Tadabbur-e-Quran - An-Nisaa : 26
یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْكُمْ١ۚ وَ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا
يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يُّخَفِّفَ : ہلکا کردے عَنْكُمْ : تم سے وَخُلِقَ : اور پیدا کیا گیا الْاِنْسَانُ : انسان ضَعِيْفًا : کمزور
جو فضول باتوں سے منہ پھیرتے ہیں
(2) ان آیات میں اہل ایمان کی دوسری صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ لغو اور فضول باتوں سے دور رہتے ہیں۔ دراصل لغو ‘ فضول ‘ بیکار اور لا حاصل کاموں میں پڑ کر آدمی اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو ضائع اور برباد کرتا ہے۔ قرآن کریم میں ایک جگہ یہ ارشاد فرمایا کہ ” اہل ایمان جب کسی ایسی جگہ سے گذرتے ہیں جہاں لغو اور فضول باتیں ہورہی ہیں تو وہ وہاں سے مہذب طریقے پر پہلو بچا جاتے ہیں۔ یعنی وہ فضول باتوں کی ہمت افزائی نہیں کرتے اور وہ لوگ جو اس بےہودہ مشغلے میں لگے رہتے ہیں ان پر یہ ظاہر کردیتے ہیں کہ انہیں ایسی لغو اور گناہ کی باتوں سے کئی دلچسپی نہیں ہے۔ اسی طرح اللہ نے اہل ایمان سے جس جنت کا وعدہ کیا ہے اس کی ایک خصوصیت یہ ہوگی کہ وہ اس جنت میں کوئی لغو اور فضول بات نہ سنیں گے “۔ ان آیات میں نماز میں خشوع و خضوع کا ذکر کرنے کے عبد لغو بات سے پرہیز کرنے کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز ایک ایسی عبادت ہے جو انسان کو لغو اور فضول باتوں سے روکتی ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔ بیشک نماز ہر طرح کی بےحیائی اور ہر طرح کے فضول ‘ لغو اور ناجائز کاموں سے روکتی ہے۔ دراصل دکھاوا ‘ نمائش ‘ بےغیرتی ‘ بےحیائی ‘ برے خیالات ‘ گندے جذبات اور گناہوں کے تمام پہلو فضول اور بےہودہ ہیں جو انسان کی زندگی کو گھن اور دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں۔ لیکن نماز اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی جام عبادت ہے جس میں مشغولیت انسانوں کو مذکورہ گناہوں سے ہٹا کر نیکیوں کی راہ پر گامزن کردیتی ہے۔ نماز کا کام ہی یہ ہے کہ وہ تقویٰ اور پرہیز گاری کی صفات پیدا کردیتی ہے لیکن اگر کوئی شخص لغو یات ‘ فضول باتوں اور گناہوں سے باز نہیں آتا تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کی نماز ایک رسم ‘ خانہ پری اور عادت سے زیادہ کچھ نہیں ہے ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص نماز کا پابند ہو اور وہ نماز اس کے دل کا نورنہ بن جائے اور اس کو روحانی ترقی و عظمت سے ہم کنار نہ کردے۔
Top