Baseerat-e-Quran - Al-Hajj : 26
وَ اِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰهِیْمَ مَكَانَ الْبَیْتِ اَنْ لَّا تُشْرِكْ بِیْ شَیْئًا وَّ طَهِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَ الْقَآئِمِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ
وَاِذْ : اور جب بَوَّاْنَا : ہم نے ٹھیک کردی لِاِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم کے لیے مَكَانَ الْبَيْتِ : خانہ کعبہ کی جگہ اَنْ : کہ لَّا تُشْرِكْ : نہ شریک کرنا بِيْ : میرے ساتھ شَيْئًا : کسی شے وَّطَهِّرْ : اور پاک رکھنا بَيْتِيَ : میرا گھر لِلطَّآئِفِيْنَ : طواف کرنے والوں کے لیے وَالْقَآئِمِيْنَ : اور قیام کرنے والے وَالرُّكَّعِ : اور رکوع کرنے والے السُّجُوْدِ : سجدہ کرنے والے
اور یاد کرو جب ہم نے ابراہیم کو بیت اللہ کی جگہ بتادی اور (ہم نے حکم دیا کہ) اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرنا۔ اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘ قیام کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والود کے لئے پاک رکھنا۔
لغات القرآن آیت نمبر 26 تا 33 : بو أنا (ہم نے ٹھکانہ دیا۔ پناہ دی) ‘ طھر (پاک رکھ) ‘ قائمین (کھڑے ہونے والے) ‘ اذن (اعلان کردے) ‘ رجالا (راجل) (پیدل چلنے والے) ‘ ضامر (دبلی پتلی اونٹیاں) ‘ فج (راستہ) ‘ عمیق (گہرا۔ دور تک جانے والا راستہ) ‘ لیشھدوا (تاکہ وہ دیکھے ۔ تاکہ وہ حاضر ہو) ‘ بھیمۃ (مویشی) ‘ الانعام (جانور) ‘ اطعمو (کھلائو) ‘ البائس (بدحال) ‘ لیقضوا (تاکہ وہ دور کرے) ‘ تفت (میل کچیل) ‘ نذور (نذر) (منتیں) (ارکان حج و قربانی) ‘ العتیق (پرانا۔ قدیم) ‘ یعظم (تعظیم کرتا ہے۔ احترام کرتا ہے) ‘ حرمات اللہ (اللہ کی محترم باتوں کی۔ شائر اللہ کی) ‘ اجتنبوا (تم بچو) ‘ الرجس (گندگی) ‘ اوثان (بت ۔ بتوں) ‘ الزور (جھوٹ۔ گھڑی ہوئی بات) ‘ حنفاء (حنیفۃ) یکسو ہونے والے۔ ایک رخ اختیار کرنے والے) ‘ خر (گرپڑا) ‘ تخطف (اچک لیتی ہے) ‘ سحیق (دور۔ بہت دور۔ دور دراز) ۔ تشریح : آیت نمبر 26 تا 33 : اعلان نبوت کے وقت مکہ مکرمہ اور آس پاس کے رہنے والے قبیلوں کے اکثر لوگ حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کا بیحد احترام کرتے اور ان کی طرف اپنی نسبت کرنے پر فخر کرتے تھے لیکن ان تمام محبتوں اور نسبتوں کے باوجود وہ لوگ مشرکانہ اور جاہلانہ عقیدوں کی گندگیوں میں مبتلا تھے۔ جن مشرکانہ عقائد سے دوررہنے کے لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بےانتہا قربانیاں پیش کیں ‘ جدوجہد کی اور ہر طرح کی تکلیفیں برداشت کیں اور جن باتوں سے وہ زندگی بھر روکتے رہے وہی ساری حرکتیں کرنے میں کفار مکہ سب سے آگے تھے۔ (1) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بت شکن تھے لیکن ان کے نام پر فخر کرنے والوں نے اللہ کے گھر میں تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے ۔ (2) وہ اللہ کے گھر میں اللہ سے مانگنے کے بجائے اپنی حاجتوں ‘ ضرورتوں اور تمناؤں کو (اپنا سفارشی سمجھ کر) بےجان اور بےحقیقت بتوں سے مانگتے تھے۔ (3) وہ اپنی قربانیوں کے جانوروں کو اللہ کا نام لینے کے بجائے بتوں کے نام پر ذبح کرتے تھے جس کے لیے انہوں نے طرح طرح کی رسمیں گھڑ رکھی تھیں۔ (4) حج جیسی عبادت کے بعد وہ عکاظ میں میلے ٹھیلے مناتے جس میں کھیل کود ‘ مشاعرے ‘ ناچ رنگ کی محفلیں اور بےحیائیوں کے انداز اختیار کرتے تھے۔ (5) انہوں نے اللہ کے گھر کو اپنی ذاتی جاگیر بنا رکھا تھا جس کو چاہتے بیت اللہ کی زیارت سے روک دیتے تھے اور جس کو چاہتے اجازت دیتے تھے۔ (6) عقیدوں کی لاتعداد گندگیوں میں مبتلا تھے۔ (7) وہ اللہ کے شعائر (نشانیوں) کا احترام نہ کرتے تھے ۔ ان آیات میں یہ بتایا جارہا ہے کہ جب طوفان نوح میں بیت اللہ شریف کی دیواریں گرچکی تھیں تو اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے اس گھر کی دوبارہ تعمیر فرمائی تھی انہوں نے اس بات کا کھل کر اعلان کردیا تھا کہ یہ گھر صرف ایک اللہ کی عبادت و بندگی کے لئے ہے جس میں ہر طرح کے مشرکانہ عمل اور کافر انہ رسموں سے مکمل پرہیز کیا جائے گا۔ لیکن کفار مکہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قربانیوں ‘ مقصد اور مشن کو قطعاً نظر انداز کردیا تھا اور جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہے تھے ۔ یہاں تک کہ اللہ نے اپنے آخری نبی اور آخری رسول حضرت محمد ﷺ کو بھیج کر ان تمام باتوں کی طرف متوجہ کیا ہے جن کو لے کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھیجے گئے تھے ۔ حضرت ابراہیم ؐ خلیل اللہ کی زبان مبارک سے یہ کہلایا گیا ہے کہ اے الوگو ! (1) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ (2) اللہ کے گھر طواف کرنے والوں ‘ وہاں کے رہنے والوں ‘ رکوع اور سجود کرنے والوں کے لئے (بتوں کی ہر گندگی سے) اس گھر کو پاک و صاف رکھو۔ (3) حج کے لئے اذن عام ہے ہر شخص جس طرح اور جیسے جس سواری پر سوار ہو کر آسکتا ہے آئے اور اس عبادت کے ہر طرح کے فائدوں کو کھلی آنکھوں سے دیکھے۔ (4) تمام مویشیوں کو اللہ کے نام پر ذبح کیا جائے۔ بتوں کے نام پر ذبح نہ کیا جائے۔ ان جانوروں کے گوشت کو خود بھی کھائے (مستحب ہے کہ) غریبوں اور رشتہ داروں کو بھی کھلائے۔ (5) حج کے بعد اللہ کا ذکر کیا جائے اور ہر طرح کی جسمانی اور روحانی پاکیزگی حاصل کی جائے۔ (6) جو جائز منتیں مان رکھی ہیں ان کو پورا کیا جائے۔ (7) حج کے بعد بیت اللہ کا طواف (طواف زیارت) کیا جائے اور خوب دیوانہ وار بیت اللہ کے گرد طواف کئے جائیں۔ (8) دلوں کا تقویٰ حاصل کرنے کے لئے اللہ کے شعائر (بیت اللہ ‘ صفا ‘ مروہ ‘ منیٰ ‘ عرفات ‘ مساجد ‘ قرآن) کا احترام کیا جائے۔ (9) بیت اللہ کو ہر طرح کے بتوں سے پاک و صاف رکھا جائے۔ (10) ہر طرح کی جھوٹ ‘ من گھرٹ رسموں اور جھوٹی باتوں سے دورہا جائے۔ (11) بیت اللہ میں صرف ایک اللہ کی عبادت و بندگی کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ (12) حج کی تمام قربانیوں کے جانوروں کو حرم محترم ہی میں (مقرر دنوں میں) ذبح کیا جائے۔ یہی وہ احکامات ہیں جن کو ان آیات میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔ ان آیات کے سلسلہ میں چند باتیں وضاحت کے لئے پیش ہیں۔ بخاری و مسلم میں روایت ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر دس مرتبہ ہوئی ہے۔ (1) اللہ کے حکم سے اللہ کے فرشتوں نے سب سے پہلے بیت اللہ کی تجویز کی گئی جگہ پر تعمیر کی۔ (2) حضرت آدم (علیہ السلام) نے تعمیر فرمائی۔ (3) حضرت شیث (علیہ السلام) نے ۔ (4) حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) نے ۔ (5) عمالقہ نے ۔ (6) حارث جرہمی نے ۔ ۔ (7) قریش کے مورث اعلی قصی نے ۔ (8) قریش مکہ نے ۔ (9) 24؁ ٍْحضرت عبداللہ ابن زبیر ؓ نے (10) اور حجاج ثقفی نے ۔ گیارہوں صدی ہجرت میں مکہ مکرمہ میں زبردست طوفانی بارش ہوئی جس سے بیت اللہ شریف میں پانی بھر گیا۔ پانی اتنا اونچا تھا کہ پانی بیت اللہ کے دروازے (ملتزم) تک پہنچ گیا تھا۔ اس طوفان سے رکن شامی اور غربی دیوار کو زبردست نقصان پہنچا اور دیواریں شکستہ ہوگئی تھیں سلطان مراد کے حکم سے دوبارہ تعمیر بیت اللہ کی گئی۔ موجودہ زمانہ میں بیت اللہ کی یہی عمارت ہے جس پر کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ ٭اللہ نے اب حرمین کی حفاظت اور ہر طرح کی عقیدہ کی گندگیوں سے پاک صاف رکھنے کا یہ انتظام فرمادیا کہ حرمین میں کسی غیر مسلم کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ موجودہ سعودی حکومت توحید کے عقیدے پر اس سختی سے قائم ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا ( اور انشا اللہ جاری رہے گا) تو کبھی عقیدے کی گندگی بھی اس گھر تک نہ پہنچ سکے گی۔ کیونکہ حکومت سعودی عربیہ اس بات کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے کہ بیت اللہ شریف اور روضہ مبارک پر کوئی کسی طرح کی فضول رسم جاری نہ ہونے پائے۔ اگر بیت اللہ شریف کا انتظام ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتا جنہوں نے معمولی معمولی قبروں کو سجدہ گاہ بنا دیا ہے تو نجانے بیت اللہ شریف اور روضہ مبارک پر کیا کچھ نہ ہوتا۔ اللہ تعالیٰ حکومت سعودی عربیہ کو مزید ہمت و طاقت عطا فرمائے اور اللہ کا گھر قیامت تک ہر طرح کی گندگیوں سے محفوظ رہے ۔ آمین ٭فرمایا کہ حج کے فائدوں کو ہر شخص کھلی آنکھوں سے دیکھے۔ اگر چہ بعض دنیاوی فائدے حاصل کرنے کی بھی اجازت ہے لیکن درحقیقت یہ فائدہ ہر شخص کو کھلی آنکھوں سے نظر آتا ہے کہ جو سکون قلب اور تکمیل کا احساس حج کے دوران نصیب ہوتا ہے وہ ساری دنیا کی دولت خرچ کرے کے باوجود نصیب نہیں ہو سکتا۔ یہ دعاؤں کا مرکز ہے۔ یہاں ہر شخص براہ راست اپنے اللہ سے مانگتا ہے اور ایک خاص سکون حاصل کرتا ہے۔ اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ پھر حج کے بعد اس کی حاضری نبی کریم ﷺ کے روضہ مبارک پر ہوتی ہے یہاں انوارات اور برکتوں کا ایک سلسلہ ہے جو انسان کو کھلی آنکھوں سے نظر آتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس فائدے کے سامنے ہر فائدہ بہت معمولی ہے بلکہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ٭حج کے دنوں میں اور بعد میں جب تک جانوروں کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام نہ لیاجائے اس وقت تک وہ حلال نہیں ہوتے۔ کفار بتوں کے نام پر جانوروں کو ذبح کرتے تھے ایک مومن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ہر حلال جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح کرے۔ اللہ کا نام لئے بغیر کسی جانور کا ذبح کرنا جائز نہیں ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ جس وقت جانور کو ذبح کیا جارہا ہے اسی وقت اللہ کا نا لیا جائے۔ ٭اس سفر میں باہمی محبت ‘ خلوص اور ہم آہنگی کی ایک ایسی فضا پیدا ہوتی ہے جس سے اہل ایمان کو ایک خاص قوت و طاقت حاصل ہوتی ہے۔ ہر ایک کا ایک ہی لباس ہوتا ہے خواہ وہ باد شاہ ہو یا ایک غریب آدمی۔ ایک ہی کلمہ ‘ ایک ہی جذبہ اور ایک ہی رخ ہوتا ہے۔ یہ فائدے بھی ہیں جو انسان کو کھلی آنکھوں سے نظر آتے ہیں۔
Top