Baseerat-e-Quran - Al-Muminoon : 12
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍۚ
وَ : اور لَقَدْ خَلَقْنَا : البتہ ہم نے پیدا کیا الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ : سے سُلٰلَةٍ : خلاصہ (چنی ہوئی) مِّنْ طِيْنٍ : مٹی سے
اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے بنایا۔
لغات القرآن : آیت نمبر 12 تا 16 : سلالۃ (سل) (منتخب چیز۔ خلاصہ۔ نچوڑ) ‘ طین (مٹی) ‘ نطفۃ (ٹپکی ہوئی بوند) ‘ قرار مکین (محفوظ مقام) ‘ علقۃ (جما ہوا خون) ‘ مضغۃ (بوٹی۔ لوتھڑا) ‘ عظام (عظم) (ہڈیاں) ‘ کسونا (ہم نے پہنایا۔ ہم نے چڑھایا) ‘ لحم (گوشت) ‘ انشأنا (ہم نے اٹھا کھڑا کیا) ‘ خلق (مخلوق) ‘ احسن (زیادہ بہتر۔ زیادہ خوبصورت) ‘ میتون (مرنے والے) ‘ تبعثون (تم اٹھائے جائو گے) ۔ تشریح : آیت نمبر 12 تا 16 : موجودہ دور سائنسی ترقیات ‘ ٹیکنالوجی اور نت نئی مشینوں کی ایجاد کا دور ہے۔ معلومات کی دنیا میں انسان کے قدم ہر روز آگے بڑھ رہے ہیں۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ سائنسی ترقیات سے دین اسلام کے کسی اصول کی نفی یا تردید نہیں ہورہی ہے بلکہ اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد ﷺ کے ارشادات کی حقانیت اور سچائی دن کی روشنی کی طرح پھیلتی چلی جارہی ہے۔ مثلاً آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے یہ بات ناممکن اور ایک پوشیدہ حقیقت تھی کہ جو بچہ کسی ماں کے پیٹ میں پرورش پارہا ہے اور جن مرحلوں سے گذر رہا ہے اس کی کیفیات کیا ہیں۔ اس کے لئے کچھ اندازے کر لئے جاتے تھے اور ان پر ہی فیصلے کئے جاتے تھے۔ لیکن نت نئی مشینوں کی ایجاد نے ان تمام کیفیات کے مشاہدے کو آسان کردیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی تخلیق اور اس کی بناوٹ کو اللہ نے جیسے ترتیب دیا ہے اور ان کو مختلف مرحلوں سے گذارا جاتا ہے جبان کو مشینی آنکھ سے مشاہدہ کیا جاتا ہے تو ان میں کوئی تضاد یا اختلاف نظر نہیں آتا۔ یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ قرآن کریم اللہ کا سچا کلام ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو جدید سائنسی تحقیقات اور قرآن کریم کے بیان میں حیرت انگیز یکسانیت نہ ہوتی۔ ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ ایک انسانی بچہ ماں کے پیٹ میں سات مختلف مرحلوں سے گذر کر جسمانی تکمیل تک پہنچتا ہے ۔ اگر آدمی اپنی پیدائش کے نازک اور پر پیچ مرحلوں پر ہی غور کرلے تو اس کے لئے اللہ پر ایمان لانا بہت آسان ہوجاتا ہے۔ (1) فرمایا کہ پہلا مرحلہ ” سلالۃ من طین “ ہے۔ عربی میں سلالۃ کے معنی منتخب اور چینی ہوئی چیز کے آتے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو انتخاب کی ہوئی مٹی اور اس کے چنے ہوئے اجزاء سے پیدا کیا ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے دنیا کے سب سے پہلے انسان حضرت آدم کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا تھا۔ جن سے انسانی تخلیق و پیدائش کا آغاز ہوا۔ پھر اللہ نے حضرت حوا کو پیدا کر کے ان دونوں سے دنیا کے انسانوں کو پھیلادیا۔ اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ (2) اب اسی چنی ہوئی اور مٹی کے منتخب اجزاء سے یا انسانی غذاؤں سے نطفہ بنتا ہے۔ جو رحم مادر میں ایک مناسب وقت تک رہتا ہے اور قرار پاتا ہے اور (3) رحم مادر میں کچھ دن پڑا رہنے کے بعد وہ جمے ہوئے خون کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ (4) پھر یہ جما ہوا خون گوشت کی بوٹی جیسا بن جاتا ہے۔ (5) پھر اسی گوشت کی بوٹی میں سے ہڈیوں کا ڈھانچہ پھوٹنا شروع ہوجاتا ہے۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ تیار ہونے کے بعد (6) ان ہڈیوں پر گوشت چڑھا یا جاتا ہے۔ اس طرح انسانی ڈھانچے کی شکل بن جاتی ہے۔ (7) اب وہ مرحلہ آجاتا ہے کہ جہاں اس انسانی ڈھانچے میں اللہ کی طرف سے روح پھونکی جاتی ہے۔ پھر تکمیل کے ان مختلف مرحلوں سے گذر کر مکمل انسانی شکل اختیار کر کے اس زمین پر قدم رکھتا ہے یہ تما مرحلے اللہ کے حکم ‘ علم اور قدرت سے تکمیل تک پہنچتے ہیں۔ اتنے مختلف مرحلوں سے گذر کر انسانی بچہ دنیا میں قدم رکھتا ہے نوجوانی ‘ جوانی اور ادھیڑ عمری کے مرحلوں سے گذر کر وہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جاتا ہے اور آخر کا طبعی عمر گذار نے کے بعد موت کی آغوش میں جا کر سو جاتا ہے۔ قبر میں ایک لمبی سی نیند لے کر پھر اللہ کے حکم سے دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور میدان حشر میں زندگی کے ہر لمحے کا حساب لیاجائے گا۔ فرمایا کہ انسان پیدائش ‘ زندگی ‘ موت اور پھر زندہ کئے جانے کے جن مرحلوں کو طے کرتا ہوا گذرتا ہے وہ سب کے سب اللہ کے علم اور قدرت سے تکمیل تک پہنچتے ہیں۔ فرمایا کہ جس کو اس بات پر یقین ہے کہ اللہ ہی ہے جو انسان کو ان مختلف مرحلوں سے گذار کر جیتا جاگتا انسان بنانے پر پوری قدرت و طاقت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا خالق نہیں ہے تو وہی اللہ انسان کے مرجانے کے بعد اس کے ان ہی اجزاء کو جمع کرکے دوبارہ پیدا کرنے پر قدرت کیوں نہیں رکھتا ؟ یقیناً اسی ایک اللہ کی یہ قدرت ہے جو تمام انسانوں کو دوبارہ پیدا فرمائے گا۔ جو اللہ ایک قطرہ سے زندہ انسان بنانے پر قدرت رکھتا ہے تو کیا وہ انسان کے مرجانے کے بعد اس کو دوبارہ پیدا کرنے سے عاجز اور بےبس ہو سکتا ہے۔ ہرگز نہیں۔ وہی اللہ بہترین تخلیق کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ اور وہی سب پیدا کرنے والوں میں سب سے بہتر پیدا کرنے والا ہے۔
Top