Baseerat-e-Quran - Al-Baqara : 87
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ قَفَّیْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِ١٘ وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ١ؕ اَفَكُلَّمَا جَآءَكُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَهْوٰۤى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ١ۚ فَفَرِیْقًا كَذَّبْتُمْ١٘ وَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ اٰتَيْنَا : ہم نے دی مُوْسٰى : موسیٰ الْكِتَابَ : کتاب وَ : اور قَفَّيْنَا : ہم نے پے درپے بھیجے مِنْ بَعْدِهٖ : اس کے بعد بِالرُّسُلِ : رسول وَاٰتَيْنَا : اور ہم نے دی عِیْسَى : عیسیٰ ابْنَ : بیٹا مَرْيَمَ : مریم الْبَيِّنَاتِ : کھلی نشانیاں وَ : اور اَيَّدْنَاهُ : اس کی مدد کی بِرُوْحِ الْقُدُسِ : روح القدس کے ذریعہ اَ فَكُلَّمَا : کیا پھر جب جَآءَكُمْ : آیا تمہارے پاس رَسُوْلٌ : کوئی رسول بِمَا : اس کے ساتھ جو لَا : نہ تَهْوٰى : چاہتے اَنْفُسُكُمُ : تمہارے نفس اسْتَكْبَرْتُمْ : تم نے تکبر کیا فَفَرِیْقًا : سو ایک گروہ کَذَّبْتُمْ : تم نے جھٹلایا وَفَرِیْقًا : اور ایک گروہ تَقْتُلُوْنَ : تم قتل کرنے لگتے
اور بلاشبہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی اور ایک کے بعد دوسرا رسول بھیجتے رہے اور مریم کے بیٹے عیسیٰ (علیہ السلام) کو ہم نے کھلے ہوئے معجزات دئیے اور روح القدس (جبرائیل) کے ذریعہ ان کو قوت و طاقت دی۔ کیا ایسا نہیں ہوا کہ جب بھی تمہارے پاس کوئی رسول وہ حکم لے کر آیا جو تمہاری خواہشات نفس کے خلاف تھا تو تم نے سرکشی ہی اختیار کی۔ ایک جماعت کو تم نے جھٹلا دیا اور ایک جماعت (انبیاء) کو تم نے قتل کیا
لغات القرآن : آیت نمبر 87 تا 88 اتینا (ہم نے دیا) ۔ قفینا (ایک کے بعد دوسرے کو ہم نے بھیجا) ۔ ایدناہ (ہم نے اس کو قوت دی) ۔ روح القدس (جبرئیل (پیغمبروں پر وحی لانے والا فرشتہ) ۔ افکلما (کیا پھر ایسا نہیں ہوا کہ جب کبھی بھی ) ۔ لا تھوی (پسند نہ تھا، خواہش نہ تھی) ۔ کذبتم (تم نے جھٹلایا) ۔ غلاف (غلاف، (محفوظ رکھنے کی چیز) ۔ لعن (لعنت کی، لعنت کے معنی ہیں اللہ کی رحمت سے دوری) ۔ تشریح : آیت نمبر 87 تا 88 اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے نظام کو درست رکھنے کے لئے پاکیزہ نفس پیغمبروں (علیہ السلام) کو انسانوں کی ہدایت کے لئے مسلسل ایک کے بعد ایک ہزاروں کی تعداد میں بھیجا تا کہ بھٹکے ہوئے انسانوں کی مسیحائی کرتے رہیں۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) گمراہ انسانوں کو اللہ کے احکامات ، کھلی نشانیوں اور معجزات کے ذریعہ راہ مستقیم پر چلاتے رہے۔ وہ دل جن میں سچائی قبول کرنے کی اہلیت و صلاحیت تھی انہوں نے ہر معقولیت کو قبول کیا۔ لیکن وہ جنہوں نے اپنے دلوں پر حق بات کو نہ سمجھنے کی مہریں لگا رکھی تھیں فخر سے کہتے تھے کہ ہمارے دلوں پر کسی کی سچی بات کا اثر نہیں ہوتا ہمارے دلوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں اللہ نے فرمایا کہ یہ فخر کی بات نہیں بلکہ اللہ کی لعنت اور پھٹکار ہے جو ان کے دلوں پر چھائی ہوئی تھی مگر وہ اس لعنت کو بھی اپنے لئے رحمت سمجھتے تھے۔ یہی لوگ ہمیشہ اللہ کے پیغمبروں کی تعلیمات سے انکار کرتے ان کی توہین کرتے اور حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا (علیہ السلام) جیسے پیغمبروں کو ناحق قتل کرنا اپنا کارنامہ سمجھتے تھے ان پیغمبروں کے بعد حضرت عیسیٰ ابن مریم بھی تشریف لائے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے پیدائشی اندھوں کو آنکھیں، کوڑھیوں کو شفاء، مردوں کو زندگی اور غیب کی باتیں بتا کر کھلے معجزات دکھائے مگر پھر بھی یہودیوں نے نہ صرف یہ کہ ان کی تعلیمات کو جھٹلایا بلکہ ان سے شدید دشمنی کا مظاہرہ کیا۔ کبھی وہ ان کو جادوگر کہتے اور کبھی کہتے کہ شیطان اور بھوتوں کا سردار بعل زبول ان کی مدد کرتا ہے (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کی مدد بعل زبول نہیں بلکہ وہی جبرئیل ان کی تائید اور حفاظت کرتے تھے جنہوں نے اللہ کے حکم سے تمام انبیاء کرام کی تائید اور حفاظت کی ہے۔ بات یہ ہے کہ ان کے لئے اصل چیز ان کی اپنی خواہش تھی، اسی خواہش نفس کے خلاف جو بھی بات کہی جاتی اس کو وہ رد کرنا اپنا قومی فریضہ سمجھتے تھے۔ اور یہی ان کے لئے اللہ کی سب سے بڑی لعنت رہی ہے۔
Top