Baseerat-e-Quran - Al-Hajj : 17
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ الصّٰبِئِیْنَ وَ النَّصٰرٰى وَ الْمَجُوْسَ وَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْۤا١ۖۗ اِنَّ اللّٰهَ یَفْصِلُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے وَالَّذِيْنَ : اور جو هَادُوْا : یہودی ہوئے وَ : اور الصّٰبِئِيْنَ : صابی (ستارہ پرست) وَالنَّصٰرٰي : اور نصاریٰ (مسیحی) وَالْمَجُوْسَ : اور آتش پرست وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْٓا : اور وہ جنہوں نے شرک کیا (مشرک) اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَفْصِلُ : فیصلہ کردے گا بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے شَهِيْدٌ : مطلع
بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے یا وہ لوگ جو یہودی اور ستارہ پر ست نصاری (مسیحی) اور آتش پرست اور مشرک بن گئے تو بلاشبہ قیامت کے دن اللہ ان کے درمیان فیصلہ فرما دے گا۔ بیشک اللہ ہر چیز سے باخبر ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 17 تا 25 : ھادوا (جو یہودی ہوگئے۔ جو یہودی بن گئے) ‘ الصبئین (ستاروں کو پوجنے والے) ‘ النصری (مسیحی۔ عیسائی) ‘ المجوس (آگ پوجنے والے) ‘ یفصل (وہ فیصلہ کرے گا) ‘ شھید (باخبر۔ مطلع) ‘ دواب (دابۃ) زمین پر رینگنے والے جانور ‘ یھن (ذلیل کرتا ہے) ‘ مکرم (عزت دیا گیا) ‘ خصمن (خصم) فریق۔ جماعتیں ‘ اختصموا (وہ لوگ جو جھگڑے) ‘ قطعت (کاٹی گئی۔ کاٹے گئے) ‘ ثیاب (ثوب) (کپڑے) ‘ یصب ‘(ڈالا جائے گا) ‘ الحمیم (کھولتا پانی ۔ گرم گرم پانی) ‘ یصھر (پگھل جائے گا۔ بہادیا جائے گا) ‘ الجلود (جلد) کھالیں ‘ مقامع (گرز۔ بھاری ہتھوڑے) ‘ غم (گھٹن۔ غم) ‘ اعیدوا (وہ لوٹائے گئے۔ وہ لوٹائے جائیں گے) ‘ یحلون (وہ پہنچائے جائیں گے) ‘ اساور (سوار) کنگن ‘ ذھب ( سونا) ‘ حریر (ریشم) لئو لئو (موتی) ‘ ھدوا (راہ دکھائے گئے) ‘ الحمید (اللہ تعالیٰ کی صفت۔ تمام تعریفوں والا) ‘ العاکف (رہنے والے۔ مقامی لوگ) ‘ الباد (باہر سے آنے والا) ‘ الحاد (مائل ہونا۔ جھکنا۔ ٹیڑھا چلنا) ۔ تشریح : آیت نمبر 17 تا 25 : کچھ لوگ زندگی بھر جائز و ناجائز ‘ اچھے اور برے کی پرواہ کئے بغیر زندگی کی راحتوں کے حاصل کرنے کی جدوجہد میں لگے رہتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر طرح کا سکھ چین ‘ راحت و آرام ‘ خوشی اور مسرت مال و دولت کے ذریعہ حاصل کیا سکتا ہے۔ ان کی تمنا ہوتی ہے کہ انکے پاس جوانی کی لذتیں راحتیں اور دل موہ لینے والی صدائیں ‘ زیب وزینت کے لئے بہترین ریشمی لباس ‘ کھانے پینے کے لئے سونے چاندی کے برتن ‘ بادشاہوں جیسی شان و شوکت او ہر چیز میں خود مختاری حاصل ہوجائے۔ اور تاج و تخت سونے چاندی کے کنگن ‘ حسین و جمیل باغات ‘ سرسبز و شاداب باغیچے ‘ بلند وبالا بلڈنگیں ‘ حسین عورتیں شراب و کباب کی بدمست محفلیں اور ہر طرف خوشی ہی خوشی ہو۔ ان ہی تمناؤں اور آرزؤں کے گردان کی پوری زندگی گذرجاتی ہے۔ جب محنتیں اور تمنائیں کرتے ہوئے بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں ‘ اعضا کمزور پڑجاتے ہیں۔ دل میں خواہشیں دم توڑنے لگتی ہیں تو یہ راحت و آرام کے سامان ان کے لئے بےحقیقت بن کر رہ جاتے ہیں اور موت آتے ہی ان تمام چیزوں سے ان کا رابطہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ وہ تمنائیں جن کے پیچھے وہ دیوانہ وار دوڑتے رہے ہیں اس کا ساتھ چھوڑدیتی ہیں۔ ایسے لوگ اپنی قبروں میں سوائے حسرت اور افسوس کے اور کچھ بھی نہیں لے کر جاتے ۔ دنیا اور آخرت دونوں برباد ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس کے برخلاف کچھ وہ لوگ ہوتے ہیں جو زندگی بھر ایمان ‘ عمل صالح ‘ حق و صداقت ‘ نیکیوں اور پرہیز گاریوں کے پیکر بنے رہتے ہیں۔ ان کے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی ‘ اللہ اور رسول کی مکمل اطاعت و فرماں برداری اور نیکیوں کا جذبہ موجز رہتا ہے۔ وہ ہر کام سے پہلے یہ سوچتے ہیں کہ ہمیں صرف جائز طریقوں پر چل کر راحت و آرام کے اسباب حاصل کرنے ہیں تاکہ زندگی کی راحتیں نصیب ہوجائیں۔ اگر حق و صداقت کی زندگی گذارنے میں انہیں دشواریوں ‘ مصائب اور پریشانیوں سے واسطہ پڑتا ہے تو انہیں اس بات کا پورا یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں انہیں ان تمام باتوں کا بدلہ ضرور عطا فرمائیں گے۔ ایسے لوگوں کی دنیاوی زندگی اور آخرت کی زندگی کامیابیوں سے ہمکنار ہوتی ہے۔ حق و باطل پر چلنے والے یہی دو گروہ ہیں جن کے متعلق ان آیات میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔ فرمایا کہ ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان اور عمل صالح کا راستہ اختیار کیا ہے اور وہ اس دنیا میں ہر اس بات سے رک گئے ہیں جن سے انہیں منع کیا گیا تھا تو آخرت میں انہیں ہر طرح کی راحتیں عظا کی جائیں گی۔ جو مرد اللہ کے حکم کے تحت ریشمی لباس جس کے پہننے کی ممانعت کی گئی تھی اس سے اس دنیا میں رک گئے ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کو ایسے ریشم کا لباس پہنائیں گے جو جنت ہی میں تیار ہوگا۔ حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اہل جنت کا ریشمی لباس جنت کے پھلوں سے تیار کیا جائے گا۔ (نسائی) حضرت جابر ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں ایک ایسا درخت ہوگا۔ جس سے ریشم پیدا ہوگا اور اہل جنت کا لباس اسی ریشم سے تیار کیا جائے گا۔ (ترمذی) ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے (1) جو مرد دنیا میں ریشم والا لباس پہنے گا اس کو آخرت میں ریشمی لباس نہ دیا جائے گا۔ (2) جو دنیا میں شراب پئے گا وہ آخرت میں شراب سے محروم رہے گا۔ (3) جو شخص دنیا میں سونے چاندی کے برتنوں میں کھائے گا وہ آخرت میں سونے چاندی کے برتنوں میں نہ کھاسکے گا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ تینوں چیزیں اہل جنت کے لئے مخصوص ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ جنت کی راحتیں اور سکون ان لوگوں کو حاصل ہوگا جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا راستہ اختیار کیا ہوگا۔ اس کے بر خلاف جن لوگوں نے یہودیت اور عیسائیت ‘ ستارہ پرستی اور آگ پرستی اور کفر و شرک کا راستہ اختیار کیا ہوگا۔ وہ جنت کی راحتوں سے محروم رہیں گے۔ قیامت کے دن اس کا فیصلہ کردیا جائے گا اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ جن لوگوں نے اللہ اور رسول کی نافرمانی کا طریقہ اختیار کیا ہوگا۔ ان کی سزا یہ ہوگی کہ جہنم کی آگ ان کو چاروں طرف سے اس طرح گھیرلے گی جس طرح لباس انسانی بدن کو گھیر لیتا اور ڈھانپ لیتا ہے۔ پھر ہتھوڑوں سے ان کے سر کچل کر ان پر ایسا گرم اور کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا جس سے ان کے نہ صرف بدن جھلس جائیں گے بلکہ ان کے پیٹ کے اندر تک کے حصوں کو جلا کر راکھ کردیا جائے گا۔ پھر ان کو اصل حالت پر لوٹا کر دوبارہ سزا دی جائے گی اور یہ سلسلہ چلتا ہی رہے گا۔ اگر وہ اس سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو ان کو دوبارہ اسی جہنم کی طرف دھکیل دیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ تم اپنے کئے کا مزہ چکھو۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جو ایمان اور عمل صالح کے راستے پر چلیں گے ان کے لئے ایسی جنتیں ہوں گی جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی۔ ان کو سونے چاندی اور موتیوں کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ ان کا ریشمی لباس ہوگا۔ ہر طرف سے خیر و بھلائی کی صدائیں ہوں گی لیکن وہ لوگ جنہوں نے کفر کی روش اختیار کرتے ہوئے اللہ کے گھر سے لوگوں کو صرف اس لئے روکا ہوگا۔ کہ وہ اس میں اللہ کا نام کیوں لیتے ہیں یا بیت اللہ کی زیارت سے لوگوں کو کسی بھی طرح روکا ہوگا یا مقامی اور باہر سے آنے والے زائرین کے راستے میں رکاوٹیں ڈالی ہوں گی تو ان کو اس کی سزا دنیا اور آخرت میں دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کے انسانوں کو اس طرف متوجہ فرمایا ہے کہ کیا وہ کائنات میں یہ نہیں دیکھتے کہ زمین و آسمان ‘ چاند ‘ سورج ‘ ستارے پہاڑ درخت اور ہر جان دار اسی ایک اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے اس کے سامنے سجدے کی حالت میں ہیں یہ کائنات اور اس کا ذرہ ذرہ اللہ نے انسان کے لئے پیدا کیا۔ کائنات کی ہر چیز تو اللہ کے سامنے جھکی ہوئی ہے لیکن انسان کتنا نا شکرا ہے کہ وہ اپنے اللہ کو بھول کر اس کے سامنے سرجھکانے کے بجائے غرور ‘ تکبر اور کفر و شرک کا راستہ اختیار کئے ہوئے ہے۔
Top