Baseerat-e-Quran - Al-Baqara : 67
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖۤ اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا١ؕ قَالَ اَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ
وَ : اور اِذْ : جب قَالَ : کہا مُوْسٰى : موسیٰ نے لِقَوْمِهٖٓ : اپنی قوم سے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ تعالیٰ يَاْمُرُكُمْ : حکم دیتا ہے تم کو اَنْ : یہ کہ تَذْبَحُوْا : تم ذبح کرو بَقَرَةً : ایک گائے قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اَتَتَّخِذُنَا : کیا تم کرتے ہو ہم سے ھُزُوًا : مذاق قَالَ : اس نے کہا ( موسیٰ ) اَعُوْذُ : میں پناہ مانگتا ہوں بِاللّٰهِ : اللہ کی (اس بات سے اَنْ : کہ اَكُوْنَ : میں ہوجاؤں مِنَ : سے الْجٰهِلِيْنَ : جاہلوں میں سے
اور جبموسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے۔ کہنے لگے کیا تم ہم سے مذاق کر رہے ہو۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں۔
لغات القرآن : آیت نمبر 67 تا 74 یامر (وہ حکم دیتا ہے) ۔ تذبحوا (تم ذبح کرو) ۔ بقرۃ ( گائے ، بیل) ۔ اتتخذنا (کیا تو ہم کو بناتا ہے ، (تو ہم سے کرتا ہے) ۔ ھذو (مذاق) ۔ ان اکون (یہ کہ میں ہوجاؤں) ۔ یبین (بیان کر دے ، بات کھول کر کہہ دے) ۔ ماھی (وہ (بقرہ) کیسی ہو) ۔ فارض (بوڑھی) ۔ بکر (بچھیا، کمر عمر) ۔ عوان (درمیانی) ۔ فافعلوا (پھر تم کرو (ف۔ پھر، افعلوا تم کرو) ۔ تؤمرون (تمہیں حکم دیا گیا) ۔ مالونھا (اس کا رنگ کیسا ہو ؟ (ما، کیا، لون رنگ) ۔ صفراء (زرد) ۔ فاقع (گہرا) ۔ تسر (خوش کردیتی ہے) ۔ النظرین (دیکھنے والے) ۔ تشابہ (شبہ پڑگیا) ۔ لا ذلول (جس سے محنت نہ لی گئی ہو وہ ہل میں نہ جوتی گئی ہو) ۔ تثیر الارض (زمین کو (نہ) گا ہتی ہو) ۔ لاتسقی (سینچتی نہ ہو) ۔ الحرث (کھیتی باڑی) ۔ مسلمۃ (مکمل ، تندرست) ۔ لاشیۃ (داغ نہ ہو، عیب نہ ہو) ۔ الان (اب) ۔ جئت (تو آیا (جئت بالحق تو حق کو لے کر آیا) ۔ فذبحوا (انہوں نے ذبح کیا (ف، پھر، ذبحو، انہوں نے ذبح کیا) ۔ ما کا دوا (وہ قریب نہ تھے (ما کا دوا یفعلون وہ کرنا نہیں چاہتے تھے) ۔ قتلتم ( تم نے قتل کیا) ۔ ادرءتم ( تم ایک دوسرے پر ڈالنے لگے) ۔ مخرج (نکالنے والا) ۔ اضربوا (تم مارو) ۔ ببعضھا (اس کا حصہ (گائے کا ٹکڑا) ۔ یحییٰ (وہ زندہ کرتا ہے، کرے گا) ۔ الموتی ( مردے) ۔ یری (وہ دکھاتا ہے) ۔ قست (سخت (ہوگئے) ہوئی) ۔ الحجارۃ (پتھر، (الحجر کی جمع ہے) ۔ اشد قسوۃ (سخت ترین) ۔ یتفجر (جاری ہوتا ہے) ۔ یشقق (پھٹ پڑتا ہے، شق ہوجاتا ہے) ۔ الماء (پانی) ۔ یھبط (گرپڑتا ہے) ۔ خشیۃ اللہ (اللہ کا خوف) ۔ تشریح : آیت نمبر 67 تا 74 بنی اسرائیل کا ایک دولت مند شخص جس کا نام عامیل تھا وہ قتل کردیا گیا۔ اس کا ایک ہی لڑکا تھا۔ اس بوڑھے کے بھتیجوں نے وراثت کے لالچ میں اس کو قتل کردیا۔ لاش کو شہر کے دروازے پر پھنک آئے ۔ صبح کو خود ہی شور مچانا شروع کردیا اور خون کا بدلہ لینے کا دعویٰ کردیا۔ بات اس وقت اور بھی بڑھ گئی جب وہ لوگ ایک دوسرے پر الزام لگانے لگے، جہالت عام تھی اس الزام کو ہر ایک نے اپنی عزت کا مسئلہ بنا لیا اور ایک دوسرے کے خلاف تلواریں لے کر نکل پڑے اور اس طرح شدید خانہ جنگی کا خطرہ بڑھ گیا۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم موسیٰ کے پاس چلتے ہیں اس کا دعویٰ ہے کہ وہ اللہ سے کلام کرتا ہے اگر قاتل کا پتہ بتا دیتا ہے تو ہمارا مسئلہ حل ہوجائے گا اور اگر نہ بتایا تو موسیٰ سے بھی ہماری جان چھوٹ جائے گی سب جمع ہو کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس پہنچے اور کہنے لگے اے موسیٰ اگر تم اپنے اللہ سے قاتل کا نام پوچھ کر بتا دو تو ہم ایک بہت بڑی مصیبت سے چھوٹ جائیں گے۔ موسیٰ (علیہ السلام) طور پر گئے، واپس آکر انہوں کہا کہ ایک گائے ذبح کرو پھر اس گائے کے گوشت کے ایک ٹکڑے کو مرنے والے کے جسم سے لگاؤ وہ اٹھ کر بیٹھ جائے گا اور اپنے قاتل کا نام بتا دے گا۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ فرمایا تو بنی اسرائیل نے کہا ، موسیٰ کیا تم ہم سے مذاق کر رہے ہو ؟ ہم تم سے قاتل کا نام معلوم کر رہے ہیں اور تم ہمیں گائے ذبح کرنے کا مشورہ دے رہے ہو، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اللہ کی پناہ کیا میں اللہ تعالیٰ کے احکامات بیان کرنے میں جاہلوں کی طرح کا انداز اختیار کروں گا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس جواب سے وہ چھپ ہوگئے۔ مسئلہ یہ تھا کہ وہ گائے کہ پرستش کرتے تھے اگر گائے ذبح کرتے ہیں تو معبود کے گلے پر چھری پھرتی ہے اور اگر گائے ذبح نہیں کرتے تو قوم کی گردشنیں کٹتی ہیں۔ اس کشمکش میں غالباً انہوں نے سوچا ہوگا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اس قدر سوالات کئے جائیں کہ بالاخر تھک ہار کر وہ کہہ دیں کہ اچھا گائے کے بدلے کوئی اور جانور ذبح کرلو۔ لیکن اللہ جو تمام انسانوں کی عقلوں کو پیدا کرنے والا ہے ان کی چالا کیوں سے عاجز تو نہیں ہو سکتا تھا، چناچہ اب انہوں نے سوالات کرنا شروع کر دئیے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہر مرتبہ طور پر جاتے اور ان کے سوال کا جواب لے کر آتے، کبھی کہتے وہ آخر کیسی گائے ہونی چاہئے ؟ اس کا رنگ کیسا ہو ؟ اس کی شکل و صورت کیسی ہو ؟ وغیرہ انہوں نے اتنے سوالات کئے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے تمام جوابات کے بعد وہ خود ہی مصیبت میں پھنس گئے ورنہ اگر پہلے ہی حکم کے بعد کسی بھی گائے کو ذبح کرلیتے تو ان کا مسئلہ حل ہو سکتا تھا۔ اب ان تمام مخصوص نشانیوں کی گائے کا ملنا مشکل ہوگیا۔ ساری قو م ان نشانیوں والی گائے کو تلاش کر رہی تھی مگر وہ گائے نہ مل سکی۔ کسی طرح ان کو معلوم ہوا کہ فلاں جگہ ایک گائے ہے جس میں یہی تمام خصوصیات موجود ہیں یہ سن کر بنی اسرائیل دوڑ پڑے۔ اس سلسلہ میں صاحب درمنثور حضرت وہب ابن منبہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ایک نیک اور متقی آدمی تھا اس کا ایک ہی لڑکا تھا، اس کے پاس صرف ایک ہی گائے کا بچہ تھا اس نے مرتے وقت اس گائے کے بچے کو اللہ کے سپرد کرتے ہوئے دعا کی۔ اے اللہ یہ گائے اور اپنا بیٹا میں آپ کے سپرد کرتا ہوں، آپ ہی سب کے کارساز ہیں۔ اللہ کے سپرد کر کے اس نے گائے کے بچے کو جنگل میں چرنے کے لئے چھوڑ دیا۔ اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ جب یہ میرا لڑکا جوان ہوجائے تو وہ اللہ سے دعا کرے کہ وہ بچھیا میرے پاس آجائے تو وہ آجائے گی۔ یہ لڑکا جب بڑا ہوا تو خود بھی بڑا نیک لڑکا اور اپنی ماں کا بہت خدمت گزار تھا، ماں کے حکم کے بغیر کوئی کام نہ کرتا تھا۔ محنت مزدوری کر کے جو بھی کما کر لاتا اس میں سے ایک تہائی خیرات کرتا، ایک تہائی خود خرچ کرتا اور ایک تہائی مال ماں کو دے دیا کرتا تھا۔ ماں نے یہ تاکید کی کہ اس گائے کو اس وقت تک نہ فروخت کرنا جب تک مجھ سے نہ پوچھ لو۔ بنی اسرائیل تلاش کرتے ہوئے اس لڑکے تک پہنچ گئے، اور گائے خریدنے کے لئے کہا لڑکے نے کہا میں جب تک اپنی ماں سے نہ پوچھ لوں اس وقت تک یہ گائے فروخت نہ کروں گا۔ چناچہ یہ اس کی ماں کے پاس پہنچے تو اس نے کہا اگر تم اونٹ کی کھال بھر کر سونا دیتے ہو تو میں فروخت کرتی ہوں ورنہ نہیں۔ بنی اسرائیل مجبور تھے۔ منہ مانگی قیمت ادا کی، گائے کو ذبح کر کے اس کے گوشت کا ٹکڑا مرنے والے کے جسم سے لگایا۔ مقتول نے اٹھ کر قاتل کا نام بتا دیا اور پھر وہ دوبارہ مر گیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے یہ بات ثابت کردی کہ معبود وہ نہیں ہے جس کے گلے پر چھری پھرجائے بلکہ معبود وہ ہے جس کے حکم سے چھری گائے کے گلے پر چلائی جا رہی ہے۔ اس واقعہ کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بنی اسرائیل کے دلوں میں نرمی اور گداز پیدا ہوتا اس کے برخلاف اتنے بڑے احسان اور کرم کے بعد بھی ان کے دل پتھروں سے زیادہ سخت ہوگئے۔ اس واقعہ سے چند نتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں جو بنی اسرائیل کی زندگی کا ایک اہم واقعہ ہے اور اس سورت کا نام رکھے جانے کا سبب بھی ہے۔ (1) جو چیز اللہ کے سپرد کی جاتی ہے اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ (2) جو بھی قتل ناحق کیا جاتا ہے وہ لاکھ چھپانے سے بھی چھپ نہیں سکتا اسی طرح جو لوگ دوسروں پر جھوٹے الزامات لگاتے ہیں وہ بات بھی چھپی نہیں رہتی بلکہ ایک دن آتا ہے جب تمام رازوں سے پردے اتھا دئیے جاتے ہیں۔ (3) ماں باپ کی اطاعت آخرت میں نجات کا باعث ہے وہیں دنیا میں بھی خیرو برکت کا ذریعہ ہے۔ (4) وہی بات پوچھنی چاہئے جو انسان کو دنیا وآخرت میں فائدہ دینے والی ہو۔ بےت کے سوالات اور الٹی سیدھی باتیں کرنا کوئی اچھی بات نہیں ہے اس سے انسان خود ہی مصیبت میں پھنس جاتا ہے۔ (5) اللہ تعالیٰ کو پوری قدرت حاصل ہے کہ وہ اسی طرح تمام مرے ہوئے لوگوں کو دوبارہ زندہ کر دے گا اور ان سے ان کے اعمال کا پورا پورا حساب لے گا۔ (6) کسی جرم کے ساتھ جب حیلہ بازی، کٹ حجتی، ڈھٹائی اور جسارت بھی شامل ہوجائے تو ایسے مجرموں کے دل پتھروں سے زیادہ سخت ہوجایا کرتے ہیں جس کے بعد نیکی اور تقوی کے بڑھنے کی صلاحیت اندر ہی اندر بالکل ختم ہوجاتی ہے۔ (7) انسان اگر اپنے آپ کو بگاڑ لیتا ہے تو آہستہ آہستہ اللہ کے قانون کے مطابق ان تمام صلاحیتوں سے محروم ہوجاتا ہے جو اللہ نے اس کے اندر رکھ دی ہیں۔ پتھر سخت سے سخت ہو کر بھی پتھر ہی رہتا ہے۔ اس کے اندر پانی کے چشمے جاری ہونے کی صلاحیت اگر قدرت نے رکھی ہے تو اس سختی کے باوجود یہ چیز اس کے اندر باقی رہتی ہے۔ لیکن اگر انسان کا دل اخلاقی بیماریوں کی وجہ سے سخت ہوجائے تو اس کے دل کے تمام سوتے بالکل خشک ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو شخص ایک دفعہ بگڑ جاتا ہے اس کو (اللہ کے سوا) ساری دنیا مل کر بھی سنوار نہیں سکتی۔
Top