Baseerat-e-Quran - Al-Anbiyaa : 34
وَ مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ١ؕ اَفَاۡئِنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ
وَ : اور مَا جَعَلْنَا : ہم نے نہیں کیا لِبَشَرٍ : کہ بشر کے لیے مِّنْ قَبْلِكَ : آپ سے قبل الْخُلْدَ : ہمیشہ رہنا اَفَا۟ئِنْ : کیا پس اگر مِّتَّ : آپ نے انتقال کرلیا فَهُمُ : پس وہ الْخٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
(اے نبی ﷺ اور ہم نے آپ سے پہلے کسی آدمی کو بھی ہمیشہ کی زندگی نہیں دی۔ اگر آپ کو موت آگئی تو کیا یہ ہمیشہ زندہ رہیں گے ؟
لغات القرآن آیت نمبر 34 تا 41 الخلد ہمیشہ زندہ رہنا۔ مت تو مر گیا۔ تیرا اتنقال ہوگیا۔ ضائقۃ چکھنے والا۔ فتنۃ آزمائش۔ ھزو مذاق۔ عجل جلد باز۔ لاتستعجلون تم جلدی نہ مچاؤ۔ لایکفون وہ نہ روک سکیں گے۔ بغتۃ اچانک۔ تبھت حیران۔ حاق گھیر لیا۔ آپڑا۔ تشریح :- آیت نمبر 34 تا 41 سورۃ الانبیاء کی یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب کفار مکہ کی مخالفت اور دشمنی انتہاؤں تک پہنچ چکی تھی وہ ہر حال میں اس ابھرتی ہوئی تحریک کو اپنی سازشوں سے کچل ڈالنا چاہتے تھے۔ ان سے جو کچھ ممکن تھا انہوں نے اس میں کسر اٹھا نہ رکھی تھی ان لوگوں نے یہاں تک فیصلہ کرلیا کہ نبی کریم ﷺ کو نعوذ باللہ قتل کردیا جائے تاکہ یہ مقصد اور مشن ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں بیان کیا ہے کہ اے نبی ؐ! اگر یہ لوگ آپ کی دشمنی میں اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ آپ انتقال کر جائیں یا قتل کرا دیئے جائیں تو کیا یہ لوگ ہمیشہ اس دنیا میں اسی طرح رہیں گے اور ان کو موت نہ آئے گی حالانکہ روئے زمین پر جو بھی ہے اس کو موت کا مزہ ضرور چکھنا ہے خیر و شر، بھلائی، برائی، زندگی اور موت کی آزمائشوں سے گزر کر آخر کار ہر شخص کو اللہ کی طرف لوٹنا ہے۔ جہاں زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب دینا ہوگا۔ اور ہر ایک کے اعمال کے مطابق اللہ تعالیٰ فیصلہ فرمائیں گے۔ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی ہے کہ اے نبی ! جب کفار آپ کو دیکھتے ہیں تو اپنی اصلاح کرنے کے بجائے یہ آپ کا مذاق اڑاتے ہیں اور طنز کے طور پر کہتے ہیں اچھا تو یہ ہیں وہ جو ہمارے معبودوں کا مذاق اڑاتے ہیں ؟ اور روز روز ہمیں عذاب کی دھمکیاں دیتے ہیں ؟ وہ کہتے تھے کہ اول تو عذاب آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اگر عذاب آ بھی جائے تو ہمارے ان معبودوں کی موجودگی میں ہمیں کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ وہ جسارت کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیتے تھے کہ تم جس عذاب کی باتیں کرتے ہو آخر اس کے آنے میں دیر کیا ہو رہی ہے ؟ اگر عذاب کو آنا ہی ہے تو جلدی سے آجائے۔ ہم بھی تو دیکھیں کہ یہ کس عذاب کی باتیں کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انسان بہت ہی جلد باز ہے وہ اپنی جلد بازی اور عجلت پسندی میں اس بات پر غور نہیں کرتا کہ جب اللہ کا عذاب آئے گا تو وہ ایک آگ ہوگی جو ان کو چاروں طرف سے گھیر لے گی۔ اس کی لپیٹیں چہروں کو جھلسا کر رکھ دیں گی اور وہ کچھ بھی نہ کرسکیں گیا ور وہ عذاب اتنا اچانک اور فوری طور پر آئے گا کہ کسی کو سنبھلنے کا یا اس کو روک لینے کا موقع بھی نہ مل سکے گا اور وہ ایسے بدحواس ہوجائیں گے کہ ان کی سمجھ میں کوئی بات نہ آئے گی وہ آگے جو آگے سے اور پیچھے سے آئے گی اسے نہ روک سکیں گے اور نہ کسی طرف سے ان کی کوئی مدد کی جائے گی۔ نبی کریم ﷺ سے فرمایا جا رہا ہے کہ اگر یہ لوگ آج آپ کا مذاق اڑا رہے ہیں آپ پر طرح طرح کے طنز کے تیر چلا رہے ہیں تو یہ کوئی بات نہیں ہے اللہ کے نبی اور رسول جب بھی آئے ان کا اسی طرح مذاق اڑایا گیا۔ حق اور صداقت کی آواز کو ہمیشہ اسی طرح دبانے اور مٹانے کی کوشش کی گئی لیکن آخر کار اللہ نے دشمنان اسلام کو ذلیل اور رسوا کیا اور اپنے نبیوں اور رسولوں کو کامیاب بامراد فرمایا۔ یقینا آپ بھی ہر طرح کامیاب اور بامراد ہوں گے۔
Top