Baseerat-e-Quran - Al-Baqara : 280
وَ اِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَیْسَرَةٍ١ؕ وَ اَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر كَانَ : ہو ذُوْ عُسْرَةٍ : تنگدست فَنَظِرَةٌ : تو مہلت اِلٰى : تک مَيْسَرَةٍ : کشادگی وَاَنْ : اور اگر تَصَدَّقُوْا : تم بخش دو خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو تَعْلَمُوْنَ : جانتے
اور اگر وہ شخص جس پر قرض ہے تنگ دست ہے تو اس کو خوش حالی تک مہلت دے دو اور اگر تم اس کو معاف ہی کردو تو تمہارے حق میں بہت بہتر ہے اگر تم اس حقیقت سے واقف ہو۔
لغات القرآن : آیت نمبر 280 تا 281 ذو عسرۃ (تنگ دست) ۔ نظرۃ (رعایت کرنا ہے، ڈھیل دینی ہے) ۔ میسرۃ (آسودگی، حالات کی درستگی ، سہولت) ۔ ان تصدقوا (یہ کہ تم معاف کردو، صدقہ کردو) ۔ توفی (پورا پورا دیا جائے گا) ۔ کل نفس (ہرشخص) ۔ لا تظلمون (تم ظلم نہیں کئے جاؤ گے) ۔ تشریح : آیت نمبر 280 تا 281 اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر ایک شخص کا روباری نقصان یا ارضی و سماوی آفات کی وجہ سے اپنا قرض ادا نہیں کرسکتا تو اس کو قرض خواہوں کی طرف سے اس وقت تک مہلت ملنی چاہئے جب تک وہ قرض کو ادا کرنے کے قابل نہ ہوجائے ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اگر قرض کی وہ ادائیگی نہ کرسکتا ہو تو معاشرہ میں اس کو اس طرح بےبس بنا کر رکھ دیا جائے کہ وہ آئندہ کی زندگی میں کبھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل ہی نہ ہو سکے اسی لئے فقہا نے فرمایا ہے کہ ایک شخص کے رہنے کا مکان ، کھانے کے برتن، پہننے کے کپڑے اور وہ چیزیں جن سے وہ اپنا روزگار کماتا ہے کسی حال میں قرق کر کے نیلام نہیں کئے جاسکتے۔ عدالت کی یہ ذمہ داری ہے کہ اگر ایک شخص اپنے حالات سے مجبور ہو کر بےبس ہوچکا ہو اور وہ قرض ادا کرنے کے قابل نہ رہا ہو تو اس کو مہلت دلوائی جائے۔ ایک مرتبہ ایک شخص کا معاملہ نبی کریم ﷺ کے سامنے پیش ہوا جس کو اپنے کاروبار میں زبردست گھاٹا اور نقصان ہوگیا تھا آپ نے لوگوں سے اپیل کی، آپ کی اپیل پر لوگوں نے ان کی امداد کے لئے رقم جمع کی آپ نے وہ قرض خواہوں کو دے کر فرمایا کہ بس اتنا ہی جمع ہوسکا ہے یہ تم لے لو اور بقیہ کو معاف کر دو ۔ خلاصہ یہ ہے کہ مجبوروں کے ساتھ نرمی کا معاملہ کیا جانا چاہئے تا کہ وہ کل معاشرہ کے کارآمد فرد بن سکیں۔
Top