Baseerat-e-Quran - Al-Muminoon : 51
یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا١ؕ اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌؕ
يٰٓاَيُّهَا : اے الرُّسُلُ : رسول (جمع) كُلُوْا : کھاؤ مِنَ : سے الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں وَاعْمَلُوْا : اور عمل کرو صَالِحًا : نیک اِنِّىْ : بیشک میں بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو عَلِيْمٌ : جاننے والا
اے پیغمبرو ! پاک چیزوں میں سے کھائو اور عمل صالح کرو۔ بیشک جو کچھ تم کرتے ہو اس سے میں واقف ہوں۔
لغات القرآن : آیت نمبر 51 تا 61 : الرسول (رسول) (پیغمبر) ‘ الطیبات (طیبۃ) پاکیزہ۔ ستھری چیزیں ‘ امۃ (امت۔ جماعت) ‘ تقطعوا (تم کاٹتے ہو) ‘ زبر (زبرۃ) کسی چیز کو ٹکڑے ٹکڑے کردینا ‘(حزب) جماعت۔ فرقہ ‘(فرحون) خوش ہونے والے ‘(غمرۃ) گہرا پانی۔ غفلت ‘(نمد) ہم دیتے ہیں ‘(نسارع) ہم دوڑتے ہیں۔ ہم جلدی کرتے ہیں ‘(مشفقون) لڑنے والے۔ اندیشہ رکھنے والے ‘(وجلۃ) ڈرانے والے ‘(سابقون) سب سے آگے پہنچنے والے۔ تشریح : آیت نمبر 51 تا 61 : خاتم الا نبی اء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذات پر جس نظام زندگی کی تکمیل فرمائی گئی ہے اس کی سب سے بڑی عظمت یہ ہے کہ وہ نظام زندگی صرف وہی راستے نہیں بتاتا جس سے انسان کی آخرت کی زندگی سدھر جائے بلکہ آخرت کے ساتھ ساتھ اس کی دنیاوی زندگی کے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں اس کی بھر پور رہنمائی کرتا ہے۔ خاص طور پر وہ چیزیں جن سے مومن کے جسم ‘ روحانیت اور قلبی کیفیات کو نقصان پہنچ سکتا ہے ان سے بچنے کی ہر ممکن تدبیریں بتاتا ہے تاکہ مومن کے جسم کی حفاظت کے ساتھ اس کی روح کی تابانی میں بھی کوئی فرق نہ آسکے۔ دین اسلام ہمیں ہر قدم پر رزق حلال کی برکتوں اور رزق حلال کی تلاش میں ہر طرح کی مشکلات کو برداشت کرنا سب سے بڑی عبادت اور اعلی ترین نیکی ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) جو معصوم ہوتے ہیں اور ہمیشہ حلال غذائیں ہی کھاتے اور عمل صالح کا پیکر ہوا کرتے ہیں ان سے فرمایا جارہا ہے۔ اے رسول ! تم حلال اور پاکیزہ چیزیں کھائو اور عمل صالح کرو اس آیت میں اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو پاکیزہ چیزوں کے کھانے اور عمل صالح کا حکم دیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کے واسطے سے ان کی امتوں کے ہر فرد کو اس بات کی تاکید فرمائی ہے کہ اگر وہ عمل صالح اختیار کرنے اور نیکیوں سے بھر پور زندگی گذارنا چاہتے ہیں تو ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ حلال اور پاکیزہ چیزیں کھا کر اپنے جسم اور روح کی حفاظت کریں۔ انسان جو بھی لقمہ حلق سے نیچے اتارتا ہے اس کے اثرات ہمارے جسم اور معاشرہ پر پڑتے ہیں ظاہری اور باطنی اثرات اگر بہتر ہیں تو وہ معاشرہ کو بہتر بناتے ہیں اور اگر خراب ہیں تو وہ انسانی اخلاق کو بری طرح تباہ کردیتے ہیں۔ اگر غذا ناجائز ‘ حرام اور گندی ہے تو اس کے باطنی اثرات تو یہ ہیں کہ انسان کے سارے اعمال واخلاق غلط رخ اختیار کرلیتے ہیں ‘ دعائیں قبول نہیں ہوتیں ‘ گھروں سے مال و دولت سے برکتیں اٹھ جاتی ہیں ‘ حسن عمل اور توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔ اس کے ظاہری اثرات یہ ہوتے ہیں کہ اس معاشرہ میں ہر وقت کے لڑائی جھگڑوں اور باہمی اختلافات سے دلی سکون اور آپس کا اعتماد اٹھ جاتا ہے جو اس معاشرہ کا کڑا امتحان اور شدید آزمائش ہوا کرتی ہے۔ مذہبی اعتبار سی اس معاشرہ کے لوگ ایک اللہ کی عبادت و بندگی کے بجائے چاند ‘ سورج ‘ ستاروں ‘ درختوں اور پتھر ‘ لکڑی اور مٹی کے بنائے ہوئے بتوں کو اپنا معبود سمجھ بیٹھتے ہیں اور ان کو اپنا مشکل کشا مان کر ان سے اپنی مرادیں اور منتیں مانگتے ہیں۔ غرضیکہ روحانی اور جسمانی گراوٹ کی وہ انتہا آجاتی ہے جہاں کفر و شرک فسق و فجور اور تفرقہ بازی اختیار کرنے والے پور معاشرہ کو اپنی خود غرضیوں کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آزمائش کے لئے ان (بدکاروں پرض خوش حالی اور مال و دولت کی کثرت کے دروازے کھول دیتا ہے یہاں تک کہ جب وہ ان پر اترانے اور غرور وتکبر کرنے لگتے ہیں تو ان کو پکڑ لیا جاتا ہے۔ جب تک ان کو مہلت دی جاتی ہے تو وہ مال و دولت کی کثرت اور خوش حالی کو اپنا کمال سمجھنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا اللہ ہم سے خوش ہے کیونکہ اگر وہ ہم سے ناراض ہوتا تو ہمیں خوش حالی اور اہل ایمان کو بد حالی میں مبتلا کیوں کرتا۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ وہ اس و بھول گئے جس کی انہیں نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر نعمتوں کے دروازے کھول دیئے ‘ یہاں تک کہ جب وہ ان چیزوں پر جوان کی دی گئی تھیں اترانے لگتے ہیں تو ہم ان کو اچانک پکڑ لیتے ہیں۔ جس سے وہ حیران وپریشان رہ جاتے ہیں۔ (سورۃ الا نعام) خلاصہ یہ ہے کہ حرام و ناجائز غداؤں اور بد عملی سے انسان کو روحانی اور جسمانی شدید نقصانات اٹھانا پڑتے ہیں۔ اس کے بر خلاف پاکیزہ ‘ نفیس ‘ صاف ستھری حلال غذاؤں اور حسن عمل کی برکت سے بیشمار روحانی اور جسمانی فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ رزق حلال کی برکتوں سے انسان کو بھلے کام کرنے کی توفیق عطا کی جاتی ہے۔ اس کے جان ومال میں سات گنا برکت ہوتی ہے۔ اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ باہمی محبت و اخلاص میں ترقی ہوتی ہے۔ گھروں سے معاشرہ سے اختلافات اور لڑائی جھگڑے ختم ہوجاتے ہیں سب سے بڑھ کر آخرت کی کامیابی اور ابدی راحتیں ہیں جو جنت میں ان کو ہمیشہ کے لئے دی جائیں گی۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو باقی رکھنا اور ترقی دینا چاہتا ہے تو اس قوم میں دو باتیں پیدا کردی جاتی ہیں (1) ہر کام میں اعتدال ‘ تو ازن اور میانہ روی (2) اور دوسرے عفت وعصمت (پاکیزگی اور آبرو کی حفاظت کا جذبہ ) پیدا ہوجاتا ہے اور جب اللہ کسی قوم سے رشتہ توڑ لینا چاہتا ہے تو اس کو رزق میں وسعیتیں ( مالی خوش حالی ‘ عیش و آرام) دے کر ان پر خیانت اور بےایمانی کے درواز کھول دیتا ہے اور جب وہ غرور وتکبر کرنے لگتے ہیں تو ان کو پکڑ لیا جاتا ہے ( اور عبرت ناک سزائیں دی جاتی ہیں) ان تمام باتوں کو سورة المومنون کی ان آیتوں میں بیان کیا گیا ہے۔ زیرمطالعہ ان آیات کی کچھ وضاحت ملاحظہ کرلیجئے۔ فرمایا اے رسولو ! تم پاک صاف حلال رزق میں سے کھائو اور عمل صالح اختیار کرو کیونکہ تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے اور وہ ہر بات کو اچھی طرح جانتا ہے۔ فرمایا کہ یہ تمہاری امت ایک ہی امت تھی یعنی سب میں اتحاد و اتفاق تھا حالانکہ ان کا اور تمہارا رب صرف میں ہوں ‘ مجھ سے ہی ڈرنا چاہیے تھا لیکن بعض لوگوں نے اپنی اغراض اور ضد کی وجہ سے اس امت کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے۔ اور اب وہ کسی ہدایت کی طلب اور تڑپ کے بجائے جو ان کے پاس ہے وہ اپنے ہی خیال میں مگن ہیں اور وہ ایسی غفلت کا شکار ہوچکے ہیں جس میں وہ عقل و فکر سے بہت دور جاچکے ہیں فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! آپ ان کو کچھ دن اسی غفلت اور مدہوشی میں پڑا رہنے دیجئے۔ وہ وقت دور نہیں ہے جب انہیں اس کا برا انجام خود ہی معلوم ہوجائے گا۔ فرمایا کہ ان کی غفلت و نادانی کی انتہا یہ ہے کہ اللہ نے اپنی رحمت سے جو بھی مال و دولت انہیں دیا ہوا ہے اسے وہ اپنا کار نامہ سمجھ کر یہ کہتے پھرتے ہیں کہ یہ جو کچھ بھی ہمیں حاصل ہے وہ اللہ نے ہمیں ہمارے عقیدے کی درستگی کی وجہ سے دیا ہوا ہے اور ہم حق پر ہیں۔ فرمایا کہ ایسے نادانوں کو خود کو حق و صداقت پر سمجھنا انتہائی بےشعوری ‘ بد عقلی اور ناسمجھی کی بات ہے۔ البتہ وہ لوگ جو اپنے اللہ سے ڈرتے ہوئے اس کے خوف سے لرزتے رہے ہیں کہ نجانے ان کے اعمال اللہ کے ہاں قبول بھی ہیں یا نہیں۔ وہ اپنے پروردگار پر مکمل ایمان رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی کو (عبادت و بندگی میں ) شریک نہیں کرتے۔ ان کو اس بات کا ہمیشہ دھیان رہتا ہے کہ وہ جو کچھ خرچ کررہے ہیں وہ اللہ کا کرم ہے اور ان کے دل اس تصور سے کانپ اٹھتے ہیں کہ انہیں ایک دن اللہ کے سامنے پہنچ کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ فرمایا کہ ایسے لوگ ہی بھلائیوں اور نیکیوں میں بھاگ دوڑ کرتے اور نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا جذبہ رکھتے اور کوشش کرتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ کامیاب و بامراد ہیں۔
Top