Baseerat-e-Quran - Al-Anbiyaa : 11
وَ كَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْیَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَّ اَنْشَاْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ
وَكَمْ قَصَمْنَا : اور ہم نے کتنی ہلاک کردیں مِنْ : سے قَرْيَةٍ : بستیاں كَانَتْ : وہ تھیں ظَالِمَةً : ظالم وَّاَنْشَاْنَا : اور پیدا کیے ہم نے بَعْدَهَا : ان کے بعد قَوْمًا : گروہ۔ لوگ اٰخَرِيْنَ : دوسرے
اور کتنی ہی بستیاں ہم نے ہلاک کردیں جن کے رہنے والے ظلم و ستم کرتے تھے اور ہم نے ان کے بعد دوسری قوم کو اٹھایا۔
لغات القرآن آیت نمبر 11 تا 20 قصمنا (قصم) ہم نے توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ ظالمۃ ظلم و زیادتی، بدکاری کرنے والی۔ انشانا ہم نے اٹھا کھڑا کیا۔ باس عذاب یرکضون وہ بھاگتے ہیں۔ اترفتم تمہیں راحتیں /آسائشیں دی گئیں۔ یویلنا اے ہماری بد نصیبی، بدبختی۔ ما زالت ہمیشہ۔ حصید کٹی ہوئی کھیتی۔ خامدین بجھنے والے، راکھ ہوجانے والے۔ لھو کھیل، کھلونا۔ نقذف ہم پھینک مارتے ہیں۔ ضرب لگاتے ہیں۔ یدمغ (دمغ) دماغ نکال دینا، سرپھوڑ دینا۔ زاھق (زھوق) مٹج انے والا۔ لایستحسرون وہ نہیں تھکتے۔ تشریح : آیت نمبر 11 تا 20 ابتدائے کائنات سے آج تک اللہ تعالیٰ کا یہی دستور رہا ہے کہ حق و باطل، سچ اور جھوٹ کے درمیان جنگ میں فتح و نصرت اہل حق کو ہی حاصل ہوئی ہے۔ باطل پرستوں نے ہمیشہ اس دنیا اور اس کے عیش و آرام کو سب کچھ سمجھ کر حق و صداقت اور سچائیوں سے منہ پھیرنے اور آخرت سے غفلت کو اپنی کامیابی قرار دیا ہے ان کا خیال یہ تھا کہ یہ کائنات خود بخودپیدا ہوگئی ہے جو اپنی فطرت اور مزاج کے لحاظ سے جس طرح چلتی آرہی ہے اسی طرح ختم ہو جائیگی۔ نہ اس کائنات کا کوئی خلاق ہے اور نہ اس کا بنایا ہوا بالاتر کوئی قانون ہے جس کی پابندی کرنا لازمی اور ضروری ہو۔ کچھ لوگ وہ ہیں جو اس بات کو تو مانتے ہیں کہ ایک ایسی ہستی ہے جس نے کائنات کو پیدا کیا ہے۔ وہی اس کو چلاتا ہے لیکن کائنات کے چلانے میں وہ انسانوں کی طرح محتاج ہے۔ فرشتے اس کی بیٹیاں ہیں اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عزیز (علیہ السلام) اس کے بیٹے ہیں (نعوذ باللہ) کچھ وہ لوگ ہیں جو اس کائنات کا خلاق ایک بالاتر ہستی کو مانتے ہیں مگر انہوں نے اپنے معبودوں کے فرضی بت بنارکھے ہیں جن کے متعلق ان کا یہ خیال ہے کہ جب تک وہ ان کی سفارش نہ کریں گے اس وقت تک اللہ ان کی کسی بات کو نہ تو سنے گا اور نہ پورا کرے گا۔ غرضیکہ دنیا میں اس طرح کے ذہن و فکر رکھنے والے لوگوں نے اللہ کی ہستی کے عجیب عجیب تصورات قائم کر رکھے ہیں۔ قرآن کریم میں اہل ایمان کو بتایا گیا ہے کہ اس پوری کائنات کو پیدا کرنے والا اللہ ہے جو اس کا خلاق بھی ہے اور مالک بھی ہے وہی اس نظام کائنات کو چلا رہا ہے اور وہ اس کے چلانے میں کسی طرح کسی کا محتاج نہیں ہے۔ اس بات کو اللہ کے نبی اور رسول آ کر دنیا والوں کو بتاتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی اور رسول ﷺ کو وہ عظیم کتاب دے کر بھیجا جس میں کفار و مشرکین کے غلط عقائد اور افکار کی اصلاح فرمائی گی ہے۔ جن لوگوں نے اللہ کے بھیجے ہوئے قوانین کی پابندی کی اللہ نے انہیں دنیا اور آخرت کی کامیابیاں عطا فرمائیں لیکن جنہوں نے کفر و شرک اور نافرمانی کا طریقہ اختیار کیا ان کو طویل مدت تک سنبھلنے اور سمجھنے کا موقع دے کر مسلسل نافرمانیوں کے بعد ان کو تہس نہس کردیا گیا۔ اللہ کے اس عذاب کے آنے کے بعد ان کی ساری ترقیاتی اور تمدن اور تہذیب کو کٹی ہوئی کھیتی اور بجھی ہوئی آگ کی طرح راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ جب اللہ نے باطل پر حق کی ضرب لگائی تو اس قوم کا اور باطل کا بھیجا بھی باہر آگیا اور وہ قوم اپنے وجود تک کو نہ بچا کسی ۔ انہیں باتوں کو اللہ نے ان آیات میں بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ نے کفر و شرک اور ظلم اور ستم کرنے والی کتنی ہی قوموں کو ہلاک کردیا اور ان کی جگہ دوسروں کو اٹھا کر ان کو عظمت سے ہمکنار کردیا۔ جب ان لوگوں کو اللہ کے عذاب کی بھنک پڑی تو انہوں نے ادھر ادھر بھاگنا شروع کردیا کیونکہ ان کو اپنا عیش و آرام چھوٹتا ہوا نظر آ رہا تھا تو اللہ نے فرمایا کہ اب تم اس عذاب سے نہیں بچ سکتے۔ اب اگر تم اپنے عیش و آرام کی طرف لوٹ جاؤ تب بھی شاید ہی کوئی تمہارا پرسان حال ہو۔ فرمایا کہ اس کے بعد وہ کہنے لگے کہ ہم کتنے بدنصیب لوگ ہیں۔ کاش ہم اس سے پہلے اس بات کو سمجھ جاتے مگر ان کی پکار کو سننے والا کوئی بھی نہ ہوگا۔ اور اسی حالت میں ان کو کٹی ہوئی کھیتی اور بجھی ہوئی آگ کی طرح راکھ کا ڈھیر کردیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زمین و آسمان اور ان کے درمیان جو کچھ ہے وہ فضول یا کھیل تماشا نہیں ہے۔ اگر ہمیں کھلونا بنانا ہوتا تو پھر تمہیں کیوں پیدا کیا جاتا ہم ہی اس سے کھیل لیتے۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے اس کا مالک اللہ ہی ہے وہ جب چاہتا ہے حق کی ایک ہی ضرب سے باطل کا بھیجا نکال کر رکھ دیتا ہے۔ فرمایا کہ ایک طرف انسان ہے جس پر اللہ نے بےپناہ انعامات فرمائے ہیں یہاں تک کہ فرشتوں کو بھی انسان کے قدموں میں جھکادیا گیا دوسری طرف فرشتے ہیں جو ہر آن اس کے ہر حکم کی تعمیل میں لگے رہتے ہیں اور ذرا بھی سرکشی اختیار نہیں کرتے۔ دن رات ان کا ایک ہی مشغلہ ہے کہ وہ اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے رہتے ہیں اور وہ اللہ کی عبادت اور بندگی اور اس کے حکم کو پورا کرنے میں ذرا سستی نہیں کرتے۔ خلاصہ یہ ہے کہ انسان بڑا ناشکرا ہے کہ اگر اسے دنیا کی ذرا سی راحت و آرام اور عیش و سہولت مل جاتی ہے تو اللہ کی ذات کو بھول کر اس کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے۔ لیکن اللہ کے فرشتے وہ ہیں جن کو اللہ نے ہر طرح کی طاقتیں عطا کی ہیں اس کے باوجود وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ ہر وقت اس کے سامنے ادب و احترام سے جھکے رہتے ہیں اور اسی کی حمد وثناء میں مشغول رہتے ہیں۔
Top