Baseerat-e-Quran - Al-Hajj : 11
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰى حَرْفٍ١ۚ فَاِنْ اَصَابَهٗ خَیْرُ اِ۟طْمَاَنَّ بِهٖ١ۚ وَ اِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُ اِ۟نْقَلَبَ عَلٰى وَجْهِهٖ١ۚ۫ خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةَ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ
وَ : اور مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَّعْبُدُ : بندگی کرتا ہے اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر حَرْفٍ : ایک کنارہ فَاِنْ : پھر اگر اَصَابَهٗ : اسے پہنچ گئی خَيْرُ : بھلائی ۨ اطْمَاَنَّ : تو اطمینان پالیا بِهٖ : اس سے وَاِنْ : اور اگر اَصَابَتْهُ : اسے پہنچی فِتْنَةُ : کوئی آزمائش ۨ انْقَلَبَ : تو پلٹ گیا عَلٰي : پر۔ بل وَجْهِهٖ : اپنا منہ ڗ خَسِرَ الدُّنْيَا : دنا کا فساد وَالْاٰخِرَةَ : اور آخرت ذٰلِكَ : یہ ہے هُوَ الْخُسْرَانُ : وہ گھاٹا الْمُبِيْنُ : کھلا
لوگوں میں تو کوئی ایسا ہے جو ایک کنارے پر اللہ کی عبادت و بندگی کرتا ہے۔ اگر اسے کوئی بھلائی پہنچ گئی تو اس سے مطمئن ہوگیا اور اگر اسے کوئی آزمائش پہنچ گئی تو پھر وہ الٹا پھرجاتا ہے اور (ایسا آدمی) دنیا اور آخرت میں گھاٹے میں رہتا ہے۔ یہ ایک کھلا ہوا نقصان ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 11 تا 16 : حرف (کنارہ) ‘ اصاب (پہنچ گیا) ‘ انقلب (پلٹ گیا) ‘ الضلال البعید (دور کی گمراہی۔ انتہا درجہ کی گمراہی) ‘ اقرب (زیادہ قریب) ‘ المولی (دوست) ‘ العشیر (ساتھی۔ رفیق) ‘ یظن (وہ گمان کرتا ہے) ‘ یمدد (وہ باندھتا ہے) ‘ یقطع (وہ کاٹتا ہے) ‘ کید (تدبیر) یغظ (غصہ دلاتا ہے) ‘ تشریح آیت نمبر 11 تا 16 : دنیا میں ہر شخص کسی نہ کسی ڈھنگ سے اچھی یا بری زندگی گذار ہی لیتا ہے۔ وہ زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے خوب محنت کرتا ہے۔ بھاگ دوڑ میں لگا رہتا ہے کوئی کامیاب ہوتا ہے اور کسی کو زندگی بھر حسرتوں کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ اس کے ہر عمل کے پیچھے اعتقاد اور یقین کتنا ہے ؟ اگر اس کا اعتقاد اور یقین مستحکم ‘ مضبوط اور پختہ ہے تو اس کے عمل کے انداز میں چستی اور پھرتی ہوگی۔ اگر اعتقاد ‘ نیت اور عمل درست نہیں ہے تو وہ ہر کام کو کرے گا مگر اس میں سستی اور کاہلی کا انداز نمایاں نظر آئے گا۔ چناچہ اگر دین کے معاملہ میں کسی کا اعتقاد اور یقین کامل ہے تو اس کی عبادات ‘ اخلاق و عادات اور معاملات زندگی میں ایک خاص شوق ‘ تڑپ ‘ لگن ‘ اخلاص جوش و جذبہ اور ولولہ ہوگا۔ وہ اللہ کی رضا کے لئے نہایت شوق سے اللہ کی عبادات کا حق ادا کرے گا۔ نماز کا وقت ہوگا۔ تو وہ نہایت ذوق و شوق سے دوڑ کر آئے گا ‘ خشوع و خضوع سے اول وقت نماز ادا کرنے کی کوشش کرے گا۔ جب اللہ کی طرف بلایا جائے گا تو وہ اپنے گھر کے راحت و آرام کو چھوڑ کر مسجد میں حاضر ہوجائے گا۔ جمعہ کا دن ہوگا۔ تو وہ عین اس وقت جب دوپہر کے وقت کاروبار میں زیادہ نفع کمانے کا وقت وہ تا ہے وہ اپنے نفع سے بےنیاز ہو کر جمع کی نماز کی طرف لپکتا اور دوڑتاآئے گا۔ کسی کی مدد کرے گا تو اس میں دنیا کے دکھانے کے بجائے محض اللہ کی رضا و خوشنودی کو پیش نظر رکھے گا۔ صدقہ داہنے ہاتھ سے دے گا تو بائیں ہاتھ تک کو خبر نہ ہوگی ‘ حج کو ایک فریضہ زندگی سمجھ کر اداکرے گا محض خانہ پری یا سیرو تفریح کے لئے نہیں۔ غرضیکہ اس کی زندگی کا ہر کام سچے اعتقاد ‘ یقین محکم اور اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے ہوگا۔ نفع اور نقصان کے وقت ہر حال میں اللہ ہی کو اپنا سب کچھ سمجھے گا۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جن کو ایمان و یقین میں استحکام اور مضبوطی حاصل نہیں ہوتی وہ ایسے مفاد پرست ‘ لالچی اور خود غرض ہوتے ہیں جو دین اسلام کے ایک مکمل ضابطہ حیات کو ماننے کے بجائے محض نفع نقصان کی ترازو سے تولتے رہتے ہیں۔ اگر دین اسلام کو اپنانے ‘ نیکی اور پرہیزگاری اور بھلائی کے کاموں میں نفع اور فائد نظر آتا ہے تو ان کے نزدیک اس سے اچھا دین اور مذہب کوئی اور نہیں ہوتا لیکن اگر ان کے معاملات زندگی میں ذرا اونچ نیچ ہوجائے انہیں کسی طرح کا نقصان پہنچ جائے تو وہ کہتے ہیں کہ جب سے ہم نے دین داری اور نیکیوں کی زندگی کو اختیار کیا ہے ہمیں سوائے نقصان کے اور کیا حاصل ہوا ہے۔ بعض لوگ نمازیں اور وظیفے پڑھتے ہیں جس کا مقصد دنیا کے بعض فائدے حاصل کرنا ہوتے ہیں جب وہ حاصل نہیں ہوتے تو کہتے ہیں کہ اتنے دن ہوگئے ہو طرح کے وظیفے پڑھے نمازیں پڑھیں ‘ حج کئے ‘ صدقات دیئے مگر ہماری ایک تمنا بھی پوری نہیں ہوئی بلکہ نقصان ہی نقصان ہوا ہے اب تو ہمارا ایمان ہی ہٹتا جارہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ گویا ایسے لوگوں کے نزدیک عبادات اور نیکیوں کا مفہوم اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ ان کو دنیا کے کچھ مفادات حاصل ہو اجائیں۔ حاصل ہوگئے تو خوش ہوجاتے ہیں اور اگر حاصل نہ ہوئے تو ان کے ایمان ہل جاتے ہیں اور وہ اسی دین کو برا کہنے لگتے ہیں۔ حالانکہ ایک مومن کا ایمان تو اس پر ہونا چاہیے کہ اللہ اس سے راضی ہوجائے اور وہ جو کچھ نیکیاں کررہا ہے اس سے اس کی آخرت درست ہوجائے اور وہ جہنم کی آگ سے بچ جائے۔ دنیا میں اگر فائدہ ملتا ہے تو ٹھیک ہے اور اگر اس کو اس دنیا میں نہ ملے تو یقیناً آخرت میں اس کو اجر وثواب ضرور ملے گا۔ اسی بات کو ان آیات میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ بعض لوگ کنارے پر کھڑے ہو کر عبادت کرتے ہیں ان کو نفع مل جائے تو وہ خوش ہوجاتے ہیں اور اگر کوئی نقصان پہنچ جائے تو ان کے چہرے بگڑ جاتے ہیں۔ روایات میں آتا ہے کہ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو اس زمانہ میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو دیہاتوں اور صحراؤں سے آکر مدینہ میں اسلام قبول کرلیتے۔ اگر ان کی صحت اچھی ہوتی ‘ اولاد نرینہ پیدا ہوتی اور انکی گھوڑیوں کے ہاں نر پیدا ہوتے اور اولاد خوش ال ہوتی تو کہتے تھے کہ اس سے اچھا دین و مذہب کوئی نہیں ہے لیکن اس کے برخلاف اگر کسی کے مال واولاد اور صحت و تندرستی کا نقصان ہوجاتا تو وہ اس دین کو برا بھلا کہنا شروع کردیتے تھے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ ایک یہودی مسلمان ہوگیا۔ اسلام لانے کے بعد اس کی آنکھیں جاتی رہیں۔ اس کا بچہ مر گیا۔ اس کے جان و مال کا بھی نقصان ہوگیا۔ اس نے بےوقوفی سے یہ سمجھا کہ یہ سب کچھ اسلام لانے کی وجہ سے ہوا ہے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ مجھے میری بیعت واپس کر دو ( یعنی میں اسلام کا راستہ چھوڑنا چاہتا ہوں) کہنے لگا کہ میں نے تو اس مذہب میں کوئی بھلائی نہیں دیکھی۔ میری نظر جاتی رہی ‘ میرا بچہ مر گیا اور میرے مال کا بھی کافی نقصان ہوگیا ہے (ابن ابی حاتم ‘ بغوی) ان ہی باتوں کو اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ارشاد فرمایا ہے : بعض لوگ وہ ہیں جو کنارے پر رہ کر عبادت و بندگی کرتے ہیں۔ اگر ان کو کوئی فائدہ پہنچ گیا تو وہ عبادت پر قائم رہتے ہیں لیکن اگر کوئی ازمائش سامنے آگئی تو وہ الٹے پاؤں پھرجاتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا اور آخرت دونوں ہی کو اپنے ہاتھوں برباد کرلیا۔ وہ ایک اللہ کو چھوڑ کر ایسے معبودوں کو پکارتے ہیں جو نہ تو ان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں او نہ ہی نفع پہنچانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ یہ ان کی انتہا درجہ کی گمراہی ہے۔ وہ ایسی چیز کو پکارتے ہیں جس کا نقصان اس کے نفع سے قریب ترین ہے۔ انہوں نے کیسے برے دوست اور بدترین ساتھی بنا رکھے ہیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور عمل صالح اختیار کئے انکو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی (ہر طرح کی راحتیں حاصل ہوں گی) اللہ کی شان یہ ہے کہ وہ جس کام کو کرنا چاہتا ہے کرتا ہے۔ فرمایا کہ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اللہ دنیا اور آخرت میں وحی کے ذریعہ اس کی مدد نہیں کرے گا تو اسے چاہیے کہ وہ ایک رسی کو آسمان تک تان لے پھر اس کے ذریعہ سے آسمان پر پہنچ کر (اگر ہو سکے تو) اس وحی کے سلسلے کو کاٹ ڈالے (جو ناممکن ہے) پھر دیکھے کہ اس کی یہ تدبیر اور کوشش اسے کے غصے کو دور کرسکتی ہے یا نہیں ؟ فرمایا کہ ہم نے قرآن کریم کو کھلی اور واضح دلیلوں کے ساتھ نازل کیا ہے۔ اللہ جس کو چاہتا ہے اس کے ذریعہ سے ہدایت عطا کرتا ہے (لیکن جو ہدایت حاصل نہیں کرنا چاہتا وہ زندگی بھر بدنصیبی کا شکاررہتا ہے) ۔
Top