Baseerat-e-Quran - Al-Anbiyaa : 76
وَ نُوْحًا اِذْ نَادٰى مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَنَجَّیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِیْمِۚ
وَنُوْحًا : اور نوح اِذْ نَادٰي : جب پکارا مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے فَاسْتَجَبْنَا : تو ہم نے قبول کرلی لَهٗ : اس کی فَنَجَّيْنٰهُ : پھر ہم نے اسے نجات دی وَاَهْلَهٗ : اور اس کے لوگ مِنَ : سے الْكَرْبِ : بےچینی الْعَظِيْمِ : بڑی
اور یاد کرو نوح کو جب کہ ان سے پہلے اس نے ہمیں پکارا۔ ہم نے اس کی دعا کو قبول کیا پھر ہم نے اس کو اور اس کے گھر والوں کو ایک بڑی بےچینی سے نجات عطا کی
لغات القرآن آیت نمبر 76 تا 93 الکرب العظیم بہت بڑی بےچینی۔ قوم سوء برے لوگ۔ یحکمان فیصلہ کرنے لگے۔ الحرث کھیتی، کھیت۔ نفثت چر گئیں۔ غنم بکریاں۔ فھمنا ہم نے سمجھ عطا کی۔ الطیر پرندے۔ صنعۃ بنانا۔ لبوس لباس۔ تحصن تمہیں بچاتی ہے۔ باس سختی، جنگ۔ عاصفۃ تیز ہوا، آندھی۔ یعوضون غوطہ لگاتے ہیں۔ مسنی مجھے پہنچا۔ کشفنا ہم نے کھول دیا۔ مغاضباً غصہ میں بھرا ہوا۔ لاتذرنی تو مجھے نہ چھوڑنا۔ فرد تنہا۔ اصلحنا ہم نے درست کردیا۔ یسرعون دوڑتے ہیں۔ رغب امید۔ رھب ڈر۔ خوف۔ خاشعین ڈرنے والے۔ احصنت اس نے حفاظت کی۔ نفخنا ہم نے پھونک ماری۔ تشریح :- آیت نمبر 76 تا 93 سورۃ الانبیاء کی ان آیت میں گیارہ نبیوں اور رسولوں کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ حضرت نوح، حضرت داؤد، حضرت سلیمان حضرت ایوب، حضرت ادریس، حضرت ذوالکفل، حضرت ذوالنون، صحضرت یونس) حضرت زکریا، حضرت یحییٰ اور ابن مریم حضرت عیسیٰ (علیہم السلام) اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں اور رسولوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس نے دنیا بھر کے سرکشوں نافرمانوں اورف سادیوں اور ظالموں کو راہ راست پر لانے کے لئے اپنے پاکیزہ نفوس انبیاء کرام کو اس اصولی اور بنیادی نصیحت کے ساتھ بھیجا ہے کہ اگر انہوں نے گناہوں کو نہ چھوڑا تو ان کو عذاب الٰہی سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا۔ اللہ کا ہمیشہ سے یہی دستور رہا ہے کہ اس نے اپنے خاص بندوں کو تو بچا لیا لیکن ظالموں کو ان کی تہذیب کو ان کی ترقیات کو اس طرح ملیا میٹ کردیا کہ آج ان کی عمارتوں کے کھنڈرات عبرت و نصیحت کا نشان بنے ہوئے ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) جنہوں نے ساڑھے نو سو سال تک امت کی رہنمائی فرمائی لیکن جب پوری قوم نے (کئی اور نسلوں نے) ان کی نصیحت کو نہیں سنا اور ہمیشہ ان کی مخالفت کرتی رہی تب حضرت نوح (علیہ السلام) نے یہ دعا فرمائی کہ الٰہی یہ لوگ میری بات اور نصیحت کو سننے کے لئے تیار نہیں ہیں اب یہ ایسے گلے سڑے بازو یا جسم کی طرح ہوچکے ہیں جس کو کاٹ کر پھینک دینا ہی بہتر ہے ان کی اصلاح ممکن نہیں ہے اے اللہ ان کو اور ان کے گھروں کو ویران کر دے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا کو قبول کر کے ان کے ماننے والوں اور اہل خانہ (سوائے ان کے بیٹے کے) کو اس کشتی کے ذریعہ بچا لیا جو انہوں نے اللہ کے حکم سے تیار کی تھی بقیہ ساری قوم پر پانی کا اتنا زبردست طوفان مسلط کیا گیا کہ اس میں ہر شخص ڈوب کر ختم ہوگیا صرف اہل سفینہ یعنی حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی والے بچ گئے اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے پیغمبر جو اپنی امت اور ساری انسانیت کے سب سے بڑے مخلص ہوتے ہیں اگر وہ اللہ کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھا کر اللہ سے کوئی درخواست کرتے ہیں تو ان کی پکار کو اللہ تعالیٰ رد نہیں فرماتے۔ ان آیات میں کفار مکہ سے بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ اور ان کے جاں نثاروں کو اتنا نہ ستائیں کہ نبی کریم ﷺ کے دل سے کوئی آہ نکل جائے اور وہ کفار تباہ اور برباد ہو کر رہ جائیں۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہ ال سلام کا ذکر فرمایا ہے حضرت سلیمان (علیہ السلام) اگرچہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے صاحبزادے تھے۔ جب حضرت داؤد نے ایک فیصلہ سنایا اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے دوسرا فیصلہ کیا اس معقول فیصلے کو سن کر حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اپنا فیصلہ بدل لیا اور اپنے فیصلے پر ضد اور بڑائی کا انداز اختیار نہیں کیا۔ وہ واقعہ یہ تھا کہ ایک مرتبہ کسی شخص کی بکریاں کسی دوسرے کے کھیت میں گھس آئیں اور انہوں نے بھرے کھیت کو اجاڑکر رکھ دیا۔ کھیت والے نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے دربار میں عدل و انصاف کی فریاد پیش کی۔ حضرت دئاود (علیہ السلام) نے ظاہری صورت حال کو دیکھ کر یہ فیصلہ فرما دیا کہ جس کا کھیت برباد ہوا ہے وہ ان ساری بکریوں کو لے کر ان سے فائدہ اٹھائے۔ یہی فریاد جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے کی گئی تو انہوں نے اللہ کے حکم سے نہایت ذہانت کا یہ فیصلہ فرما دیا کہ کھیت والا ساری بکریاں اپنے پاس رکھے۔ ان سے فائدہ اٹھائے۔ پھر بکریوں والے سے کہا کہ وہ اس کا اجڑا ہوا کھیت دوبارہ آباد رکے۔ جب کھیت تیار ہوجائے تو وہ اپنی بکریاں واپس لے جائے اور کھیت اس کے مالک کے حوالے کر دے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ حضرت داؤد حضرت سلیمان کے والد محترم ہیں۔ وقت کے بادشاہ ، ذہین ترین نبی اور رسول ہیں جب وہ زبور کی آیات تلاوت فرماتے تھے پہاڑ اور پرندے ان کے ساتھ جھومنے لگتے تھے اور اللہ کی تسبیح کرتے تھے۔ اتنی خوبصورت پر تاثیر آواز کے مالک تھے کہ ان کے پڑھنے کو لحن داؤدی کہتے ہیں اللہ نے ان کے لئے لوہے کو موم کی طرح نرم کردیا تھا جس سے وہ جنگ کی حالت میں استعمال کئے جانے والے لوہے کا لباس تیار کرتے تھے جس کو زرہ کہتے ہیں۔ اللہ نے ان کو فہم و فراست اور علم و حکمت سے بھی نوازا تاکہ اتنے عظیم انسان اور پیغمبر کے سامنے جب ان کے بیٹے کا بہتر فیصلہ آیا تو انہوں نے فوراً ہی اپنا فیصلہ واپس لے لیا اور کسی طرح اس کو اپنی انا یا ضد کا مسئلہ نہیں بنایا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اللہ کے نبی ہیں اور رسول نہیں ہیں اور اللہ نے ان کو بھی بہت سی وہ عظمتیں عطا فرمائی تھیں جو لائق ذکر ہیں۔ اللہ نے ان کو علم و حکمت، ذہانت اور بات کی تہہ تک پہنچنے کی بڑی زبردست صلاحیتیں عطا کی تھیں ہوا کو اس طرح ان کے تابع کردیا تھا کہ اس کو جاں اور جیسے حکم دیتے ہوا وہی کرتی تھی، چرند، پرند، درند، جنات اور طاقتور انسان ہر وقت ان کے دربار میں حاضر رہتے تھے ان کے ہر حکم کی تعمیل کرتے تھے۔ چونکہ حضرت داؤد عل یہ السلام اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا مقصد عدل و انصاف کے نظام کو قائم کرنا تھا اس لئے اس میں اپنی ذاتی انا اور ضد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ درحقیقت کفار مکہ کو شرم دلائی جا رہی ہے کہ یہ دونوں باپ بیٹے وقت کے عظیم پیغمبر اور بہت زیادہ قوت اور طاقت کے مالک تھے مگر وہ ہر سچائی کو ہر وقت قبول کرنے کے لئے تیار رہتے تھے اور کفار مکہ کا یہ حال ہے کہ معمولی معمولی سرداریوں کو لئے بیٹھے ہیں اور غرور وتکبر کے پیکر بنے ہوئے ہیں اور نبی کریم ﷺ جس سچایء اور عدل و انصاف کی تعلیمات کو لے کر آئے ہیں ان سے منہ پھیر رہے ہیں۔ صبر و شکر کے پیکر حضرت ایوب (علیہ السلام) کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جب اللہ نے ان کو ہر طرح کی نعمتوں سے نواز رکھا تھا وہ ہر وقت اللہ کے سامنے شکر گزاری کے جذبے کے ساتھ جھکے رہتے تھے اور جب ان کو ایسی شدیدبیماری اور تکلیف سے واسطہ پڑا کہ ان کی بیوی کے علاوہ ہر شخص ان کے قریب جاتا ہوا گھبراتا تھا۔ فرمایا کہ اس حال میں وہ انتہائی صبر سے کام لیتے تھے۔ ایک مرتبہ جب ان کی بیماری اس درجے کو پہنچ گئی جہاں ان سے وہ برداشت نہ ہو کسی تو انہوں نے اپنے اللہ کو آواز دی۔ الٰہی میری تکلیف اور بیماری حد درجہ بڑھ گئی ہے اور تمام رحم کرنے والوں میں آپ ہی سب سے زیادہ رحم کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی فریاد کو سنا اور ان کو نہ صرف شدید بیماری اور تکلیف سے نجات عطا فرما دی بلکہ پہلے سے بھی زیادہ اچھی صحت، مال و اہل اور اولاد کی نعمتوں سے ان کو نواز دیا۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کا صبر و شکر ایک بہترین مثال ہے دوسری بات یہ ہے کہ اللہ کو جب بھی دل سے پکارا جاتا ہے وہ ایسا مہربان اور کریم ہے کہ وہ ہر شخص کی فریاد کو سنتا ہے اور اس کو ہر طرح کی تکلیفوں سے نجات عطا کردیتا ہے۔ حضرت نوح، حضرت داؤد، حضرت سلیمان اور حضرت ایوب (علیہ السلام) کے ذکر کے بعد حضرت اسماعیل حضرت ادریس، حضرت ذوالکفل ، حضرت ذوالنون، (مچھلی والے) کے متعلق فرمایا کہ یہ سب کے سب انتہائی نیک صالح اور پرہیزگار تھے جنہیں اللہ نے اپنی بہت سی نعمتوں سے نوازا تھا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کا نام لئے بغیر ان کو ” ذوالنون “ فرمایا یعنی وہ جو مچھلی کے پیٹ میں بھی زندہ رہے تھے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) نینوا اور بابل کے نافرمانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے مبعوث فرمائے گئے تھے۔ وہ پانی قوم کو ہر طرح سمجھاتے تھے مگر وہ راہ ہدایت پر نہ آتے تھے۔ آخر ایک دن ان نافرمانوں سے مایوس ہو کر یہ دعا فرمائی الٰہی یہ قوم سدھرنے والی نہیں ہے اب آپ ان کا فیصلہ فرما دیجیے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) یہ سوچ کر کہ اللہ اپنے نبی کی دعا کو ضرور سنتا ہے اللہ کی طرف سے فیصلے کا انتظار کئے بغیر وہاں سے کسی دوسرے ملک کے لئے بیوی بچوں کے ساتھ روانہ ہوگئے۔ چونکہ اللہ کے نبی بڑی شان والے ہوتے ہیں اور وہ ہر شخص کے لئے ایک مثال ہوتے ہیں اس لئے ان کی ذرا سی بات پر بھی گرفت ہوجاتی ہے۔ اللہ نے ان کی بیوی اور بچوں کو ان سے کسی طرح جدا کردیا ۔ وہ تنہا ایک کشتی میں سوار ہوئے۔ وہ کشتی ایک بھنور اور طوفان میں پھنس گئی سب لوگوں کے ڈوبنے کا اندیشہ تھا۔ کسی نے کہا کہ ہم میں ضرور کوئی ایسا غلام ہے جو اپنے اقٓا کی رضا اور مرضی کے بغیر بھاگا ہوا ہے۔ قرعہ اندازی کی گئی ہر مرتبہ حضرت یونس کا نام نکلا حضرت یونس (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ وہ بھاگا ہوا غلام میں ہی ہوں۔ حضرت یونس کو پانی میں پھینکا گیا ایک بہت بڑی مچھلی جو منہ کھولے تیار تھی یہ اس مچھلی کے پیٹ میں پہنچ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا ملہ سے (مچھلی کے پیٹ میں) اس اندھیری کوٹھری میں بھی ان کو زندہ رکھا۔ پھر حضرت یونس (علیہ السلام) کو اندازہ ہوا کہ مجھ سے غلطی ہوگئی ، اس لئے یہ سزا دی گئی۔ انہوں نے اسی وقت اللہ کی بارگاہ میں ندامت و شرمندگی کے ساتھ کہا الٰہی آپ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ آپ کی ذات ہر عیب سے پاک ہے، بیشک مجھ سے زیادتی ہوگئی ہے۔ اللہ نے ان کو معاف فرما دیا عرصہ تک مچھلی کے پیٹ میں رہے اور صحیح سالم اس مچھلی نے ان کو دریا کے کنارے اگل دیا۔ اللہ نے وہاں بھی ان کی صحت و عافیت اور رزق کا انتظام فرما دیا۔ ادھر جب پوری قوم یونس (علیہ السلام) نے دیکھا کہ حضرت یونس اس شہر سے چلے گئے ہیں اور انہوں نے عذاب الٰہی کے آثار بھی دیکھے تو پوری قوم نے اللہ سے اپنے کفر و شرک سے پناہ مانگی جن کو معاف کردیا گیا ۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ عذاب کے آثار آنے کے بعد اگر کسی قوم کو معاف کیا گیا ہے تو وہ صرف قوم یونس تھی۔ اللہ کے حکم سے حضرت یونس (علیہ السلام) بھی اپنی قوم میں واپس آ گئیا ور ان کے بیوی بچے اور سب کچھ بلکہ اس سے بھی زیادہ ان کو عطا کردیا گیا۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے بڑھاپے کی انتہائی عمر اور بیوی کے بانجھ ہونے کے باوجود جب اللہ تعالیٰ سے بیٹے کی تمنا کی اور اللہ کا پکارا تو اللہ نے ان کی اہلیہ کو بھی اولاد کے لئے صلاحیت عطا کر کے ان کو ماں بنا دیا اور اس طرح حضرت یحییٰ (علیہ السلام) جیسا نیک، پاکباز اور نبی صالح عطا فرمایا۔ ان کو اس نعمت کے عطا کرنے کی وجہ یہ فرمائی گئی کہ وہ ہر ایک کا بھلا چاہتے تھے اور نیکی و پرہیز گاری میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ بتانا یہ ہے کہ اللہ اپنی قدرت کاملہ سے جس طرح اور جب بھی کسیک ام کو کرنا چاہتا ہے تو اس کو اسباب کی ضرورت نہیں پڑتی اور اللہ اپنے بندوں کی ہر پکار کو سن کر ان کو وہ سب کچھ عطا فرماتا ہے جو ایک بندے کی خواہش ہوتی ہے آخر میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر ایک نئے انداز سے فرمایا۔ ارشاد ہوا کہ وہ (مریم) جو پاکیزگی، عفت و عصمت کی پیکر تھیں جو اپنی آبرو کی حفاظت کرنے والی تھیں اللہ نے اپنی قدرت سے ان کے رحم میں روح کو پھونکا اور ساری دنیا کو اپنی قدرت کا یہ کمال دکھا دیا کہ وہ اللہ ایسی قدرت والا ہے کہ جس طرح بغیر ماں باپ کے حضرت آدم اور حضرت حوا کو پیدا فرما دیا۔ ایک سو دس سال کی عمر میں حضرت زکریا (علیہ السلام) کو ایک بیٹا عطا فرما دیا اور اسی طرح بغیر باپ کے حضرت عیسیٰ ابن مریم کو پیدا فرما دیا۔ کوئی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں ہے۔ ان آیات میں گیارہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کے تذکرے کے بعد ارشاد فرمایا کہ اللہ کی نظر میں سارے انسان برابر ہیں وہ ہر ایک کی فریاد سنتا اور اس کی تمنا کو پورا کرتا ہے۔ فرمایا کہ اللہ نے ساری دنیا کے لوگوں کو ایک ہی امت اور جماعت بنایا تھا اور وہ ان کی رہبری اور رہنمائی کے لئے اپنے نبیوں اور رسولوں کو بھیجتا رہا جو ان کو بھٹکنے سے بچانے کی جدوجہد کرتے تھے۔ فرمایا کہ اب خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ بھی تشریف لا چکے ہیں۔ ساری دنیا کے انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے ان کو بھیجا گیا ہے اب آپ کے آنے کے بعد قیامت تو آئے گی لیکن کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا۔ لہٰذا ساری دنیا کے انسان نبی کریم ﷺ کی اطاعت کریں گے تو ان کو اس دنیا کی اور آخرت کی ساری کامیابیاں اور عظمتیں عطا کی جائیں گی۔ دوسری بات یہ ارشاد فرما دی گئی کہ اس اللہ کو جب بھی اور جس جگہ بھی پکارا جاتا ہے تو وہ اللہ فریاد کرنے والے کی فریاد کو سنتا ہے۔ سارے نبیوں نے ہر مشکل کے وقت صرف اللہ ہی کو پکارا۔ اس نے ان کی فریاد کو سنا اور ان کی ہر خواہش کو پورا کیا۔ کیونکہ اللہ کا ہر نبی اور رسول اس بات کو جانتا ہے کہ مشکل کشا صرف اللہ کی ذات ہے۔ وہی ہر ایک کی فریاد سن کر اس کی مشکلات کو دور کرتا ہے۔
Top