Baseerat-e-Quran - Al-Kahf : 92
ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا
ثُمَّ : پھر اَتْبَعَ : وہ پیچھے پڑا سَبَبًا : ایک سامان
پھر وہ ایک راہ پر چل پڑے۔
لغات القرآن آیت نمبر 92 تا 101 السدین دو دیواریں، دو پہاڑ۔ لایکادون قریب نہ تھے۔ یفقھون وہ سمجھتے ہیں۔ خرج کچھ مال۔ سد دیوار۔ مکنی مجھے اختیار دیا۔ اعینوا مدد کرو۔ ردماً آڑ، رکاوٹ۔ زبر الحدید لوہے کے تختے۔ ساوی برابر کردیا۔ صدفین دونوں پہاڑ۔ انفخوا دھونکو، پھونکو۔ افرغ ڈال دو ۔ قطر پگھلا ہوا تانبہ ۔ ان یظھروا یہ کہ وہ چڑھیں۔ نقب سوراخ۔ دکاء برابر کیا۔ عرض سامن۔ غطاء پردہ۔ سمع سننا تشریح : آیت نمبر 92 تا 101 مشرق و مغرب کے سفروں کے بعد ذوالقرنین نے تیسری سمت بھی سفر کیا۔ اکثر مفسرین اور مورخین کے ارشاد کے مطابق یہ سفر شمال کی طرف تھا۔ چلتے چلتے ذوالقرنین ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں کے لوگ نہ تو تہذیب و تمدن سے آشنا تھے اور نہ اپنی مقامی زبان کے علاوہ کسی اور زبان سے واقف تھے۔ ذوالقرنین نے ان کے ساتھ بھی نہایت احسان اور کرم کا معاملہ کیا۔ جب انہوں نے ایسے عادل و منصف بادشاہ کو دیکھا تو کسی ترجمان کے ذریعے انہوں نے ذوالقرنین کو اپنی سب سے بڑی مشکل اور مصیبت بتائی انہوں نے کہا کہ ان کے اور پہاڑوں کے درمیان دوسری طرف ایک ایسی قوم رہتی ہے جن کو یاجوج ماجوج کہا جاتا ہے وہ پہاڑی درے سے نکل کر ان کی بستیوں میں آجاتے ہیں اور ان کے تمام مال و اسباب کو لوٹ کرلے جاتے ہیں۔ ہم اونچے اونچے پہاڑوں اور یاجوج ماجوج کی طاقت کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ انہوں نے ذوالقرنین سے درخواست کی کہ اگر وہ یاجوج ماجوج اور ان کے درمیان اس درہ پر کوئی زبردست دیوار کھڑی کردیں جہاں سے یاجوج ماجوج آتے ہیں تو ہم نہ صرف ان کے ظلم و ستم سے بچ جائیں گے بلکہ ہم احسان مند بھی ہوں گے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس کام کے لئے اگر کسی رقم کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ دینے کو تیار ہیں۔ ذوالقرنین نے ان کی فریاد سنی اور ان کی بےبسی پر بڑا ترس آیا۔ ذوالقرنین نے دونوں پہاڑوں کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنانے کا وعدہ کرلیا اور کہا مجھے تمہارے مال و دولت کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اللہ نے مجھے سب کچھ دیا ہے۔ البتہ تم سب مل کر ہاتھ پاؤں سے میری مدد کرو ۔ یہ سن کر وہ پوری قوم محنت مزدروی کے لئے تیار ہوگئی۔ ذوالقرنین نے حکم دیا کہ لوہے کے بڑے بڑے تختے منگوائے جائیں اور ان کو دونوں پہاڑوں کے درمیان تہہ در تہہ بچھا دیا جائے۔ چناچہ کام شروع کردیا گیا ۔ جب اس دیوار کی اونچائی دونوں پہاڑوں کی چوٹیوں تک پہنچ گئی تو انہوں نے لوگوں سے کہا کہ لوہے یا تانبے کے نیچے بہت تیز آگ جلائی جائے جب لوہا یا تانبا پگھل جائے تو اس کو ل ہے کے تختوں کے اوپر سے اس کی دروزوں میں ڈالا جائے تاکہ وہ دیوار انتہائی مضبوط اور لوہے کی طرح بن جائے۔ جب یہ دیوار تیار ہوگئی تو وہ پوری قوم یاجوج ماجوج کے ظلم و ستم سے محفوظ ہوگئی۔ ذوالقرنین کا یہ اتنا بڑا اور عظیم کارنامہ تھا کہ ذوالقرنین اس پر فخر کرسکتے تھے لیکن انہوں نے فخر و غرور کرنے کے بجائے یہ کہا کہ یہ جو کچھ ہے وہ سب اللہ کا فضل کرم ہے جو ایک خاص مدت تک اسی طرح باقی رہے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ذوالقرنین محض ایک بادشاہ نہیں بلکہ اللہ کے نیک اور پارسا بندوں میں سے تھے۔ اس تمام واقعہ سے اور علماء مفسرین کی وضاحتوں سے چند حقائق سامنے آتے ہیں۔ (1) علماء نے لکھا ہے کہ ذوالقرنین حضرت ابراہیم کے زمانے میں گذرے ہیں اور حضرت خضر ان کے وزیر تھے۔ وہ نہایت ذہین، نیک دل، صاحب تدبیر، رعب اور دبدبے کے آدمی تھے۔ وہ اللہ کو ایک مانتے تھے اور مشرک ہرگز نہ تھے۔ اللہ نے ان کو دنیا کے تمام مال و اسباب عطا فرمائے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے مشرق و مغرب اور شمال کے ملکوں کے سفر کئے اور حیرت انگیز طریقے پر تمام ملکوں کو فتح کرتے چلے گئے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ ان کو یہ سب کچھ بیت اللہ شریف اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی دعا سے نصیب ہوا تھا۔ جب کہ ذوالقرنین پیدل چل کر حرم کعبہ کی زیارت کے لئے آئے۔ حضرت ابراہیم کو ان کے آنے کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے مکہ مکرمہ سے باہر نکل کر ان کا استقبال کیا۔ حضرت ابراہیم نے ان کو دعائیں بھی دیں اور کچھ نصیحتیں بھی فرمائیں (البدایہ ص 108 ج 2) ذوالقرنین نے حضرت ابراہیم کے ساتھ طواف کیا اور قربانی بھی دی (ابن کثیر) (2) ذوالقرنین نے جس دیوار کو تعمیر کیا تھا وہ کہاں ہے اور کس حالت میں ہے اس کا صحیح علم کسی کو بھی نہیں ہے البتہ بعض حضرات نے اس سلسلہ میں مختلف علاقوں کی نشان دہی کی ہے جو تاریخ کا ایک حصہ ہے۔ البتہ کفار مکہ نے یہودیوں کے کہنے پر ذوالقرنین کے متعلق پوچھا تھا تو اللہ نے اس کا جواب دے کر کفار کو بتا دیا تھا کہ تم اپنی معمولی سرداریوں، مال و دولت پر جس طرح اترا رہے ہو وہ ذوالقرنین کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہے۔ جب کہ انہوں نے سب کچھ ہوتے ہوئے بھی لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف کیا ایسے لوگ جو جنگلیوں جیسی زندگی گذار رہے تھے ان کے ساتھ بھی حسن سلوک کیا۔ کفار مکہ سے فرمایا جا رہا ہے تمہارا حال یہ ہے کہ تم اپنے ہی بھائی بندوں پر طرح طرح کے ظلم و ستم کر رہے ہو اور اس ظلم و زیادتی پر شرمندہ بھی نہیں ہوتے ہو۔ میری ناقص رائے یہ ہے کہ اگر اس دیوار کے بنانے کی بات کو اسی حد تک رہنے دیا جائے کہ اللہ کو معلوم ہے تو بہتر ہوگا۔ کیونکہ جب کسی کو معلوم ہی نہیں ہے اور اس سلسلہ میں ایک رائے بھی نہیں ہے تو اس کو تاریخ کا ایک حصہ سمجھ کر چھوڑ دینا چاہئے اور اسے مضمون کی روح کو سامنے رکھنا چاہئے۔
Top