Baseerat-e-Quran - Maryam : 73
وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا١ۙ اَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ خَیْرٌ مَّقَامًا وَّ اَحْسَنُ نَدِیًّا
وَاِذَا : اور جب تُتْلٰى : پڑھی جاتی ہیں عَلَيْهِمْ : ان پر اٰيٰتُنَا : ہماری آیتیں بَيِّنٰتٍ : واضح قَالَ : کہتے ہیں الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا لِلَّذِيْنَ : ان سے جو اٰمَنُوْٓا : وہ ایمان لائے اَيُّ : کون سا الْفَرِيْقَيْنِ : دونوں فریق خَيْرٌ مَّقَامًا : بہتر مقام وَّاَحْسَنُ : اور اچھی نَدِيًّا : مجلس
اور جب ان پر ہماری کھلی کھلی آیات کی تلاوت کیجاتی ہے تو وہ کافر ان لوگوں سے کہتے ہیں جو ایمان لے آئے ہیں کہ ہم دونوں جماعتوں میں سے کون بہتر ہے
لغات القرآن آیت نمبر 73 تا 80 تتلی تلاوت کی گئی، ای کون۔ احسن ندیا بہترین مجلس۔ قرن گروہ، جماعت۔ اثات سامان۔ رءی نمود و نمائش ، سروسامان۔ یمدد وہ بڑھائے گا۔ اضعف کمزور ترین ۔ جنۃ لشکر، مددگار۔ مرد انجام، آخری ٹھکانا۔ اوتین مجھے ضرور دیا جائے گا۔ فرد تنہا، اکیلا۔ تشریح : آیت نمبر 73 تا 80 انسان دنیا کی اظہری زیب وزینت ، چمک دمک اور عاضری رونقوں کو دیکھ کر اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ دنیا کی یہ رونقیں ہمیشہ اس کے ساتھ رہیں گی۔ اولاد کی کثرت اور دولت کی ریل پیل سے آدمی دھوکا کھا جاتا ہے اور اپنے مقابلے میں دوسروں کو ذلیل و خوار اور کم تر سمجھنے لگتا ہے۔ چناچہ نزول قرآن کے وقت جب اہل ایمان کو کامیاب اور سچا اور کافروں کو ناکام اور جھوٹا ثابت کر کے اہل ایمان کے لئے جنت کی دائمی نعمتوں اور رحمتوں کا ذکر سنتے تو کفار مکہ اہل ایمان کا مذاق اڑانے کے لئے کہتے تھے کہ یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ لوگ جو اپنے آپ کو صاحب ایمان کہتے ہیں دنیا اور آخرت میں کیسے کامیاب ہوں گے جب کہ دنیا میں تو ان کا یہ حال ہے کہ پھٹے ہوئے کپڑے، فاقہ زدہ چہرے، غلاموں، غریبوں اور مفلسوں کی بھیڑ اور بےرونق محفلیں ہیں اور دوسری طرف ہمارے مال و دولت، طاقت و قوت، محفلوں کی رنگینیاں، عمارتوں کی بلندیاں، بہترین سواریاں اور چاروں طرف پھیلے ہوئے ہمارے مددگار ہیں۔ ہم دنیا کے کامیاب ترین لوگ ہیں اور ہم اس کی توقع کرسکتے ہیں کہ آخرت میں بھی ہماری یہی شان و شوکت ہوگی۔ دنیا اور آخرت میں ہم ہی کامیاب وبامراد ہوں گے۔ ان ایمان کے دعوے داروں کو نہ دنیا میں کچھ ملا ہے اور نہ آخرت میں ملنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ کفار کی ان باتوں اور طعنوں سے اہل ایمان ناگوار محسوس کرتے تھے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے دل کے سکون کے لئے ان آیات کو نازل فرمایا ارشاد ہے کہ یہ کفار بڑے نادان اور تاریخ انسانی سے ناواقف ہیں اگر تاریخی اعتبار سے دیکھتے تو ان کو پوری طرح یقین ہوجاتا کہ اللہ نے ہمیشہ اہل حق کو سربلند فرمایا ہے اور وہ لوگ جن کو اپنی طاقت و قوت پر ناز تھا جن کے سجے ہوئے مکانات، پر رونق محفلیں اور شاندار عمارتیں تھیں جب انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مسلسل نافرمانیاں اور گناہ کئے تو اللہ نے ان کو صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا اور کفار و مشرکین کو جڑ و بنیاد سے اکھاڑ کر پھینک دیا اور ان اہل ایمان کو جو دنیاوی اعتبار سے بےبس اور کمزور تھے ان کو طاقتوروں پر غالب اور مسلط کردیا اور ان کفار کی بلند وبالا عمارتیں اور محلات ایسے بےرونق کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے کہ لوگ ان کے قریب دن کی روشنی میں بھی جاتے ہوئے گھبراتے ہیں اور خوف محسوس کرتے ہیں۔ اللہ کا یہ نظام ہے کہ وہ ظالموں، نافرمانوں اور گناہ گاروں کو مہلت اور ڈھیل دیتا چلا جاتا ہے جس سے نافرمان اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ ان کے مقابلے میں نہ کوئی شخص عزت و آبرو و والا ہے اور نہ ان کے مال و دولت اور قوت و طاقت کا کوئی مقابلہ کرسکتا ہے۔ لیکن جب اللہ کا فیصلہ آجاتا ہے تو پھر مال و دولت ، اولاد، رشتہ دار اور ان کے مددگار جن پر انہیں ناز ہوتا ہے وہ سب کے سب ان کے اردگرد سے بھاگ جاتے اور دور ہوجاتے ہیں اور وہ لوگ جس دھوکے میں مبتلا تھے فریب کے پردے ان کی آنکھوں سے اتر جاتے ہیں۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جو راہ راست اور صراط مستقیم پر چل کر اپنی زندگی گزارت یہیں اللہ تعالیٰ نہ صرف ان کی ہدایت میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے بلکہ ان کے تمام نیک اعمال کو قبول فرما کر ان کے لئے دنیا کی ہر تین کامیابیاں اور آخرت میں اپنے انعامات سے نوازتا ہے اور ان کو کامیاب و بامراد کردیتا ہے فرمایا کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آج جو دولت و ثروت ان کو حاصل ہے وہ ہمیشہ ان کے ساتھ رہے گی بلکہ آخرت کی راحتیں بھی ان کا مقدر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں سے سوال کیا ہے کہ ان کو آگے کی زندگی کے متعلق کیا علم غیب حاصل ہوگیا ہے ؟ یا اللہ نے ان سے کوئی معاہدہ کرلیا ہے ؟ کہ یہ مال و دولت ہمیشہ ان کے ساتھ رہے گا۔ فرمایا کہ ایسے لوگوں کو اپنی غلط فہمی دور کر لینی چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس جو کچھ ہے وہ اس دنیا میں رہ جائے گا اور اگر انہوں نے ایمان اور عمل صالح کا راستہ اختیار نہ کیا تو آخرت میں بھی یہ خالی ہاتھ رہ جائیں گے اور وہاں کوئی ان کے کام نہ آسکے گا۔ ایسے لوگ تن تنا اللہ کے پاس پہنچیں گے تب ان کو پوری طرح اندازہ ہوگا۔ کہ دنیا اور آخرت دونوں انہوں نے برباد کر ڈالیں۔ فرمایا کہ اللہ کا اہل ایمان سے یہ وعدہ ہے کہ ان کی دنیا میں سنور جائے گی اور آخرت میں دائمی رحمتیں اور نعمتیں ان کی منتظر ہیں۔
Top