Baseerat-e-Quran - Al-Muminoon : 45
ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى وَ اَخَاهُ هٰرُوْنَ١ۙ۬ بِاٰیٰتِنَا وَ سُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍۙ
ثُمَّ : پھر اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجا مُوْسٰى : موسیٰ وَاَخَاهُ : اور ان کا بھائی هٰرُوْنَ : ہارون بِاٰيٰتِنَا : ساتھ (ہماری) اپنی نشانیاں وَ سُلْطٰنٍ : اور دلائل مُّبِيْنٍ : کھلے
پھر ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو اپنی نشانیاں اور کھلے دلائل کے ساتھ
لغات القرآن آیت نمبر 45 تا 50 : سلطان مبین (کھلے دلائل) ‘ استکبروا (انہوں نے تکبر کیا۔ بڑائی کی) ‘ عالین (سرکش) ‘ عابدون (عبادت کرنے والے) ‘ اوینا (ہم نے ٹھکانہ دیا) ‘ ربوۃ (بلند ٹیلہ۔ اونچا مقام) ‘ ذات قرار (ٹھہرنے کی جگہ۔ سکون کی جگہ) ‘ معین (جاری پانی۔ چشمہ) ۔ تشریح : آیت نمبر 45 تا 50 : حضرت نوح (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کرنے کے بعد بعض نبیوں کی امتوں کا نام لئے بغیر ان کا تذکرہ فرمایا گیا ہے اور ان آیات میں خاص طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر خیر فرمایا گیا ہے ان واقعات کو اس لئے بھی بیان کیا گیا تاکہ نبی کریم ﷺ اور آپ ﷺ کے جاں نثار صحابہ کرام ؓ کو اس سے تسلی ہوجائے کہ اگر آج قریش مکہ نبی کریم ﷺ اور آپ کی لائی ہوئی تعلیمات کو جھٹلا رہے ہیں اور طرح طرح ستا رہے ہیں تو یہ کوئی ایسی نئی یا انوکھی بات نہیں ہے۔ بلکہ منکرین اور متکبرین کا ہمیشہ سے یہی طریقہ رہا ہے کہ اللہ کے نبی جب بھی تشریف لائے تو ان کو جھٹلایا گیا اور ہر طرح ستایا گیا لیکن جن لوگوں نے ان کو جھٹلایا ان کا انجام بھی بڑا بھیانک اور عبرت ناک ہوا ہے۔ اگر آج یہ کفار مکہ آپ کی بات سننے سے انکار کررہے ہیں اور اپنے دنیاوی مفادات کی خاطر ابدی سچائی کو جھٹلا رہے ہیں تو ان کا انجام بھی دوسری گذری ہوئی قوموں سے مختلف نہ ہوگا۔ لیکن اگر انہوں نے ایمان کا راستہ چن لیا تو دین و دنیا کی تمام عظمتیں عطا کی جائیں گی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور نبی کریم ﷺ کے واقعات میں بڑی یکسانیت ہے جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مصر سے مدین ہجرت کرنا پڑی اور یہدوی ظالم بادشاہ ہیرودس کی شدید مخالفت نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے دل میں اس بات کو الہام فرمادیا کہ یہ ظالم بادشاہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنا چاہتا ہے تو حضرت مریم (علیہ السلام) آپ کو لے کر مصر کی طرف ہجرت فرما گئیں۔ جب تک اس ظالم بادشاہ کی موت واقع نہیں ہوگئی وہ فلسطین واپس نہیں آئیں۔ اسی طرح جب کفار مکہ نے نبی کریم ﷺ اور آپ کے جاں نثاروں کو طرح طرح کی اذیتیں دیں اور نبی کریم ﷺ کے قتل کرنے کی سازشیں کیں تو آپ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ بیت اللہ کی سرزمین مکہ مکرمہ چھوڑ نے پر مجبور کردیئے گئے اور آپ نے اور آپ کے صحابہ کرام ؓ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ اور انبیا کی طرح آپ کا ہجرت فرمانا اس بات کی واضح اور روشن دلیل تھی کہ اگر کفار مکہ نے دین اسلام کو قبول نہیں کیا تو ان کو بھی سخت سزاد ئیے جانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے عظیم پیغمبر اور بنی اسرائیل کے ایک فرد تھے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں بنی اسرائیل کے کچھ افراد مصر میں آباد ہوگئے تھے ۔ جن کی تعدا روز بروز بڑھنا شروع ہوئی۔ اور دین اسلام کی تبلیغ کی برکت تھی کہ بنی اسرائیل کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی۔ جب تک بنی اسرائیل انبیاء کرام کے راستے پر چلتے رہے اور ان کی لائی ہوء تعلیمات کو مشعل راہ بنائے رہے قوم بنی اسرائیل عزت و عظمت کی سر بلندیوں پر فائز رہی لیکن جب انہوں نے انبیاء کی اولاد ہونے کے باوجود انبیاء کا راستہ چھوڑ دیا تو وہی قوم ذلتوں کی پستی میں گرتی چلی گئی۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے وصال کے بعد حالات نے ایک نئی کروٹ لی اور مصری حکومت کا انتظام قبطیوں کے ہاتھ میں چلا گیا۔ ان کے باشاہوں کا لقب فرعون تھا۔ فرعون اور اس کے ماننے والے اگرچہ بہت تھوڑے سے تھے اور بنی اسرائیل کی تعداد بہت زیادہ تھی لیکن فرعونوں کے ظلم و ستم اور قوم بنی اسرائیل کی بےحسی اور جہالت نے انہیں اس قدر پست اور ذلیل کردیا تھا کہ قوم بنی اسرائیل کی حیثیت غلاموں جیسی ہو کر رہ گئی اور ہر وہ کام کرنے پر مجبور کردیئے گئے جو معاشرہ کا ذلیل ترین کام تھا۔ انہیں دو وقت کی روٹی اور سر چھپانے کی فکر نے اس درجہ پر پہنچا دیا کہ وہ اپنے منصب اور مقام کو بھول بیٹھے۔ وہ یہ بھول گئے کہ وہ کن نبیوں کی اولاد ہیں۔ اور دنیا پر انہوں نے حکمرانی کی تھی۔ پستی اور ذلت کی انتہا یہ تھی کہ جب فرعون نے بنی اسرائیل کی ماؤں کی گود سے بچے چھین چھین کر ان کے سامنے ان کو ذبح کرنا شروع کیا تو وہ فرعون کی مزاحمت کرنے کی اہلیت تک کھو بیٹھے تھے ۔ حالانکہ ایک بلی جیسی کمزور مخلوق کے بچوں کی طرف بھی اگر کوئی ہاتھ بڑھاتا ہے تو وہ اپنی طاقت کے مطابق حملہ کردیتی ہے مگر بنی اسرائیل کا یہ عالم تھا کہ ان میں کوئی اتحاد و اتفاق نہ تھا اور اس ظالم بادشاہ کے ظلم کا جواب تک دینے کی صلاحیت کھو چکے تھے ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پر جوش خطبات اور تقریروں نے قوم بنی اسرائیل میں ایک نئی زندگی اور اتحاد اتفاق پیدا کردیا۔ انہوں نے قوم کو سمجھایا کہ تمہاری ذلت کا سبب یہی ہے کہ تم نے اللہ کا راستہ چھوڑ دیا ہے تم اس بات کو بھول بیٹھے ہو کہ تم کن انبیاء کی اولاد ہو۔ تمہاری وراثت تو علم اور عمل خیر تھا مگر تم دنیا کی بےحقیقت چیزوں سے دل لگا بیٹھے ہو۔ ایک وقت آیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پوری قوم بنی اسرائیل جن کی تعداد پچیس لاکھ کے قریب تھی مصر سے فلسطین کی طرف ل کر چلے۔ فرعون اور اس کے ماننے والوں کو غرق کردیا گیا اتنے بڑے احسان کے بعد سب کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے تھا مگر فرعون کے غرق ہونے کے بعد بنی اسرائیل پھر سے اللہ کی نافرمانیوں میں لگ گئے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے صحرائے سینا میں ایک کتاب ہدایت توریت نازل فرمائی تاکہ قوم بنی اسرائیل اس پر عمل کر کے اپنی دنیا اور آخرت کو سنوار سکیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون فلسطین پہنچنے سے پہلے وصال فرما گئے۔ فلسطین پہنچ کر بنی اسرائیل نے اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیں بناڈالیں اور اپنے اتحاد و اتفاق کو بھول گئے۔ اور ایک مرتبہ پھر یہ قوم نافرمانیوں میں لگ گئی اور بار بار اللہ کا عذاب نازل ہوتا رہا۔ ان کی چھوٹی چھوٹی ریاستیں کفار و مشرکین کے قبضے میں چلی گئیں اور قوم بنی اسرائیل اس تباہی کے کنارے پہنچ گئی جہاں سے قوموں کی واپسی ناممکن ہوا کرتی ہے۔ انبیاء کرام تشریف لاتے رہے یہ قوم کچھ وقت تک سنبھل جاتی لیکن پھر مسلسل نافرمانیوں کو اپنا مزاج بنا لیتی اسی شدید انتشار کے بعد اللہ نے ان کی اصلاح وہدایت کے لئے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم (علیہ السلام) کو بھیجا۔ اس وقت یہودیوں کی ذہنی پستی کا شاہ کارہیر و دس بادشاہ تھا جو کوئی بھی حق اور سچ بات سننے کے لئے تیار نہ ہوتا تھا ۔ جب اسے کسی ذریعہ سے یہ معلوم ہوا کہ ایک شخص ایسے آنے والے ہیں جن کو سرداری اور عظمت عطا کی جائے گی تو وہ حضرت عیسیٰ کا سخت دشمن بن گیا۔ اس نے ان کو قتل کرنا چاہا تو اللہ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے دل میں اس بات کو الہام فرمایا کہ وہ ان کو لے کر کہیں دور چلی جائیں چناچہ حضرت مریم ؐ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو لے کر مصر تشریف لے گئیں اور جب تک اس یہودی ظالم باد شاہ کا انتقال نہیں ہوگیا اس وقت تک مصر سے فلسطین نہیں آئیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جوان ہوچکے تھے جب فلسطین واپس آکر آپنے اللہ کا دین پہنچانا شروع کیا تو پوری قوم بنی اسرائیل جواب یہودی قوم بن چکی تھی اس نے نہ صرف شدید مخالفت کی بلکہ ہر طرح کی سازشوں کا جال پھیلنا شروع ہوگیا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خطبات اور تقریروں سے لوگوں کی آنکھیں کھلنا شروع ہوئیں تو یہودی اس سے گبھرا گئے اور ان کے گرد ایسا گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا کہ آخر کار ان کو ملک و قوم کا باغی قرار دے کر پھانسی دیئے جانے کا حکم دیدیا گیا۔ اس وقت اللہ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان پر اٹھا لیا ( اب انشا اللہ وہ قیامت کے قریب دوبارہ تشریف لائیں گے) اللہ نے آپ کو انجیل جیسی کتاب عطا فرمائی جو آپ کے جانے کے بعد چند لوگوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن گئی اور انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیمات کو بھلا کر خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا بنا دیا اور قوم کو سمجھایا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں جو تمام دنیا کے انسانوں کے گناہ اپنے اوپر رکھ کر پھانسی چڑھ گئے اور ساری دنیا کے گناہ معاف کرادیئے۔ اس عقیدہ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ماننے والوں کو ایمان اور حسن عمل سے دور کردیا اور اس طرح یہ قوم بھی یہودیوں کی طرح نصاری یا عیسائی کہلانے لگی۔ جب نبی کریم ﷺ کی بعثت ہوئی اس وقت سب سے آگے دین کی علم بردار یہی دو قومیں تھیں۔ بقیہ لوگ اس سے بھی زیادہ کفر و شرک میں مبتلا ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام قوموں کی ہدایت کے لئے اپنے آخری نبی اور آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو بھیجا تاکہ اس مردہ قوم میں ایک نئی زندگی پیدا ہوسکے۔ فرمایا جارہا ہے کہ اگر آخری نبی اور آخری رسول ﷺ کا دامن ہدایت پکڑ لیا گیا تو دنیا کی اصلاح ہو سکے گی۔ لیکن اگر ان کے دامن سے وابستگی نہ ہوئی تو پھر قیامت تک ان کی اصلاح نہ ہوسکے گی۔ اہل ایمان کو تسلی دی گئی ہے کہ جب تک وہ سچائیوں کے ان اصولوں کو اپنائے رہیں گے وہ دنیا اور آخرت کی بھلائی حاصل کرتے رہیں گے۔ لیکن اگر انہوں نے اس راستے کو چھوڑ دیا تو پھر وہ اپنے سامنے گذری ہوئی قوموں کے انجام کو رکھیں کیونکہ اللہ کا دستور اور قانون ہمیشہ سے ایک ہی رہا ہے اور رہے گا۔
Top