Baseerat-e-Quran - Maryam : 11
فَخَرَجَ عَلٰى قَوْمِهٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰۤى اِلَیْهِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُكْرَةً وَّ عَشِیًّا
فَخَرَجَ : پھر وہ نکلا عَلٰي : پاس قَوْمِهٖ : اپنی قوم مِنَ : سے الْمِحْرَابِ : محراب فَاَوْحٰٓى : تو اس نے اشارہ کیا اِلَيْهِمْ : ان کی طرف اَنْ سَبِّحُوْا : کہ اس کی پاکیزگی بیان کرو بُكْرَةً : صبح وَّعَشِيًّا : اور شام
پھر وہ (زکریا) عبادت گاہ سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے۔ انہوں نے اشارہ سے بتایا کہ تم صبح و شام اللہ کی پاکیزگی بیان کرو۔
لغات القرآن آیت نمبر 11 تا 15 المحراب عبادت کرنے کی جگہ ۔ اوحی اس نے اشارہ کیا۔ سبحوا تسبیح کرو۔ عبادت کرو۔ بکرۃ صبح۔ عشی شام۔ خذ لے لو۔ پکڑو۔ الحکم حکمت و دانئای۔ صبی بچپن۔ حنان شفقت و محبت۔ برا نیکی کرنا۔ جبار سرکشی کرنے والا۔ عصی نافرمان۔ ولد پیدا کیا گیا۔ یبعث دوبارہ اٹھائے گا۔ تشریح : آیت نمبر 11 تا 15 جب حضرت زکریا (علیہ السلام) کی عمر مبارک ایک سو بیس سال کے قریب ہوئی اس وقت آپ نے عاجزی و انکساری سے اللہ کی بارگاہ میں یہ دعا فرمائی کہ اے اللہ مجھے ایک بیٹا عطا فرما دیجیے تاکہ وہ توریت کی تعلیمات کو عام کرسکے اور میرے اسلامی مقصد اور مشن کے لئے میرا صحیح جانشین اور وارث بن سکے۔ اللہ تعالیٰ نے اس وقت جب کہ وہ بڑھاپے کی انتہائی عمر تک پہنچ چکے تھے۔ ان کی بیوی بانجھ تھیں یعنی ظاہری اسباب میں اس کا کوئی امکان نہ تھا کہ اس عمر میں ان کے گھر کوئی اولاد پیدا ہو۔ مگر اللہ نے اپنی قدرت کا اظہار کرتے ہوئے اس ناممکن کو ممکن بنا دیا۔ اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتوں نے جب اولاد کی خوشخبری سنائی تو اس خبر پر انہیں خوشی کے ساتھ تعجب بھی ہوا۔ انہوں نے عرض کیا الٰہی ! میرے لئے کوئی ایسی نشانی مقرر کردیجیے جس سے مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ میرے گھر ولادت ہونے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کی علامت اور نشانی یہ ہوگی کہ تم تین راتوں تک تندرست ہونے کے باوجود کسی سے بات نہ کرسکو گے۔ جب ایسا ہو سمجھ لینا کہ حمل قرار پا گیا ہے۔ یہ واقعہ جہاں حضرت زکریا (علیہ السلام) کے لئے انتہائی خوشی اور مسرت کا تھا وہیں پوری قوم بنی اسرائیل کے بھی نہایت سکون، خوشی اور مسرت کا پیغام تھا چناچہ جب حضرت زکریا (علیہ السلام) کے لئے یہ وقت آیا اور بات چیت سے زبان رک گئی تو آپ نے اپنی عبادت گاہ سے نکل کر قوم بنی اسرائیل کو اشاروں سے بتایا کہ وہ بھی صبح و شام اللہ کی حمد وثناء کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا (علیہ السلام) کی دعا کو قبول کرتے ہوئے ایک ایسے بیٹے کی خوشخبری عطا فرمائی جن کا نام بھی اللہ تعالیٰ نے خود ہی تجویز کر کے ارشاد فرمایا کہ اس سے پہلے یحییٰ کسی کا بھی نام نہ تھا۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) جو اللہ کے نبی تھے بچپن ہی سے نبوت کی بہت سی خصوصیات کے حامل تھے چناچہ قرآن کریم اور احادیث رسول اللہ ﷺ میں فرمایا گیا ہے کہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) بچپن ہی سے نہایت ذہین و ذکی سمجھدار دانا و بینا تھے۔ بچپن کی عمر میں بچے کھیل کود میں لگے رہتے ہیں لیکن حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کا کھیل کود میں دل نہ لگتا تھا انہیں فضول اور غلط باتوں سے سخت نفرت تھی اور جس بات میں سنجیدگی اور وقار نہ ہوتا وہ اس بات کے قریب بھی نہ جاتے تھے ان کا دل پیدائشی طور پر اللہ کے خوف سے بھرا ہوا تھا وہ ہر بات کی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ وہ توریت کے ہر حکم پر پوری طرح عمل فرماتے تھے۔ جن باتوں سے پرہیز کرنے کے لئے کہا گیا تھا اس سے پرہیز کرتے تھے۔ نہایت متین، سنجیدہ اور باوقار تھے۔ اللہ تعالیٰ نے زندگی میں اور موت کے بعد بھی سلامتی عطا فرمائی اور قیامت میں بھی ان کو سلامتی عطا کی جائیگی۔ وہ مشکل وقت میں صحیح رائے قائم کرتے اور ہر معاملہ میں صحیح فیصلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔
Top