Baseerat-e-Quran - Al-Baqara : 21
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يَا اَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو اعْبُدُوْا : عبادت کرو رَبَّكُمُ : تم اپنے رب کی الَّذِیْ : جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا وَالَّذِیْنَ : اور وہ لوگ جو مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَتَّقُوْنَ : تم پرہیزگار ہوجاؤ
اے لوگو ! اس اللہ کی عبادت و بندگی کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تا کہ تم تقویٰ اختیار کرسکو۔
لغات القرآن : آیت نمبر 21 تا 24 (یایھا ) : اے (حرف ندا) کسی کو آواز دینے اور بلانے کے لئے یہ حرف استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر کسی مونث کو ندا دی جائے تو ” یایتھا “ آئے گا۔ دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔ (اعبدوا): (اعبد) تم عبادت و بندگی کرو۔ عبادت صرف چند رسموں کا نام نہیں ہے بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ہر حکم کو عاجزی، ادب واحترام کے ساتھ ماننا، اطاعت و فرمان برداری کرتے ہوئے زندگی کو پوری طرح ادا کرنا عبادت ہے۔ (خلق): اس نے پیدا کیا۔ اسی خالق (پیدا کرنے والا) اور مخلوق (پیدا کیا گیا ) بھی آتا ہے۔ (قبل): پہلے۔ یہ لفظ اردو میں بھی اسی معنی میں بولا جاتا ہے۔ (لعلکم ): (لعل۔ کم ) شاید کہ تم، تا کہ تم ، امید ہے کہ تم۔ ۔۔ ۔ کسی توقع اور امید کے لئے بولا جاتا ہے ۔ (تتقون): تم تقویٰ اختیار کرو گے، اس سے ڈرو گے، شریعت کے ہر حکم پر چلنا اور دل میں خوف الٰہی رکھنا۔ (فراش): ہر وہ چیز جو ایسی ٹھوس ، برابر اور ہموار بچھی ہوئی ہو جس پر چلنا ، پھرنا اور راحت حاصل کرنا ممکن ہو۔ (انداد): (ند کی جمع ہے ) ۔ جس کے معنی شریک، مد مقابل، مخالف کے آتے ہیں عام طور پر اس ترجمہ شریک اور شرکا سے کیا جاتا ہے۔ (نزلنا): ہم نے اتارا، نازل کیا۔ تنزیل کے معنی آتے ہیں کسی چیز کو اوپر سے نیچے آہستہ آہستہ اتارنا۔ یہاں قرآن کریم کی طرف اشارہ ہے جو نبی مکرم حضرت محمد ﷺ پر تھوڑا تھوڑا نازل ہو کر تئیس سال میں مکمل ہوا۔ (شھداء) : (شہید کی جمع ہے ) جس کے کئی معنی ہیں مددگار، حمایتی ، اور با خبر۔ (وقود): ایندھن، جلنے کی چیز۔ (الحجارۃ): الحجرہ کی جمع ہے اس سے مراد وہ بےجان بت ہیں جن کو انہوں نے اپنا خالق ومالک بنا رکھا تھا۔ فرمایا کہ یہ سب جہنم کا ایندھن ہیں۔ (اعدت): تیار کی گئی ہے۔ تشریح : آیت نمبر 21 تا 24 مومنوں ، کافروں اور منافقین کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں اور جماعتوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے لوگو ! اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارے اندر تقویٰ جیسی عظیم صفت پیدا ہوجائے تو اس اللہ کی عبادت و بندگی کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے ان لوگوں کو پیدا کیا جن کو تمہارے اس دنیا میں آنے کا سبب بنایا ہے۔ وہ اللہ کہ جس نے تمام انسانوں کو جسم اور روح کا پیکر بنا کر جسم و روح کی تمام ضرورتوں اور تقاضوں کو پورا کرنے کے وسائل اور ذرائع بھی عطا کئے ہیں۔ روح کے لئے اس نے اپنا کلام اپنے پاکیزہ بندوں کے ذریعہ پہنچایا جس سے روح کی زندگی اور تابندگی ہے۔ اور جسم کے لئے زمین کو راحت و آرام کا ذریعہ بنا کر فرش کی طرح بچھا دیا ہے اور حفاظت کے لئے آسمان کو ان کے سروں پر چھت کی طرح تان دیا ہے اور بلندی سے بارشوں کو برسا کر ہر طرح کے پھل، پھول اور سبزے کو پیدا کیا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو اللہ نے زمین کو نعمت کے طور پر اس طرح بنایا ہے کہ اس میں چلنا پھرنا، اٹھنا، بیٹھنا، کھیتی کہ زمین نہ تو اتنی نرم ہے کہ آدمی اس دھنس جائے یا اس کا چلنا پھر دشوار ہوجائے اور نہ لوہے کی طرح سخت بنایا ہے کہ اس کو استعمال کرنا آسانی سے ممکن نہ ہو بلکہ زمین نرم تو اتنی ہے کہ ایک بچہ بھی کھودتا چلا جائے اور مضبوط اتنی ہے کہ اربوں، کھربوں انسان، ان کی زندگی گزارنے کا سامان، بلند وبالا بلڈنگیں اور بڑے بڑے پہاڑوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے، نہ جھکتی ہے ، نہ دبتی ہے، نہ دھنستی ہے۔ زمین کو ایسا کار آمد بنایا ہے کہ ایک کسان زمین میں ہل یا ٹریکٹر چلا کر اس میں چنددانے اور کھا ڈال کر اپنی اور اپنے اہل خانہ کی سال بھر کی روزی پیدا کرلیتا ہے، ایک گٹھلی بو کر یا چند بیج بکھیر کر اس سے بیشمار پھل، پھول، سبزی ترکاریاں ، مزے دار میوے اناج اور غلے پیدا کرلیتا ہے۔ لوہا، گیس، تیل، لکڑی اور دوسری مع دنیات بھی اسی زمین سے حاصل کرتا ہے جس سے وہ تیز رفتار گاڑیاں اونچے مکانات اور بلند وبالا عمارتیں بناتا ہے۔ اللہ نے آسمان کو ہمارے سروں پر سائبان کی طرح تان دیا ہے جو ہمیں کائنات کی ہزاروں آفات اور ہلاک کردینے والے جراثیم سے محفوظ رکھتا ہے۔ جدید تحقیقات کے مطابق اس دنیا پر ایک چادر سی ڈال دی گئی ہے جس کو ” اوزون “ کہا جاتا ہے ۔ اس کے چند کام ہیں مثلاً موسموں کی تبدیلی میں یہ معاون اور فضاؤں سے آنے والے زہریلے جراثیم کو یہ اپنے اندر جذب کر کے دنیا کے انسانوں کو اس سے محفوظ رکھتا ہے۔ ممکن ہے کہ اسی اوزون کو اس جگہ ” السماء “ فرمایا گیا ہو جو چھت کی طرح ہمارے سروں پر موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنا کر آسمان دنیا کو چاند، سورج اور ستاروں سے خوبصورتی اور زینت بخشی ہے یہ روشن و تاباں قندیلیں اور روشن ومنور چراغ اس دنیا کو حسین تربنا دیتے ہیں۔ فرمایا کہ اس اللہ نے بلندی سے پانی برسا کر پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف کی شکل میں پانی جما دیا جو سال بھر حسین چشموں، جھیلوں ، ندی نالوں کے ذریعہ بہہ کر کائنات کے حسن کو بھی بڑھاتا ہے اور کھیتوں کو ہرا بھرا اور درختوں کو پررونق بنا دیتا ہے اور یہی پانی انسانوں کی تمام ضرورتوں کو بھی پورا کرتا ہے۔ اسی کی قدرت ہے کہ پانی، ہوا مٹی، روشنی اور حرارت ایک جیسی ہے لیکن ہر اگنے والی چیز کی شکل ، صورت اور بناوٹ بالکل مختلف اور انوکھی ہوتی ہے اور ” گلہائے رنگا رنگ سے ہے رونق چمن “ کا سماں بندھ جاتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ زمین، آسمان، چاند، سورج، ستارے ، فضائیں ، ہوائیں اور بارشوں کا یہ نظام اس بات کی کھلی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ یہ اتنا بڑا نظام کائنات خودبخود نہیں چل رہا ہے بلکہ اس کا خالق ومالک اللہ ہے جو اس کو چلا رہا ہے۔ وہی خالق رازق مالک اور پروردگار ہے وہی تنہا عبادت و بندگی کے لائق ہے۔ اس کے سوا اور کوئی رب کائنات نہیں ہے اگر کوئی شخص ان حقیقتوں کے باوجود اللہ کے مقابلے میں کسی اور کو اپنا خالق، مالک اور رب قرار دیتا ہے یا اس کے مقابلے میں کسی اور کو اپنا اللہ مانتا ہے یا اس کی ذات اور صفات میں کسی کو شریک کرنا، بےجان بتوں اور اپنی خواہشات کو معبود بنا لیتا ہے تو انسان کی یہ سب سے بڑی جہالت اور نادانی کی بات ہے۔ اس سارے کلام کا حاصل یہ ہے کہ اللہ نے اس ساری کائنات اور اس میں پائی جانے والی وہ چیزیں جن کے استعمال کی اللہ نے اجازت دی ہے انسان کے جسم و جان کے لئے پیدا کی ہیں لیکن روح کی پیاس بجھانے کے لئے اس نے اپنے محبوب بندے حضرت محمد ﷺ کو بھیجا اور ان کے اوپر اس قرآن کریم کو اتارا جو ہر طرح کے شک و شبہ سے پاک ہے۔ فرمایا جا رہا ہے کہ اس کلام میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی کو یہ گمان ہو کہ نعوذ باللہ اس قرآن کو حضور اکرم ﷺ نے خود گھڑ لیا ہے تو اس قرآن جیسی ایک ہی سورت بنا کرلے آئے۔ فرمایا کہ یہ بات کسی کے بس کی نہیں ہے لہٰذا اپنا وقت ضائع کر کے آخرت کو برباد کرنا اور جہنم کی آگ کا مستحق بن جانا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے چند باتیں عرض ہیں تا کہ یہ بات سمجھ میں آجائے۔ جب نبی مکرم ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا اس وقت اگرچہ عرب میں رہنے والے دنیا کی اکثر قوموں سے بہت پیچھے تھے، اخلاقی اعتبار سے بالکل کھوکھلے، معاشرت اور معیشت میں سب سے پست ، صحیح دین و مذہب کے تصورات سے کورے ، جہالت ، ظلم، بربریت اور درندگی کے پیکر تھے۔ جنگ و جدل ، خون خرابہ، لوٹ کھسوٹ ان کی زندگی کا ایک حصہ بن چکا تھا۔ مگر اس سب کے باوجود انہیں اس بات پر ناز تھا کہ وہ عرب ہیں، زبان والے ہیں اور ساری دنیا ان کے مقابلے میں عجمی یعنی گونگی اور بےزبان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کو گونگا اور بےزبان کہنے والوں سے فرمایا کہ ہمارے حبیب پاک حضرت محمد ﷺ جن کا بچپن، جوانی اور زندگی کا ہر لمحہ تمہارے اندر ہی گزارا ہے ، تم اچھی طرح جانتے ہو کہ وہ نہ لکھنا جانتے ہیں اور نہ پڑھنا، نہ وہ دنیا میں کہیں گھومے اور پھر ہیں۔ اگر تم یہ کہتے ہو کہ اس قرآن کو انہوں نے گھڑ لیا ہے خود سے بنا لیا ہے، (نعوذ باللہ) تو اس قرآن جیسی ایک ہی سورت بنا کرلے آؤ کیونکہ تمہیں تو اپنی زبان دانی اور شعر و شاعری پر بڑا ناز ہے۔ ہمیں اس سلسلہ میں قرآن کریم سے یہ تفصیل ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے تو ان کفار سے فرمایا کہ اس جیسا قرآن ہی بنا کرلے آؤ، پھر فرمایا کہ اس جیسی دس سورتیں ہی بنا کرلے آؤ اور آخر میں فرمایا کہ اچھا ایک ہی سورت بنا کرلے آؤ۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمادیا کہ اس کام کے لئے دنیا بھر سے اپنے حمایتیوں اور مددگاروں کو بلا لاؤ مگر اس چیلنج کا جواب نہ اس وقت دیا گیا اور نہ آج تک دیا گیا ہے اور جن لوگوں نے کوشش کی تو ان کو منہ کی کھانا پڑی۔ فرمایا۔ (1) (اے نبی ﷺ آپ ﷺ کہہ دیجئے کہ جنات اور انسان سب مل کر ایک دوسرے کے مددگار بن کر اگر اس قرآن جیسا لانا چاہیں تو وہ ایسا نہ کرسکیں گے۔ ( سورة بنی اسرائیل) (2) کیا یہ کافر کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اس قرآن کو گھڑ لیا ہے تو (اے نبی ﷺ آپ فرمادیجئے کہ تم اس جیسی دس سورتیں ہی بنا کرلے آؤ اور اللہ کو چھوڑ کر جس کو بھی اپنی مدد کے لئے بلانا چاہتے ہو اس کو بلا لاؤ اگر تم سچے ہو۔ ( سورة ہود) (3) (اے نبی ﷺ آپ کہہ دیجئے کہ تم اس جیسی ایک سورت ہی بنا کرلے آؤ اگر تم سچے ہو۔ ( سورة یونس) یہ تینوں سورتیں مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی جہاں زیادہ تر کفار اور مشرکین سے خطاب تھا لیکن جب نبی مکرم ﷺ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمایا تو وہاں سورة بقرہ میں یہود و نصاریٰ کو زیر مطالعہ آیت میں چیلنج کرتے ہوئے فرمایا کہ : (4) اگر تمہیں اس میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندے (حضرت محمد ﷺ پر نازل کیا ہے تو اس جیسی ایک ہی سورت بنا کرلے آؤ اور اللہ کو چھوڑ کر اپنے تمام حمایتیوں کو بلا لاؤ اگر تم سچے ہو۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا اور (سن لو) کہ تم ایسا کر بھی نہیں سکتے تو اس آگ سے بچو جس میں انسان اور پتھر اس کا ایندھن بن جائیں گے وہ جہنم ایسے منکرین ہی کے لئے بنائی گئی ہے۔ ( سورة بقرہ) اگر غور کیا جائے تو یہ حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس قرآن جیسی ایک سورت کے لانے کے لئے چیلنج کیا ہے اور اس میں یہ شرط نہیں لگائی ہے کہ کون سی سورت بنا کرلے آؤ بلکہ قرآن کی چھوٹی سے چھوٹی سورت بھی بنا کرلے آنے کے لئے فرمایا ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ ایک سورت بنا کر لانے کے لئے تین مرتبہ چیلنج کیا ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ کفار مکہ اور مدینہ کے اہل کتاب ہر طرح کی مخالفت کرتے تھے مگر اس چیلنج کا جواب نہیں دیتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ قرآن کسی انسان کا بنایا ہوا نہیں ہے۔ قرآن کریم کا یہ چیلنج اس وقت بھی تھا اور آج ڈیڑھ ہزار سال گزرنے کے بعد بھی ہے نہ اس وقت جواب دیا گیا نہ آج کسی کی ہمت ہے۔ کہتے ہیں کہ خلیفہ ہارون رشید کے دور میں جبکہ عربی اپنے عروج اور کمال پر تھی اس وقت ابن مقنع نے اس چیلنج کا جواب دینے کی کوشش کی مگر اس کوشش میں ناکام رہا۔ اس کے بعد لبنان کے کچھ عیسائیوں کے بڑے عالم و فاضل لوگوں نے ایک اور کوشش کی مگر برسوں محنت کے باوجود سورة فاتحہ کی سات آیتوں جیسی بھی نہ بنا سکے۔ قرآن کریم آج بھی ساری دنیا کے انسانوں کو یہ دعوت دے رہا ہے کہ اے لوگوآؤ نجات کا راستہ اور روح کی تسکین قرآن کے دامن میں ہی مل سکے گی، اس راستے کو چھوڑ کر جو راستہ بھی اختیار کیا جائے گا وہ انسانوں کو موت کے بھیانک غار کی طرف تو لے جائے گا لیکن زندگی کے ہر سکون سے اس کا دامن خالی ہوجائے گا۔
Top