Baseerat-e-Quran - Al-Baqara : 57
وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰى١ؕ كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ١ؕ وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ
وَظَلَّلْنَا : اور ہم نے سایہ کیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْغَمَامَ : بادل وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے اتارا عَلَيْكُمُ : تم پر الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى : من اور سلوا كُلُوْا : تم کھاؤ مِنْ ۔ طَيِّبَاتِ : سے۔ پاک مَا رَزَقْنَاكُمْ : جو ہم نے تمہیں دیں وَ مَاظَلَمُوْنَا : اور انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا وَلَٰكِنْ : لیکن کَانُوْا : تھے اَنْفُسَهُمْ : اپنی جانیں يَظْلِمُوْنَ : وہ ظلم کرتے تھے
ہم نے تمہارے اوپر بادل کا سایہ کیا، من وسلوی نازل کیا (اور کہا گیا) ہم نے تمہیں جو پاکیزہ چیزیں دی ہیں ان میں سے کھاؤ (اس کے بعد ) انہوں نے ہمارا تو کچھ نہیں بگاڑا البتہ وہ اپنے ہی نفسوں پر ظلم کرتے رہے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 57 ظلمنا (ہم نے سایہ کردیا) ۔ الغمام (بادل، ابر) ۔ من (من، دھنیے کے دانوں کی طرح لذیذ اور شیریں روٹی کی طرح) ۔ السلوی (سلوی، (صحرائے سینا کا پرندہ ، بٹیر) ۔ ظلموا (انہوں نے ظلم کیا) ۔ ما ظلمونا (انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا) ۔ یظلمون (وہ ظلم و زیادتی کرتے ہیں۔ تشریح : آیت نمبر 57 بنی اسرائیل کا اصل وطن شام (فلسطین ) تھا حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور ان کے تمام بیٹے کنعان سے مصر آگئے تھے۔ اس وقت تو ان کی تعداد بہتر (72) تھی لیکن پھر ان کے بارہ بیٹوں کی اولاد پھیلتی گئی اور بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے بن گئے۔ عمالقہ کا دور حکومت تھا جنہوں نے اس پورے علاقے پر قبضہ کر رکھا تھا، عمالقہ نے نافرمانیوں اور بدکاریوں کی انتہا کردی تھی اس لئے بنی اسرائیل کو ان سے جہاد کر کے اس سرزمین کو آزاد کرانے کا حکم دیا گیا ، بنی اسرائیل نے صاف جواب دے دیا اور جہاد کرنے سے انکار کردیا جہاد سے انکار کی سزا یہ دی گئی کہ ان کو چالیس سال تک تیہ کے ریگستان کی خاک چھاننا پڑی۔ ان سب نافرمانیوں کے باوجود اللہ جس نے ہر ایک کو رزق اور زندگی کی آسائشیں عطا کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے ان کو من وسلوی ، پانی اور ریگستان کی شدید گرمی سے بچاؤ کے لئے بادل کا سایہ عطا فرمایا۔ بنی اسرائیل مصر سے جس بےسروسامانی میں لاکھوں کی تعداد میں نکلے تھے ان کے پاس خیمے تک نہ تھے، اگر ان پر بادل کا سایہ نہ کردیا گیا ہوتا تو وہ گرمی اور دھوپ کی شدت سے ہلاک ہوجاتے۔ “ من ” شیریں، لذیذ اور عمدہ غذا تھی۔ دھنیے کے دانوں کی طرح ہوتی تھی جہاں گرتی جم جاتی ۔ سلوی جو ریگستان سینا کا خاص پرندہ بٹیر ہے وہ لاکھوں کی تعداد میں ان کے اس قریب آجاتے کہ ایک بچہ بھی ان کو سہولت سے پکڑ سکتا تھا، بنی اسرائیل رات کے اندھیرے میں ان کو پکڑتے اور پھر ان کا گوشت پکا کر کھاتے۔ روٹی کی جگہ من عطا کی گئی تھی جو سختی میں روٹی کی طرح ہوتی تھی یہ بنی اسرائیل کے لئے اللہ کی طرف سے ایک انعام تھا مگر انہوں نے اس کی بھی قدر نہ کی اور اپنی مسلسل نافرمانیوں میں لگے رہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جو شخص نافرمانیوں میں لگا رہتا ہے اصل میں اپنا ہی نقصان کرتا ہے اور اپنی دنیا و آخرت برباد کرتا ہے۔ مگر ایسے لوگ اللہ کا تو کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے البتہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی ضرور مار لیتے ہیں۔
Top