Baseerat-e-Quran - Maryam : 22
فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهٖ مَكَانًا قَصِیًّا
فَحَمَلَتْهُ : پھر اسے حمل رہ گیا فَانْتَبَذَتْ : پس وہ چلی گئی بِهٖ : اسے لیکر مَكَانًا : ایک جگہ قَصِيًّا : دور
پھر (مریم کو) حمل رہ گیا اور وہ اسے لے کر ایک دور کی مشرقی جگہ پر چلی گئیں۔
لغات القرآن آیت نمبر 22 تا 36 انتبذت (انتباذ) الگ ہوگئی، جدا ہوگئی قصی دور کا فاصلہ۔ المخاض زچگی کا درد۔ دردزہ۔ جزع جڑ۔ نسیا منسیا بھولی بسری چیز۔ بےنام و نشان ہوجانا۔ سری پانی کا چشمہ۔ ھزی ہلالی۔ جھکادے۔ تساقط گرائی گی۔ رطب ترو تازہ۔ جنی پکا ہوا پھل۔ قری عین آنکھیں ٹھنڈی رکھ۔ ترین تو دیکھے۔ نذرت میں نے منت مان رکھی ہے۔ تحملہ وہ اس کو اٹھا لائے۔ فری (افترائ) عجیب اور نرالی بات۔ المھد گود۔ صبی بچہ۔ اوصنی مجھے حکم دیا۔ مادمت حیا جب تک میں زندہ ہوں۔ شقی بدنصیب، بدنصیب، بدقسمت۔ یمترون وہ شک کرتے ہیں۔ تشریح : آیت نمبر 22 تا 36 حضرت مریم نے جب سے ہوش سنبھالا تھا اس وقت سے وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہتیں اور پاکیزگی، عفت و عصمت کی ایک مکمل تصویر تھیں۔ وہ لوگوں سے الگ ہو کر عبادت الٰہی کی خاطر ایک مکان میں بیٹھ گئیں۔ اس دوران حضرت جبرئیل اللہ کے حکم سے ایک مکمل انسان کی شکل میں حضرت مریم کے سامنے آگئے۔ اس اکیلے مکان میں ایک اجنبی آدمی کو دیکھ کر حضرت مریم گھبرا گئیں۔ شرم و حیا سے سمٹ کر کہہ اٹھیں اگر تمہارے دل میں ذرہ برابر بھی خوف الٰہی ہے تو یہاں سے چلے جاؤ۔ حضرت جبرئیل نے حضرت مریم کی گھبراہٹ کو دیکھ کر اپنے آپ کو ظاہر کردیا اور کہا کہ میں تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے بھیجا ہوا آیا ہوں تاکہ تمہیں ایک بیٹے کی اطلاع اور خوشخبری سناؤں۔ حضرت مریم نے حیرت اور تعجب سے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے جب کہ مجھے آج تک کسی انسان نے ہاتھ تک نہیں لگایا اور نہ میں کوئی بدکار عورت ہوں۔ فرشتے نے کہا ” کذالک “ یعنی ایسے ہی ہوگا ۔ آپ نے گزشتہ آیات میں پڑھ لیا ہے کہ جب حضرت زکریا (علیہ السلام) نے اپنی اور اپنی بیوی کی حالت کو دیکھ کر تعجب سے پوچھا تھا کہ اس بڑھاپے میں ہمارے ہاں بیٹا کیسے ہوگا۔ اس پر فرشتے نے کہا تھا۔ ” کذالک “ اسی طرح ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ” کذالک “ کے معنی یہی ہے کہ اللہ تمام قدرتوں اور طاقوتوں کا مالک ہے۔ جب وہ کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کرلیتا ہے تو وہ اسی طرح ہوتا ہے جس طرح وہ چاہتا ہے کیونکہ وہ انسانوں کی طرح ہر کام میں اسباب اور وسائل کا محتاج نہیں ہے۔ اس جگہ یہ فرمایا جا رہا ہے کہ اے مریم اس میں تعجب کی کیا بات ہے وہ اولاد کے پیدا کرنے میں اس اصول کا پابند نہیں ہے کہ ہر بچہ ماں اور باپ کے ملاپ سے پیدا ہو بلکہ وہ چاہے تو بغیر ماں باپ کے حضرت آدم علیہ اسلام اور حواء کو پیدا کر دے اور بغیر باپ کے تمہیں بیٹا عطا فرما دے۔ اس اللہ کی اتنی زبردست قوت ہے کہ وہ اپنے فیصلوں اور کام میں کسی کا محتاج نہیں ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ اللہ نے اس کام کے کرنے کا فیصلہ فرما لیا ہے۔ تاکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کو ایک معجزہ اور نشانی بنا دیا جائے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ مقام جہاں حضرت مریم چلی گئی تھیں وہ بیت اللحم ہے جو بیت المقدس سے آٹھ میل کے فاصلے پر ہے۔ جب زچگی کا درد محسوس ہوا تو حضرت مریم بےتابانہ جنگل کی طرف نکل گئیں اور ایک کھجور کا درخت جو کسی قدر اونچائی پر واقع تھا اس کے سہارے بیٹھ گئیں ان کے منہ سے نکل گیا کاش میں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی یا اس رسوائی سے پہلے مٹ گئی ہوتی آپ اس کشمکش میں تھیں کہ ٹیلے کے نیچے سے حضرت جبرئیل کی آواز آئی کہ گھبرانا مت اللہ نے آپ کے لئے راحت و آرام کے تمام اسباب کا انتظام فرما دیا ہے۔ آپ سے قریب ہی صاف و شفاف پانی کا چشمہ بہادیا گیا ہے اور تازہ کھجوروں کا یہ درخت جس کے نیچے آپ ہیں اس کو ہلائیے تو تازہ اور لذیذ کھجوریں گر پڑیں گی یہ اللہ نے آپ کے کھانے پینے کا انتظام کیا ہے۔ آپ اس کو کھائیے اور پیجئے اور اولاد سے آنکھیں ٹھنڈی رکھئے اللہ نے یہ بھی فرما دیا کہ اگر کوئی ادھر نکل آئے تو اس سے اشارے سے بتا دینا کہ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے اس شریعت میں روزہ رکھنے کا یہی طریقہ تھا کہ روزے کی حالت میں کسی سے بات نہ کی جاتی تھی۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے بعد جب حضرت مریم اپنے بچے کو لیکر واقف کاروں میں پہنچیں تو انہوں نے تعجب حیرت اور افسوس سے کہا کہ اے مریم تم نے یہ کیا غضب کیا ہم سب جانتے ہیں کہ تمہارے والد تو نہایت پاکیزہ صفت صالح اور نیک آدمی تھے تمہارے والدہ بھی نہایت شریف پاک دامن اور پارسا خاتون تھیں تم جیسی نیک خاندان کی لڑکی سے اس طرح کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی اس طرح لوگوں نے طرح طرح کے طعنے دینے شروع کردیئے جب سب لوگوں نے طرح طرح کی باتیں کیں تو حضرت مریم نے اللہ کے حکم سے اس بچے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر تمہیں میری پاکدامنی پر شبہ ہے تو تم خود اس بچے ہی سے پوچھ لو حضرت مریم جیسی سنجیدہ اور باوقار خاتون سے یہ جملہ سن کر سب کی زبان سے نکلا کہ بھلا وہ بچہ جو اپنے گہوارے میں ہمک رہا ہے وہ ہم سے کیسے بات کرے گا اور ہم اس سے کیسے پوچھیں گے۔ ابھی یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بولنے کی قوت اور طاقت عطا فرمائی اور انہوں نے کہنا شروع کیا میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے نبی بنا کر کتاب دینے کا فیصلہ کیا ہے او اس نے مجھے اس قدر خوش نصیب بنایا ہے کہ میں جہاں بھ یر ہوں گا وہیں خیر و برکت میرے ساتھ ساتھ رہے گی اس اللہ نے مجھے نماز ادا کرنے اور زکوۃ دینے کا حکم دیا ہے جب تک میں زندہ رہوں اور اس نے مجھے اپنی والدہ کیساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم بھی دیا ہے اور مجھے ہر طرح کی سرکشی اور بدنصیبی سے دور کررہا ہے۔ اس نے مجھے خوش خلق اور ہمدرد بنایا ہے اور فرمایا کہ اللہ کا مجھ پر کتنا کرم ہے کہ دنیا کی زندگی اور موت اور قیامت کے دن دوبارہ اٹھائے جانے کے دن تک میرے اوپر سلامتی ہی سلامتی رہے گی اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ان آٹھ صفات کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ ہیں وہ حضرت عیسیٰ ابن مریم جنہوں نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا فرماں برادار اور انسانیت کا سچا خادم بتایا ہے۔ فرمایا کہ تم جس عیسیٰ کی بات کرتے ہو وہ تمہارے ذہن کا گھڑا ہوا جھوٹا تصور ہے بلکہ اصل عیسیٰ ابن مریم وہ ہیں جو اللہ کے فرماں بردار اور اطاعت گذار بندے ہیں وہ اللہ کے بیٹے نہیں تھے جیسے کہ تم کہتے ہو فرمایا کہ اس اللہ کو اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا، بیٹی یا بیوی بنائے کیونکہ وہ دنیا کے تمام اسباب سے بےنیاز ہے وہ جب کسی کام کے کرنے کا حکم دیتا ہے تو وہ صرف ” کن “ (ہو جا) کہتا ہے اور وہ چیز ہوجاتی ہے حکم دیا کہ لوگوں تم اسی کی عبادت اور بندگی کرو اور انسانوں کو معبود کا درجہ نہ دو کیونکہ اس صراط مستقیم سے ہٹ کر جو راستہ بھی تلاش کیا جائے گا وہ منزل تک نہیں پہنچا سکتا وہ منزل سے دور کر دے گا۔
Top