حکمت سمجھ سے بالاتر تھی لیکن جب حضرت خضر نے وضاحت فرمائی تب پوری بات سمجھ میں آسکی۔ حضرت خضر نے بتایا کہ (1) وہ کشتی جس میں انہوں نے عیب پیدا کردیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ دریا کے دوسرے کنارے پر ایک ظالم و جابر بادشاہ کے لوگ ہر اس کشتی کو چھین رہے تھے جو بالکل نئی ہو۔ میں نے اللہ کے حکم سے اس نیک شخص کی نیکی کی وجہ سے اس کشتی میں ایسی تبدیلی کردی جس سے وہ کشتی کو چھین رہے تھے جو بالکل نئی ہو۔ میں نے اللہ کے حکم سے اس نیک شخص کی نیکی کی وجہ سے اس کشتی میں ایسی تبدیلی کردی جس سے وہ کشتی بالکل نئی معلوم نہ ہو اور دور سے عیب دار نظر آئے۔ (2) فرمایا کہ اللہ کے حکم سے میں نے جس لڑکے کو مار ڈالا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ اس بچے کے والدین بہت ہی نیک اور صالح تھے اللہ پر کامل ایمان رکھتے ہوئے اسی کی عبادت و بندگی کرتے تھے۔ ان کا یہ لڑکا فطرت اور مزاج کے اعتبار سے ایسا اٹھ رہا تھا کہ آئندہ زندگی میں وہ اپنے ماں باپ کے لئے عذاب اور مصیبت بن جاتا۔ لہٰذا اللہ کے فیصلے کے مطابق اس کا مرجانا اس کے زندہ رہنے سے بہتر تھا۔ کہتے ہیں کہ اللہ نے اس لڑکے کی جگہ ایک نیک اور پارسا لڑکی عطا فرمائی جس سے ایک نبی پیدا ہوئے اور اس طرح اللہ نے والدین کی نیکی کا یہ صلہ ان کو عطا فرمایا۔ (3) تیسرے واقعہ کی مصلحت بتاتے ہوئے فرمایا کہ بغیر کسی معاوضہ اجرت کے جس گرتی ہوئی دیوار کو درست کیا گیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ اس دیوار کے نیچے نیک والدین کی محنت سے کمایا ہوا خزانہ چھپا ہوا تھا اگر وہ دیوار گر جاتی اور خزانہ ظاہر ہوجاتا تو یتیم بچوں کے وارث اس کے مالک بن بیٹھتے اور یہ بچے محروم رہ جاتے اس لئے اللہ نے چاہا کہ دیوار اس وقت تک نہ گرے جب تک یتیم بچے اپنے شعور اور سمجھ کی عمر تک نہ پہنچ جائیں اور ان کے والدین کی جو خواہش تھی وہ پوری نہ ہوجائے۔ حضرت خضر نے حضرت موسیٰ کو اپنے کاموں کی مصلحت بتاتے ہوئے اس بات کو واضح کردیا کہ میں جو کچھ کرتا ہوں اس میں میرا اختیار اور مرضی شامل نہیں ہوتی بلکہ یہ سارے کام میں اللہ کے حکم سے کرتا ہوں۔
Top