Baseerat-e-Quran - Al-Baqara : 37
فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْهِ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ
فَتَلَقّٰى : پھر حاصل کرلیے اٰدَمُ : آدم مِنْ رَّبِهٖ : اپنے رب سے کَلِمَاتٍ : کچھ کلمے فَتَابَ : پھر اس نے توبہ قبول کی عَلَيْهِ : اس کی اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہ التَّوَّابُ : توبہ قبول کرنے والا الرَّحِیْمُ : رحم کرنے والا
پھر آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمات (الفاظ) سیکھ لئے اور اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی، بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا نہایت مہربان ہے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 37 تا 39 (تلقی): اس نے سیکھ لیا۔ (کلمت): (کلمۃ ) کلمات، الفاظ۔ (تاب علیہ ): وہ اس پر متوجہ ہوا (اس نے اس کی توبہ قبول کرلی) ۔ (التواب): بہت توبہ قبول کرنے والا۔ (یاتینکم ): تمہارے پاس آئے گا۔ (تبع): جس نے اتباع کی (جو پیچھے چلا) ۔ (لا یحزنون): وہ رنجیدہ نہ ہوں گے۔ (کذبوا): انہوں نے جھٹلایا۔ (ایاتنا): ہماری نشانیاں۔ (اصحب النار) : (جہنم والے (صاحب کی جمع ہے، ساتھی) ۔ (خلدون ): ہمیشہ رہنے والے۔ تشریح : آیت نمبر 37 تا 39 اس واقعہ کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو چند ایسے کلمات سکھا دئیے جن کو ادا کرنے کے ساتھ ہی ان کی توبہ قبول کرلی گئی۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ وہ کلمات یہ ہیں۔ ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفر لنا وترحمنا لنکونن من الخسرین نصاریٰ (عیسائیوں) کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) نے گناہ کیا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک ہزاروں لاکھوں سال گزرنے کے باوجود جتنے انسان اس دنیا میں آئے وہ سب کے سب گناہ گار تھے۔ (نعوذ باللہ) پھر اللہ نے اپنے بیٹے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھیجا وہ آدم اور سارے انسانوں کے گناہ اپنی گردن پر لے کر سولی پر چڑھ گئے اور اس طرح سب کے گناہ معاف کر دئیے گئے۔ (نعوذ باللہ) عجیب بات یہ ہے کہ گناہ کوئی کرتا ہے اور سولی پر اس کا بیٹا چڑھا دیا جاتا ہے جس کا اس معاملہ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج اس مہذب دنیا کے کسی قانون میں کیا اس بات کو گوارا کیا جاسکتا ہے کہ قتل کوئی کرے اور پھانسی پر کسی دوسرے کو چڑھا دیا جائے اگر آج دنیا میں کوئی ایسا کام کر بیٹھے تو اس پر ساری دنیا چلا اٹھے گی۔ سوچنے کی بات ہے کہ اللہ پر یہ کتنا بڑا الزام ہے کہ اس نے کسی کا گناہ دوسرے کے سر ڈال دیا (نعوذ باللہ) اور پھانسی پر چڑھانے کے لئے اسے اپنا ہی بیٹا ملا تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ جسے گمراہ کردیتا ہے اس کو کوئی راہ ہدایت نہیں دکھا سکتا۔ بہرحال قرآن کریم نے ایک سادہ سی بات میں سب کچھ کہہ دیا کہ آدم (علیہ السلام) سے لغزش ہوئی، وہ شیطان کے بہکائے میں آگئے۔ لیکن آدم (علیہ السلام) کو جیسے ہی اس کا احساس ہوا کہ ان سے یہ بھول ہوگئی وہ فوراً اللہ کے سامنے جھک گئے اور اپنی اس لغزش پر ندامت کے آنسو بہانا شروع کر دئیے۔ اللہ نے ان کی ندامت اور شرمندگی کو قبول کرتے ہوئے معاف کردیا اس لئے کہ اللہ ہی تو ہے جو اپنے بندوں کے سارے گناہوں کو معاف کردینے والا ہے۔ فرمایا گیا کہ اب دنیا میں میرے رسول اور نبی آتے رہیں گے ان کے ذریعہ سے جب بھی تمہیں میری طرف سے کوئی ہدایت ملے اس کو قبول کرنا۔ اگر تم نے میری تعلیمات کو قبول کیا تو تمہارے لئے نہ تو خوف ہوگا اور نہ کسی قسم کا رنج لیکن میرے رسولوں اور نبیوں کی لائی ہوئی تعلیمات سے جن لوگوں نے منہ پھیرا تو پھر ان کے لئے وہ جہنم تیار کی گئی ہے جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ ربط آیات : پانچویں رکوع سے پندرہویں رکوع کی ابتداء تک ( سورة بقرہ آیت 40 سے آیت 123 تک) مختصر اور چھوٹے چھوٹے جملوں میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر کئے گئے انعامات و احسانات اور ان کے جواب میں بنی اسرائیل کی ناشکریوں، ہٹ دھرمیوں اور احسان فراموشیوں کا ذکر فرمایا ہے۔ اس سے پہلے چار رکوعوں میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان، کفار اور منافقین کا تفصیل سے ذکر کرنے کے بعد تمام انسانی گروہوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ہم نے انسانوں کے جسم کے لئے کائنات کا ذرہ ذرہ اور روح کی تابانیوں کے لئے اپنا کلام عطا فرمایا ہے (جو دین اسلام ہے) وہی دین جو اللہ نے توریت، زبور اور انجیل میں انسانوں کی ہدایت کے لئے نازل کیا تھا اسی نے قرآن کریم جیسی عظیم کتاب نازل فرمائی جس میں اس دین کی تکمیل کردی گئی ہے۔ قرآن کریم وہ کلام ہے جس میں شک وشبہ کرنا یا اس پر اعتراض کرنا سب سے بڑی حماقت ہے کیونکہ یہ انسانی کلام نہیں ہے۔ اگر کسی کو اس بات کا شوق ہے کہ وہ اس جیسا کلام لے کر آسکتا ہے تو فرمایا وہ خود نہیں بلکہ اللہ کے سوا ساری دنیا کے حمایتیوں اور مددگاروں کو بلا کر اس قرآن جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا کر آلے آئے۔ لیکن ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ فرمایا ایسے لوگ کیوں اپنی آخرت برباد کر کے جہنم کا ایندھن بننا چاہتے ہیں۔ فرمایا کہ اگر ان لوگوں نے اپنی روش نہ بدلی تو ان کے جھوٹے اور ان کے انسانی ہاتھوں کے بنائے ہوئے یہ پتھر کے بت سب کے سب جہنم میں جھونک دئیے جائیں گے اور کہیں کسی طرف سے ان کی مدد نہ کی جاسکے گی۔
Top