Baseerat-e-Quran - Az-Zumar : 47
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
يَا بَنِیْ : اے اولاد اِسْرَائِیْلَ : یعقوب اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِیْ : جو اَنْعَمْتُ : میں نے بخشی عَلَيْكُمْ : تم پر وَاَنِّیْ : اور یہ کہ میں نے فَضَّلْتُكُمْ : تمہیں فضیلت دی میں نے عَلَى الْعَالَمِیْنَ : زمانہ والوں پر
اے اولاد یعقوب (علیہ السلام) ! میرے ان احسانات کو یاد کرو جو میں نے تم پر کئے اور میں نے تمہیں دنیا کی ساری قوموں پر بڑائی دی تھی۔
تشریح : آیت نمبر 47 تا 50 ان آیات میں ایک مرتبہ پھر بنی اسرائیل کو بتایا جا رہا ہے کہ دنیا کی جس فضیلت و برتری پر تمہیں فخر وناز ہے وہ عظمتیں اللہ ہی نے تو عطا کی تھیں۔ اگر تم پھر وہی عظمتیں حاصل کرنا چاہتے ہو تو اللہ کے دین سے پوری طرح وابستگی اختیار کرلو۔ اللہ سے اور اس دن سے ڈرتے رہو جس دن تمہارے یہ جھوٹے فخر و غرور کام نہ آسکیں گے نہ کوئی کسی کی سفارش کرسکے گا، نہ کچھ دے دلا کر چھوٹ سکے گا اور نہ کسی کی طرف سے مدد کی جائے گی وہاں محض انبیاء کی نسبت پر نازل کرنا اور جھوٹے معبودوں کے وہ سہارے جنہوں نے تمہیں گناہوں کی دلدل میں پھنسا دیا ہے کسی کام نہ آسکیں گے وہاں صرف اللہ سے کیا ہوا عہدو پیمان، ایمان اور عمل صالح کام آئیں گے۔ ان نصیحت آموز باتوں کے بعد بنی اسرائیل کی زندگی کے چند اہم واقعات قرآن کریم میں انتہائی اختصار سے بیان کئے جا رہے ہیں یہ واقعات جو عرب کے بچے بچے کی زبان پر تھے اور سب کو اچھی طرح معلوم تھے وہ ان کے لئے سامان عبرت ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد حضرت یعقوب (علیہ السلام) تک ان کی اولاد (کنعان) فلسطین میں رہی۔ پھر بھائیوں کے بغض وحسد کی بناء پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کو غلام کی حیثیت سے مصر پہنچایا گیا، بادشاہ مصر کے پاس ان کو بہت زیادہ عروج اور ترقی نصیب ہوئی۔ جب کنعان میں شدید قحط پڑا تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور ان کے بارہ بیٹے مصر ہی میں آباد ہوگئے۔ مصر میں اللہ نے ان کی اولاد کو خوب بڑھایا اور کئی سو سال کے بعد تو ان کی اولاد اور ایمان والوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی تھی ان کو بنی اسرائیل کہا جانے لگا یوسف (علیہ السلام) کے وصال اور فرعون کے مرکھپ جانے کے بعد مصعب فرعون تخت سلطنت پر بیٹھا، اس کو بنی اسرائیل سے اس قدر نفرت اور عداوت تھی کہ اس نے ان کو ذلیل کرنے کے لئے تمام وہ طریقے اختیار کئے جن سے وہ معاشرہ کے سب سے معمولی کام کرنے والے بن کر رہ گئے۔ ادنیٰ کاموں کے علاوہ تمام محنت و مشقت کے کام کھیتی باڑی اور اینٹ گارے کا کام لیا جا نے لگا، ہر فرعونی کی خدمت کرنا ان کا فرض تھا، ان پر اتنے زبردست ٹیکس لگائے گئے تھے کہ ان کی کمر دھری ہو کر رہ گئی۔ اس سب کے باوجود بنی اسرائیل کی نسل بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی تھی اس سے فرعون کو اور بھی پریشانی تھی اس لئے اس نے بنی اسرائیل کے تمام بچوں کے قتل عام اور لڑکیوں کو زندہ رکھنے کا حکم دیا تا کہ وہ لڑکیاں جو ان ہو کر ان کی لونڈیاں بن سکیں۔ غرضیکہ فرعون نے ہر اعتبار سے بنی اسرائیل کو تہس نہس کر کے رکھ دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو اس پر قوم پر رحم آگیا اور عمران کے گھر میں ایک خوبصورت بیٹا پیدا فرمایا جس کا نام موسیٰ (پانی سے نکالا گیا) رکھا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ان کو فرعون کے محل میں پرورش کرا دیا اور بتا دیا کہ اس کائنات میں ساری طاقت وقدرت اللہ ہی کی ہے، موسیٰ (علیہ السلام) جو ان ہوئے انہوں نے بنی اسرائیل کو نصیحت کی اور بتایا کہ تمہاری ان ذلتوں کی وجہ صرف یہ ہے کہ تم نے اس سچے راستے کو چھوڑ دیا جو اللہ کے انبیاء کا اور نیک لوگوں کا راستہ ہے۔ اگر تم پھر سے عظمتیں حاصل کرنا چاہتے ہو تو اللہ کے دین کو اختیار کرو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خطبات سے قوم بنی اسرائیل میں ایک نیا ولولہ اور جوش پیدا ہوا اور انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی عظمت کو تسلیم کرلیا ادھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو طرح طرح کے معجزات دکھلائے مگر وہ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر اڑا رہا۔ ایک دن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے بڑی راز داری کے ساتھ اپنی قوم کو اس بات پر تیار کرلیا کہ راتوں رات مصر سے نکل جائیں تا کہ فرعون کے ظلم سے نجات حاصل ہو سکے۔ ایک رات پوری قوم بنی اسرائیل مصر سے روانہ ہوگئی۔ یہ قوم سمندر (بحر قلزم) کے کنارے پر پہنچی ہی تھی کہ فرعون کو اطلاع ہوگئی اور وہ ایک بہت بڑا لشکر لے کر بنی اسرائیل کے تعاقب میں روانہ ہوگیا۔ جب بنی اسرائیل کو اس کی اطلاع ملی کہ فرعون اور اس کا لشکر ان کے تعاقب میں بڑھا چلا آرہا ہے تو وہ اس تصور سے بوکھلا گئے کہ آگے سمندر ہے اور پیچھے فرعون کا لشکر، دائیں بائیں بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں ہے اس وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے اپنے عصا کو سمندر پر مارا تو اس میں بارہ راستے بن گئے اور بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک بخیریت پہنچ گئے۔ سمندر میں راستے ابھی اسی طرح بنے ہوئے تھے کہ فرعون اور اس کا لشکر وہاں پہنچ گیا اس نے سمندر میں راستے دیکھ کر اسی میں فوج کو داخل ہونے کا حکم دے دیا۔ جب فرعون اور اس کا لشکر سمندر کے درمیان میں پہنچ گئے تو اللہ کے حکم سے پانی پھر مل گیا اور فرعون اور اس کے تمام لشکری ڈوب گئے۔ فرعون کے ظلم سے نجات فرعون اور قوم فرعون کے غرق ہونے تک ان دو واقعات کی طرف ان آیات میں یاد دھانی کرائی گئی ہے کہ ظالم کے ظلم سے نجات اور فرعون اور اس کی قوم کے غرق کرنے میں تمہارے اوپر کتنا بڑا انعام تھا مگر تم نے اللہ کا شکر ادا کرنے بجائے تکبر اور غرور کا راستہ اختیار کیا۔
Top