Baseerat-e-Quran - Al-Baqara : 51
وَ اِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰۤى اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ
وَاِذْ وَاعَدْنَا : اور جب ہم نے وعدہ کیا مُوْسَىٰ : موسیٰ اَرْبَعِیْنَ لَيْلَةً : چالیس رات ثُمَّ : پھر اتَّخَذْتُمُ : تم نے بنا لیا الْعِجْلَ : بچھڑا مِنْ بَعْدِهِ : ان کے بعد وَاَنْتُمْ ظَالِمُوْنَ : اور تم ظالم ہوئے
یاد کرو جب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا تھا۔ پھر تم نے (ان کے جانے کے بعد) ایک بچھڑا بنا کر (اس کی عبادت شروع کردی تھی) تم بہت زیادتی کرنے والے بن گئے تھے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 51 تا 54 (وعدنا): ہم نے وعدہ کیا۔ (اربعین): چالیس۔ (لیلۃ): رات۔ (اتخذتم): تم نے بنایا ۔ (العجل): بچھڑا (گائے کا بچہ) ۔ (عفونا): ہم نے معاف کردیا۔ (من بعد ذلک): اس کے بعد۔ (تشکرون): تم شکر کرو گے۔ (اتینا) : ہم نے دیا۔ (الفرقان): حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والی چیز۔ (تھتدون): تم ہدایت حاصل کرو گے۔ (ظلمتم): تم نے ظلم کیا۔ (اتخاذ): بنانا، بنا کر۔ (توبوا): تم توبہ کرو۔ (بارئی): پیدا کرنے والا۔ (اقتلوا): تم قتل کرو۔ (انفسکم): اپنوں کو (نفس کی جمع) ۔ (خیر): بہتری، بھلائی۔ تشریح : آیت نمبر 51 تا 54 فرعون اور اس کے لشکر کی تباہی و بربادی کے بعد اللہ نے نبی اسرائیل کو فرعون کے ظلم و ستم سے نجات عطا فرمادی تھی اب رب العالمین کی حکمت کا بھی یہی تقاضا تھا اور قوم بنی اسرائیل بھی یہی چاہتی تھی کہ ان کو کوئی مستقل شریعت یا مستقل کتاب عطا کردی جائے تا کہ وہ اس پر عمل کر کے اس کو زندگی کا دستور العمل بنا سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو کتاب و شریعت عطا کرنے کے لئے تیس راتوں تک کوہ طور پر رہنے کا حکم فرمایا۔ تیس راتیں گزرنے کے بعد انہیں دس راتوں کا اضافہ کر کے چالیس کردیا گیا، ادھر سامری نے جو ایک عیار مکار جادوگر تھا قوم کو بہکا کر ان کے لئے ایک بچھڑا بنایا اور کہا کہ یہی تمہارا معبود ہے اس کی بندگی کرو۔ بچھڑا جس سے عجیب و غریب آوازیں بھی نکلتی تھیں بہت سے ضعیف العقیدہ لوگوں نے اللہ کی بندگی کو چھوڑ کر اس کی پوجا کرنا شروع کردی مگر ان ہی میں بہت بڑی تعداد ایسے پختہ عقیدے کے لوگوں کی بھی تھی جنہوں نے بچھڑے کی پوجا نہیں کی۔ چالیس دن کے بعد جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) واپس تشریف لائے اور قوم کے لوگوں کا یہ حال دیکھا تو آپ بہت رنجیدہ ہوئے اور شدید غصے کا اظہار کیا اللہ نے اس قوم کو توبہ کا طریقہ بتایا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اب تمہاری توبہ قبول ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو مرتد ہوگئے ہیں جنہوں نے بچھڑے کی پوجا کی ہے ان کو وہ لوگ قتل کریں گے جنہوں نے بچھڑے کی پرستش نہیں کی تھی۔ چناچہ ان دونوں جماعتوں کو ایک میدان میں جمع کیا گیا ایک سیاہ بادل کا سایہ چھا گیا جس سے اندھیرا ہوگیا پھر ان مرتدین کا قتل عام شروع ہوا جب ستر ہزار مرتدین بنی اسرائیل قتل کر دئیے گئے تو وہ سیاہی چھٹ گئی اور اس طرح ساری قوم کے گناہ کو معاف کردیا گیا۔ یہ سزا اس لئے دی گئی تھی کہ اسلام میں مرتد کی یہی سزا ہے یعنی جو دین اسلام کو چھوڑ کر کوئی دوسرا مذہب اختیار کرے گا ایسے آدمی کو اللہ کا باغی قرار دیا جاتا ہے اور باغی کو سزا دنیا کے ہر قانون میں کچھ اسی طرح ہوا کرتی ہے۔
Top