Baseerat-e-Quran - Al-Kahf : 83
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ١ؕ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَیْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًاؕ
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنْ : سے (بابت) ذِي الْقَرْنَيْنِ : ذوالقرنین قُلْ : فرمادیں سَاَتْلُوْا : ابھی پڑھتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر۔ سامنے مِّنْهُ : اس سے۔ کا ذِكْرًا : کچھ حال
(اے نبی ﷺ وہ آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ آپ کہہ دیجیے کہ میں تمہیں ان کا حال بتاتا ہوں۔
لغات القرآن آیت نمبر 83 تا 91 یسئلون وہ سوال کرتے ہیں۔ ذوالقرنین بہت طاقتور۔ ساتلوا بہت جلد میں بتاؤں گا۔ مکنا ہم نے جمایا، اقتدار دیا تھا۔ سبب سامان۔ اتبع وہ پیچھے گیا۔ اس نے تیاری کی۔ حمئۃ دلدل، کیچڑ، سیاہ۔ یرد لوٹایا جائے گا۔ الحسنی بہترین، بھلا۔ یسر آسان۔ ستر پردہ، رکاوٹ، احطنا ہم نے گھیر لیا۔ لدیہ اس کے پاس ۔ خبر علم، خبر۔ تشریح :- آیت نمبر 83 تا 91 تاریخ انسانی کے ہر دور میں اچھے اور برے کردار کے لوگ گذرتے رہتے ہیں۔ بہترین کردار کے لوگوں کی زندگی دوسروں کے لئے مشعل راہ، نمونہ عمل اور نشان راہ ہوتی ہے۔ جب کہ برے اور بدکردار لوگ کسی عزت کے مستحق نہیں ہوتے۔ یوں تو ہر قوم اور اس کے افراد کا اپنا ایک کردار ہوتا ہے جس کو ادا کرنے کے بعد وہ اس دنیا سے گذر جاتے ہیں۔ لیکن انسان کے اچھے یا برے کردار کا صحیح اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب اس کے ہاتھ میں ہر طرح کی طاقت و قوت ہوتی ہے۔ اگر وہ اپنی طاقت و قوت، حکومت و سلطنت اور مال و دلوت کو مجبوروں بےکسوں اور مظلوموں کو تباہ و برباد کرنے پر لگاتا ہے تو اس کا شمار فرعون، نمرود، شداد اور قارون جیسے ظالموں اور فخر و غرور کے پیکروں کے ساتھ ہوتا ہے لیکن اگر وہ اپنی تمام صلاحیتوں کو مظلوموں کی ہمدردی، ان کی امداد و اعانت اور فریاد رسی پر صرف کرتا ہے تو اس سے نہ صرف انسانیت کو آبرو ملتی ہے بلکہ ہر شخص ان کے ادب و احترام میں اپنی گردن جھکا دینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ ذوالقرنین بھی اللہ کے ان نیک اور برگزیدہ بندوں میں سے تھے جنہوں نے مشرق و مغرب کے فاتح اور ایک عظیم سلطنت میں خود مختار ہونے کے باوجود ظلم ، زیادتی اور بےانصافی کے بجائے عدل و انصاف اور امن و محبت کا ایک ایسا نظام قائم کیا اور مظلوموں، بےکسوں اور مجبوروں کے ساتھ ایسی ہمدردی کا رویہ اختیار کیا جو تاریخ انسانی میں ساری دنیا کے انسانوں کے لئے ایک بہترین نمونہ عمل بن گیا۔ قریش مکہ کو یہودیوں نے یہ سکھادیا تھا کہ وہ نبی کریم ﷺ کی صداقت کا امتحان لینے کے لئے تین سوالات کریں۔ روح کیا ہے ؟ اصحاب کہف کون تھے ؟ ذوالقرنین کا واقعہ اور خصوصیات کیا تھیں ؟ یہودی اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ عرب کے لوگ اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے واقعات اور روح کی حقیقت سے بیخبر ہیں۔ جب نبی کریم ﷺ سے سوال کیا جائے گا تو وہ اس کا جواب نہ دے سکیں گے اور ہمیں مذاق اڑانے کا ایک اور موقع مل جائے گا۔ کیونکہ نعوذ باللہ ان کا گمان یہ تھا کہ قرآن کریم اللہ کی کتاب نہیں ہے بلکہ حضرت محمد ﷺ اپنی طرف سے خود ہی گھڑ کر اور بنا کر پیش کردیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اصحاب کہف اور روح کے متعلق تفصیل سے ارشاد فرما کر اب ذوالقرنین کے متعلق ارشاد فرما رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کا واقعہ سنا کر قریش مکہ کو شرم دلائی ہے کہ ذوالقرنین کے پاس سب کچھ تھا لیکن انہوں نے غرور اور تکبر کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے غریبوں، محتاجوں اور مجبوروں کے ساتھ حسن سلوک اور اچھا برتاؤ کر کے اپنی عظمت کو چار چاند لگا دیئے تھے اور قریش مکہ معمولی سی سرداریوں اور مال و دولت پر اس قدر اترا رہے ہیں کہ اللہ کا نام لینے والے کمزور اور بےبس مسلمانوں پر ایسے ایسے ظلم و ستم ڈھا رہے ہیں جن سے انسانیت بھی شرما جاتی ہے۔ فرمایا کہ ذوالقرنین ایک نیک دل اور انصاف پسند حکمران تھے جو ایک عظیم سلطنت اور صاحب اقتدار ہونے کے باوجود ہر شخص کے ساتھ بہترین سلوک کرنے کو سب سے بڑی نیکی تصور کرتے تھے۔ فرمایا کہ ذوالقرنین جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے تھے انہوں نے پوری زندگی دنیا کے کونے کونے کا سفر کیا اور جس کو بھی ضرورت مند سمجھا اس کی پوری مدد فرمائی اور کسی کے ساتھ زیادتی اور ظلم نہیں کیا۔ انہوں نے مغرب، مشرق اور شمال و جنوب کے متعدد سفر کئے اور فتح کے جھنڈے گاڑتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔ انہیں اللہ نے تمام مادی وسائل، ذرائع اور مال و اسباب عطا فرما رکھے تھے۔ وہ تمام تر وسائل کے ساتھ سب سے پہلے مغرب کی سمت روانہ ہوئے۔ وہ چلتے چلتے اس مقام تک پہنچ گئے۔ جہاں حد نظر تک دلدل تھی۔ نہ تو آگے جانے کا پیدل راستہ تھا اور نہ کوئی انسان وہاں تک پہنچ سکتا تھا۔ وہ اپنے لشکر کے ساتھ وہاں ٹھہر گئے سورج غروب ہوتے ہوئے ایسا لگا جیسے وہ سیاہ پانی میں ڈوب رہا ہے۔ وہاں ذوالقرنین نے ایک ایسی قوم کو دیکھا جو بالکل الگ تھلگ ایک بستی میں رہتی تھی۔ ایک فاتح بادشاہ اور حکمران کے اعتبار سے اس زمانہ کے رواج کے مطابق ان کے لئے دوراستے کھلے ہوئے تھے کہ وہ ایک ظالم فاتح کی طرح ان کا مال و اسباب لوٹ کر ان کو اپنا غلام بنا لے یا ایک عادل بادشاہ کی طرح ان کے ساتھ بھلائی، ہمدردی اور عدل و انصاف کا معاملہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ اگر اللہ کسی کو اقتدار، طاقت اور قوت عطا کرتا ہے تو اس کو کمزور کے ساتھ بہترین معاملہ کرنا چاہئے۔ چناچہ ذوالقرنین نے عدل و انصاف اور امن و سلامتی کے راستے کا انتخاب کرتے ہوئے اعلان عام کردیا کہ وہ ہر شخص کے ساتھ بہترین معاملہ کرے گا۔ البتہ اگر کوئی اپنی حدود سے آگے بڑھنے اور زیادتی کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کو سخت سزا دی جائے گی۔ مغرب کا سفر کرنے کے بعد ذوالقرنین نے مشرقی سمت کا رخ کیا۔ راستے میں چلتے ہوئے کچھ ایسے لوگوں کی آبادی پر نظر پڑی جو حیوانوں جیسی جنگلی زندگی گذار رہے تھے۔ نہ ان کے پاس رہنے کے گھر تھے۔ نہ دھوپ سے بچنے کا سامان تھا۔ نہ ایسا ڈھنگ کا لباس تھا جس سے وہ اپنے بدن کو پوری طرح ڈھانپ سکیں۔ سورج اور دھوپ کی شدت نے ان کے بدن جھلسا کر رکھ دیئے تھے۔ ذوالقرنین نے حکم دیا کہ ان کی ہر ممکن مدد کی جائے۔ بہترین سلوک اور احسان و کرم کا معاملہ کیا جائے۔ ذوالقرنین کے یہ دو سفر مشرق و مغرب کی طرف کئے گئے تھے۔ انہوں نے ہر جگہ ایسا عدل و انصاف قائم کیا جس سے پوری دنیا میں خیر و بھلائی پھیل گئی۔ قرن کے معنی زمانہ، صدی، سینگ و قوت کے آتے ہیں۔ چونکہ ذوالقرنین نے مشرق و مغرب کے ملکوں کو کھنگال ڈالا تھا شاید اسی لئے ان کو ذوالقرنین کہا جانے لگا۔ خلاصہ یہ ہے کہ ذوالقرنین نہ صرف دنیا بھر کے فاتح تھے بلکہ انہوں نے عدل و انصاف کا ایک ایسا بہترین کردار پیش کیا تھا جو ساری دنیا کے لئے ایک بہترین مثال ہے۔ ذوالقرنین چونکہ اللہ کو ایک ماننے والے ، اس کے فرماں بردار اور اطاعت گذار تھے لہٰذا ان کے متعلق یہ کہنا کہ ذوالقرنین اور سکندر اعظم ایک ہی شخصیت کے دو نام ہیں اس لئے غلط ہوجاتا ہے کہ سکندر اعظم توحید پرست نہ تھا جب کہ ذوالقرنین توحید خالص کے ماننے والے اور اللہ کے شکر گزاربندے تھے۔ بعض حضرات نے تو ان کی نیکیوں اور توحید کی بنا پر یہاں تک فرما دیا کہ وہ نبی تھے۔ بہرحال ذوالقرنین کے نبی ہونے میں تو علماء کا اختلاف ہے مگر مومن صالح ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ اس پر قرآن کی آیات بھی گواہ ہیں۔ مشرق و مغرب کے اس فاتحانہ سفر کے بعد ذوالقرنین نے تیسرا سفر بھی کیا جس کی تفصیل اگلی آیات میں آرہی ہے۔
Top