Baseerat-e-Quran - Al-Hajj : 67
لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوْهُ فَلَا یُنَازِعُنَّكَ فِی الْاَمْرِ وَ ادْعُ اِلٰى رَبِّكَ١ؕ اِنَّكَ لَعَلٰى هُدًى مُّسْتَقِیْمٍ
لِكُلِّ اُمَّةٍ : ہر امت کے لیے جَعَلْنَا : ہم نے مقرر کیا مَنْسَكًا : ایک طریق عبادت هُمْ : وہ نَاسِكُوْهُ : اس پر بندگی کرتے ہیں فَلَا يُنَازِعُنَّكَ : سو چاہیے کہ تم سے نہ جھگڑا کریں فِي الْاَمْرِ : اس معاملہ میں وَادْعُ : اور بلاؤ اِلٰى رَبِّكَ : اپنے رب کی طرف اِنَّكَ : بیشک تم لَعَلٰى : پر هُدًى : راہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھی
ہر امت کے لئے ہم نے عبادت کا طریقہ مقرر کردیا ہے جس پر وہ بندگی کرتے ہیں۔ انہیں آپ سے اس معاملہ میں جھگڑا نہیں کرنا چاہیے آپ ان کو اپنے پروردگار کی طرف بلاتے رہیے۔ بیشک آپ سیدھی راہ پر ہیں۔
لغات القرآن آیت نمبر 67 تا 72 : امۃ (امت۔ جماعت) ‘ منسکا (طریقہ عبادت و بندگی) ‘ ناسکون (وہ اس (طریقہ) پر عبادت کرتے ہیں۔ عبادت کرنے والے) ‘ ینازعن (وہ جھگڑا کرتے ہیں) ‘ ادع (بلائیے۔ دعوت دی جئے) ھدی (ہدایت) ‘ جادلو (وہ جھگڑنے والے ہیں) ‘ یسیر (آسان) ‘(لم ینزل ( نہیں اتارا) ‘ سلطان (سند۔ دلیل) ‘ المنکر (ناگوار) ‘ یکادون (وہ قریب ہوتے ہیں) ‘ یسطون (وہ حملہ کرتے ہیں) ‘ انبئی (میں بتاتا ہوں) ۔ تشریح : آیت نمبر 67 تا 72 : اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے جتنے رسول بھیجے انہوں نے اللہ کے حکم سے اپنی امتوں کو طریق عبادت سکھایا۔ خاتم الانبیا حضرت مصطفیٰ ﷺ کو بھی اللہ نے عبادت کے طریقے سکھائے تاکہ ساری دنیا کے مسلم ایک اللہ کی عبادت و بندگی کریں اور ان کی زندگی کے ہر کام میں ایسا خلوص پیداہو جائے جس سے ان کا ہر کام صرف اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے ہوجائے۔ اللہ کو یاد کرنے کے یہ طریقے مختلف ضرور ہو سکتے ہیں لیکن ایک بات پر سب کا اتفاق رہا ہے کہ عبادت صرف اللہ کے لئے ہوجائے۔ اللہ کو یاد کرنے کے یہ طریقے مختلف ضور ہو سکتی ہیں لیکن ایک بات پر سب کا اتفاق رہا ہے کہ عبادت صرف اللہ کے لئے ہوئی ہے۔ لہٰذا جب اس بات کو بنیاد بنا لیاجائے گا تو پھر کسی طرح کا اختلاف نہ رہے گا۔ لیکن اختلاف جس عبادت میں ہوتا ہے وہ طریقہ بندگی ہے جس میں غیر اللہ کو شامل کیا جاتا ہے۔ جب وہ لوگ غیر اللہ کی عابدتو بندگی میں شریک کرنے لگتے ہیں تو اس کے ماننے والوں کے سامنے اگر غیر اللہ کی عبادت و بندگی سے منع کیا جاء تو وہ اپنے بےحقیقت معبودوں اور ان شخصیتوں کے خلاف سننے کو تیار ہیں ہوتے جو ان کے نزدیک محبوب ہوتے ہیں۔ جب وہ علمی بات کا جواب علم و دلیل کی روشنی میں دینے سے اپنے آپ کو بےبس محسوس کرتے ہیں تو وہ ان لوگوں پر ٹوٹ پڑتی ہیں جو حق و صداقت کے علم بردارہوتے ہیں اور وہ ان کو جڑ و بنیاد سے اکھاڑ پھینکنے میں اپنی ساری صلاحیتوں کو لگا دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اسی حقیقت کو بیان کیا ہے کہ اللہ نے ہر (رسول کی) امت کو ایک طریق عبادت و بندگی عطا کیا تھا اور اسی طرح نبی کریم ﷺ کو بھی عطا کیا گیا ہے لہٰذا اس میں اختلاف کرنے او جھگڑنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ آپ اپنے پروردگار کی طرف بلاتے رہیے کیونکہ اللہ اس بات پر گواہ ہے کہ آپ بالکل سیدھے اور سچے راستے پر ہیں۔ اگر پھر بھی وہ اختلاف کرتے ہیں تو آپ کہہ دیجئے اللہ تمہارے کرتوتوں سے اچھی طرح واقف ہے۔ قیامت دور نہیں ہے اس دن اس بات کا بھی فیصلہ کردیا جائے گا کہ جن باتوں میں وہ اختلاف کرتے تھے ان کی اصل حقیقت کیا ہے۔ آسمانوں اور زمین کا ایک ذرہ بھی اس کی نگاہوں سے چھپا ہوا یا پوشیدہ نہیں ہے۔ بلکہ ہر بات اللہ کے ریکارڈ میں موجود ہے جس کو ریکارڈ کرنا اور اس کے مطابق فیصلہ کرنا اللہ کے لئے ذرا بھی مشکل یا دشوار نہیں ہے۔ فرمایا کہ یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر جن (بتوں ‘ چیزوں ‘ اور شخصیتوں کی) عبادتو بندگی کر رہے ہیں نہ تو اللہ نے اس کے لئے کوئی دلیل اور نشانی بھیجی ہے اور نہ اس کی کوئی علمی بنیاد ہے ایسے بےانصاف لوگوں کا کوئی حمایتی اور مدد گار نہیں ہے۔ ان کا یہحال ہے کہ اے نبی ﷺ ! جب آپ ان کے سامنے اللہ کی آیات کو پوھتے اور سناتے ہیں تو ان کافروں کی تیوریوں پر بل پڑنے شروع ہوجاتے ہیں۔ جب وہ اس سچی اور حقیقی بات کو سن کر اس کا ٹھوس جواب نہیں دے سکتے تو آگ بگولا ہوجاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ سچائی بتانے والوں پر حملہ کرکے ان کو تباہ وبرباد کردیں گے۔ فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! آپ ان لوگوں سے جو آیات قرآنی کو سننا گوارا نہیں کرتے کہہ دیجئے کہ مرنے کے بعد سب سے بد ترین ٹھکانا اور بدترین آگ جہنم کی آگ ہے۔ تمہاری دشمنی تمہیں آخرکار اس آگ میں جھونک دے گی۔ اور اس طرح اللہ نے جو وعدہ کیا ہے وہ پورا ہو کررہے گا۔
Top